سندھی میں کہاوت ہے ’’دریا کے کنارے اچھل کود کرنے والا بچہ آج نہیں تو کل ضرور ڈوبے گا‘‘ اس وقت وہی حال اس بھارت کا ہے جس نے اپنے اور چین کے درمیاں متنازعہ سرحد پر تعمیراتی سرگرمیاں زور شور سے شروع کردیں۔ چین نے بھارت کو سفارتی آداب کے ساتھ بتا بھی دیا تھا کہ مذکورہ اقدام اس کے لیے قابل قبول نہیں مگر بھارت کے دماغ میں دو باتیں تھیں۔ ایک بات یہ کہ بھارت نے کچھ وقت قبل امریکہ کے ساتھ جو دفاعی معاہدے کیے تھے اس میں یہ نکتہ بھی شامل تھا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ایئرپورٹ استعمال کریں گے۔ بھارت نے سوچا کہ چین نے اگر اس کے ساتھ جھگڑا کیا تو اس کا مطلب ہوگا امریکہ سے جنگ کرنا۔ چین کی نظر میں اس وقت سب سے اہم چیز معاشیات ہے ،اس لیے چین امریکہ سے ٹکر لیکر اپنی معاشی کشتی کو ڈبونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ چین کے حوالے سے بھارت کی دماغ میں دوسری بات یہ بھری تھی کہ چین اس کے ساتھ تعلقات خراب کرکے بھارت کے بہت بڑے مارکیٹ سے محروم ہونا نہیں چاہے گا۔ ان دونوں باتوں کو دھیان میں رکھ کر بھارت نے چین سے ملنے والی اپنی سرحد پر جو چال چلی وہ بہت بری چال تھی۔ چین زیادہ تر چپ رہنے والا ملک ہے۔ چین بولتا کم ہے اور کام زیادہ کرتا ہے۔ چین کی خاموشی کو بھارت نے غلط سمجھا۔ اس نے چین کے انتباہ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے گلوان وادی میں سڑکوں اور پلوں کی تعمیرات جاری رکھیں۔ جب چین نے محسوس کیا کہ بھارت اس کی خاموشی کو اس کی کمزوری سمجھ رہا ہے تب اس نے ایک قدم آگے بڑھایا اور ایک کرنل سمیت بیس بھارتی فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور کچھ کو جنگی قیدی بنا کر اپنے پاس رکھ لیا۔ یہ صدمہ بھارت کے لیے بہت مہلک ثابت ہوا۔ کیوں کہ ہندو قومپرستی کے نشے میں مخمور بھارت کے پردھان منتری نے سوچا بھی نہ تھا کہ چین اسے اس طرح پچھاڑ کر ودای گلوان میں پھینک دے گا اور اس صورتحال میں امریکہ کی طرف سے مزاحمتی قدم تو کیا ایک مذمتی بیان تک نہیں آئے گا۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جب یہ بیان دیا تھا کہ امریکہ چین اور بھارت کے درمیاں ثالثی کرنے کو تیار ہے تب چین نے اس آفر کو فٹ بال کی گیند سمجھ کر ٹھوکر ماردی۔ چین پہلے دن سے یہ کہہ رہا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے سفارتی سطح پر مذاکرات کے لیے تیار ہے مگر بھارت نے گھمنڈ کا مظاہرہ کیا اور اب بھارت کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ اپنی مجروح انا کے ساتھ چین سے مذاکرات کرے۔ بھارت کو اب سمجھ میں آگیا کہ چین کو اپنے معاشی مفادات عزیز ہیں مگر اسے اپنے جغرافیائی اور اسٹریٹیجک مفادات عزیز تر ہیں۔وہ پیسے کے لیے اس سرزمین کا سودا نہیں کرسکتا جس کو وہ تاریخی طور پر اپنے ملک کا حصہ سمجھتا ہے۔ بھارت کچھ بھی کہے مگر لداخ سے لیکر وادی گلوان تک ان بلند بالا پہاڑی علاقوں میں جو لوگ بستے ہیں ان کے چہروںکے نقوش صاف بتاتے ہیں وہ بھارتی ہیں یا چینی؟ اور یہ بات صرف لوگوں کی نہیں ہے۔ چین کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مذکورہ علاقے آج سے نہیں بلکہ کئی صدیوں سے جنگی حکمت عملی کے حوالے سے حساس ہے۔ اس لیے چین اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ مگر بھارت نے چین کو سمجھنے میں سخت غلطی کی اور اب اس غلطی کی قیمت ادا کر رہا ہے۔ نریندر مودی اپنے آپ کو تاریخ کے بڑے دور کے بعد بھارت پر حکمرانی کرنے والا ہندو قرار دیتا ہے۔ اس کو اندازہ نہیں تھا کہ چین اس کا ایسا حشر کرے گا۔ اس وقت بھارت زخمی انا کے ساتھ لڑکھڑا کر چلتا نظر آ رہاہے۔ چین بھارت کو بار بار مذاکرات کی میز کے طرف بلاتا ہے مگر بھارت سوچتا ہے کہ وہ کس منہ سے جائے؟چین سے چوٹ کھانے کے بعد نریندر مودی اس قدر گھبرا گیا کہ اس نے آن لائن آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا اور اس کانفرنس میں کانگریس اور دیگر جماعتوں نے نریندر مودی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ مودی نے مذکورہ کانفرنس میں یہ دعوی کیا کہ چین کے فوجی بھارتی علاقے میں داخل نہیں ہوئے۔ مودی کے اس دعوے پر بھارت کا میڈیا اور سوشل میڈیا اب تک ہنس رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اگر چینی فوج بھارتی علاقے میں داخل نہیں ہوئی تو کیا بھارتی فوج چینی علاقے میں داخل ہوئی؟ اگر بھارتی فوج نے ایسا کیا ہے تو پھر اس نے اپنے غلط عمل کی سزا پائی ہے۔ مودی کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں۔ مودی خاموش ہے۔ اس خاموشی میں غصہ کم اور خوف زیادہ ہے۔ مودی کے خوف کا اندزاہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے اب تک ایک بار بھی چین کا نام لیکرچین پر تنقید نہیں کی۔ اس نے اب تک صرف اشاروں کی زبان استعمال کی ہے۔ مودی کے اس زخمی حال پر بھارت کا میڈیا اور خاص طور پر بھارت کا سوشل میڈیا نمک پاشی میں مصروف ہے۔ بھارت کے مودی مخالف حلقے اس سے پوچھ رہے ہیں کہ جب بھارت اور پاکستان کے درمیان بالاکوٹ کا واقعہ ہوا تھا اس وقت نریندر مودی اور بی جے پی کتنی بھڑکیں مار رہے تھے اور اب مودی سمیت بھارت کی ساری حکمران جماعت کے ہونٹ کیوں سل چکے ہیں؟نریندر مودی کے پاس اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں۔ وہ خاموش ہے۔ مگر اس کی خاموشی کے پیچھے کوئی طوفان نہیں امڈ رہا ۔ اس خاموشی کے پیچھے کچھ ڈر اور کچھ درد ہے۔ چین نے بھارت کا بہت بڑا فوجی نقصان نہیں کیا مگر اس نے جو قدم اٹھایا ہے اس سے بھارت پورے کا پورا ہل گیا ہے۔ بھارت کا پورا اعتماد ہوا ہو گیا ہے۔ اس کو نہ صرف چین کے غصے کا احساس ہوا ہے بلکہ وہ امریکہ کی وفا کو بھی سمجھ چکا ہے۔ چین اس ووقت تنہائی کی کیفیت میں ہے۔ وہ بھارت جس نے چندریان والے خلائی منصوبے کی معرفت اپنے آپ کو چین کے برابر لانے کی کوشش کی تھی وہ بھارت اب بلندی سے نیچے گرا ہے۔ وہ بلندی جو ہمالیہ کے اس دامن میں ہے جہاں بھارت اور چین کے درمیاں متنازعہ سرحد گہری خاموشی کی امین ہے۔ نریندر مودی زبان چلانے میں مہارت ضرور رکھتا ہے مگر وہ خود بھی اس بات کا دعوی نہیں کرسکتا کہ وہ جواہر لال نہرو سے زیادہ ذہین ہے۔ جب 1962 کے دوراں ایک ماہ کی جنگ میں نہرو کی زیر اقتدار بھارت نے چین سے بہت بری شکست کھائی تھی تب ہی نہرو سمجھ گئے تھے کہ وہ چین سے گلوان وادی حاصل نہیں کرسکتے۔ اس لیے نہرو نے وادی گلوان کے لیے یہ بیان دیا تھا کہ وہاں کوئی نہیں رہتا اور وہاں گھاس کا تنکا تک پیدا نہیں ہوتا۔ اگر وہاں کی سرزمین میں بھارت کا کوئی مفاد نہیں ہے تو بھارت اس متنازعہ سرحد سے اپنی فوج ہٹا کر اس علاقے کو غیر فوجی علاقہ بنانے کے لیے تیار کیوں نہیں ہوتا جس علاقے کے لوگ بہت پرامن ہیں۔ گلوان میں تو کوئی نہیں رہتا اور ایکسا ئے چن بھی آبادی سے محروم سرزمین ہے مگر لداخ سے لیکر تبت تک اس پوری پٹی میں بدھ مت کو ماننے والے غریب لوگ بستے ہیں۔ وہ پرامن لوگ ہیں۔ انہوں نے کبھی کسی ملک کے خلاف جنگ نہیں کی۔ وہ اپنے دھیان گیان میں محو رہنے والے انسان ہیں۔ اگر ہمالیہ کے سائے میں رہنے والے انسانوں کو امن اور انصاف ملتا تو پھر کشمیر کے لوگوں سے ظلم اور بربریت کا باب بھی بند ہوجاتا ۔ کشمیر بھی لداخ اور وادی گلوان اور اکسی چن اور تبت کے پڑوس میں ہے۔ جس طرح پاکستان اور بھارت کے درمیاں کشمیر ی سرحد کو (LOC) یعنی ’’لائن آف کنٹرول‘‘ کہا جاتا ہے؛ اسی طرح چین اور بھارت کے درمیاں موجود سرحد کو (LAC) یعنی ’’لائن آف ایکچوئل کنٹڑول‘‘ پکارا جاتا ہے۔ بھارت چین کے ساتھ جنگ افورڈ نہیں کرسکتا اس لیے اس نے چین کے ساتھ متنازعہ سرحد کا نام ایل اے سی رکھا ہے مگر بھارت کو کشمیریوں کا خون بہانے کی لت پڑ گئی ہے اس لیے آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے درمیاں بچھی ہوئی سرحد کو ایل اوسی کا نام دیا ہے۔ اس کالم کا اصل مقصد یہ سوال اٹھانا تھا کہ اگر ایل اے سی پر گولی چلانا ممنوع ہے تو پھر ایل او سی پر گولے کیوں داغے جاتے ہیں؟