پھولوں کی دھرتی پشاور کوظالموں نے ایک مرتبہ پھر لہولہاں کردیا۔پل میں ڈھیرساری لاشیں گریں۔مسجد کی دیواریں خوں آلود ہو گئیں اور ہرسو انسانی اعضاء بکھرگئے۔پشاور جب بھی بم دھماکوں سے لرز اٹھتاہے تو مجھے اس وادی کے مشہور شاعررحمت شاہ سائل یاد آتے ہیں، جنہوں نے کہا تھا؛ مادرتہ ٹول عمر د گلونو شار وئیلے دے کلہ می پیروزشے پہ بمونو پیشورہ! ستا تصویر می تل د زڑہ پہ وران کورکے ساتلے دے کلہ می پیروزو شے پہ بمونو پیشورہ! (میں نے تجھے ہر وقت پھولوں کا لہلہاتاشہر کہاہے ، میں نے تیری تصویر کو اپنے دلِ ویراں میں جگہ دی تھی ، یوںمیں کیسے تجھ کو بم دھماکوں کے رحم وکرم پر چھوڑ سکتاہوں؟) دہشتگردی کے خلاف جنگ کی سب سے بھاری قیمت فاٹا(موجودہ خیبرپختونخوا) کے غیور پختونوں کے بعددوسرے نمبر پر وادی ِپشاورکے لوگوں کو چکاناپڑی۔ہزاروں پشتون اس پرائی جنگ میں لقمہ اجل بنے ۔ انسانی لہو کے پیاسوں نے مساجد میں نمازیوں، ہسپتالوںمیں مریضوں،تعلیمی اداروں میں طلباء یہاں تک کہ مقبروں میںآسودہ خواب میتوں کو بھی نہیں بخشا۔ اس نوعیت کا سب سے دل خراش واقعہ 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) میں پیش آیا جس میں چالیس معصوم طلباء اور اساتذہ سمیت ڈیڑھ سو افرادکو انتہائی بے دردی سے شہید کردیا گیا۔ ابھی دو دن پہلے جمعہ کوپشاورایک بار پھر اے پی ایس جیسے المناک سانحے سے دوچار ہوا ۔قصہ خوانی میں واقع مسجد کو عین اس وقت نشانہ بنایا گیا جب سینکڑوں افرادجمعہ کی نماز اداکررہے تھے۔ آخری اطلاع کے مطابق اس دھماکے کے نتیجے میں اب تک باسٹھ کے قریب افراد شہید جبکہ ایک سو چورانوے زخمی ہوئے ہیں۔اس حملے کی ذمہ داری دولت اسلامیہ کے خراسان نامی چپٹر نے قبول کی۔ یاد رہے کہ داعش موجودہ دور کا سب سے سفاک ترین دہشتگرد تنظیم ہے۔ جس نے القاعدہ کی کھوکھ سے جنم لیاتھا ۔عراق اور شام میں بے شمار انسانوں کو تہہ تیغ کرنے کے بعد اس تنظیم نے سات برس قبل افغانستان میں بھی اپنا فرنچائز کھولا۔بلا ہو افغان طالبان کا جنہوںنے وہاں پر اس خونخوار تنظیم کے جنگجوئوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا ہے۔اگرچہ تنظیم کے سینکڑوں جنگجو تائب ہوکر طالبان میں شامل ہوگئے ہیںتاہم اس کا نیٹ ورک اب بھی فعال ہے۔ چونکہ افغان طالبان نے پوی دلجمعی کے ساتھ اس تنظیم کو وہاں سے ختم کرنے کا تہیہ کرلیاہے، یوں اب اس کی باقیات پاکستان میں ایک بڑے پیمانے پر کاروائیاں کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ دوسری طرف ٹی ٹی پی نے ایک مرتبہ پھر خیبرپختونخوا کے علاقوں میں اپنا اثر ورسوخ بڑھارہی ہے ۔وزارت داخلہ کے ایک بیان کے مطابق پچھلے چند ماہ کے دوران اس خطے میں دہشتگردی کے واقعات میں پینتیس فیصد اضافہ ہوا ہے ۔بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا قوم اس عفریت سے نجات پاسکے گی یا بدستور اپنے پیاروں کے جنازے اٹھاتی رہے گی؟ یہ اس وقت کا سب اہم اور بنیادی سوال ہے اور اس کا جواب ہماری ریاست کے پاس ہے ۔ اگرتو ریاست ماضی کی طرح سردمہری دکھانے اور غفلت برتنے کا وطیرہ اپنائے گی توپھر امن وامان کا خداہی حافظ ۔خدا نہ کرے ،اب کی بار اگران تنظیموں کو پھر سے یہاں پر سپیس مل گیا تواس مرتبہ نہ صرف خیبرپختونخوا کے لوگ اس عفریت کا خمیازہ بھگتیں گے بلکہ ان تنظیموں کے تجربہ کار جنگجو ملک کے ان علاقوں کے باسیوں کا جینا بھی حرام کردیں گے جن کا ماضی میں دہشت گردحملوں سے بہت کم واسطہ پڑاہے ۔اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے، ریاست کو ایک نئی حکمت عملی کے تحت اس بڑھتے ہوئے ناسور کے خلاف مدبرانہ اقدامات اٹھانا چاہیں۔ اس جنگ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے ملک کے مقتدر اعلیٰ طبقے کو پارلیمینٹ کے ساتھ ساتھ قوم کا اعتماد بحال کرناہو گا۔اسی طرح جنگی محاذ کے علاوہ ان تنظیموں کونظریاتی محاذ پر بھی کاونٹر کرنا انتہائی ضروری ہے۔ بے شک جنگی محاذ پر آپ اس کا بڑی حد خاتمہ کرپائیں گے لیکن جب تک اس جنونیت سے پیارلوگوں کے اذہان کو صاف نہیں کیا جاتا، تب تک بات نہیں بنے گی، کیوں مرورِ زمانہ کے ساتھ یہ پھرسے جڑپکڑسکتے ہیں۔ ظاہربات ہے کہ نظریاتی محاذ پرداعش اور ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں کا مقابلہ ہمارے علمائے کرام بہتر طور پرکرسکتے ہیں۔سیاسی میدان کے شہسوار علماء ہوں یا دینی تعلیمی اداروں کے مدرسین اور مساجد کے خطیب ، گو کہ ہر کیٹیگری اورہر فرقے کے علماء کرام کوباہمی اتحاد،دینی اور قومی جذبے کے ساتھ اس کارخیر میںاپنا اپنا حصہ ڈالناچاہیے ۔ ایک پیج پر رہ کر ہمارے علماء کرام اگر اس انتہا پسند بیانیے کوقرآن وسنت کی روشنی میں مسترد کردیں گے تو میرا یقین ہے کہ قوم بڑی حدتک تباہی سے بچ جائے گی۔یہاں یہ بات عرض کردوں کہ افغانستان سے فوجی انخلا کے بعدہمیں اس خام خیالی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ امریکہ کواس خطے سے مزید کوئی سروکار نہیں رہاہے۔ میرے اندازے کے مطابق ماضی کے مقابلے میں ا س خطے سے امریکہ کے کہیں زیادہ مفادات اور خدشات وابستہ ہوگئے ہیں یوں ان مفادات کو سمیٹنے اور خدشات کا ازالہ کرنے کیلئے یہ ایک نئی کھیل کا اہتمام کر چکا ہے۔ امریکہ ابھرتے ہوئے چین کو اپنے لئے مستقل دردِ سر سمجھتا ہے جس سے نپٹنے کیلئے امریکہ کے پاس انتہا پسند تنظیمیں کا تعاون حاصل کرنا اب بھی ایک بہترین آپشن ہے۔ ٭٭٭٭٭