لاہور(انور حسین سمرائ) لاہور عبدالحکیم موٹروے کی تعمیر میں 27 ارب 38کروڑ کی مالی بے ضابطگیوں کاانکشاف ہوا ہے ۔ آڈٹ رپورٹ میں مبینہ کرپشن ،غیر معیاری اور ناقص میٹریل کے استعمال، کنٹریکٹر کو اوور پے منٹ اور بلا جواز ادائیگیوں کا انکشاف کیا گیا ہے ۔ چھ لین پر مشتمل 230کلومیٹر لاہور عبدالحکیم موٹروے کا ابتدائی پی سی ون 135ارب کا بنایا گیا تھا اورتعمیرکا ٹھیکہ زیڈ کے بی ۔ کے ایل ایم جوائنٹ وینچر کو جنوری 2016میں دیا گیا تھا۔ کنٹریکٹ کے مطابق موٹروے کو اگست 2018میں مکمل کرنا تھا۔ چھ لین پر مشتمل لاہور عبدالحکیم موٹروے کی تعمیر کیلئے کنٹریکٹر کو 8 انٹر چینج، تین ریلوے بریج، 8 مین سڑکوں پر پل، 34نہروں و راجباہوں پر پل، 60انڈر پاسز، 201جانوروں کی گزرگاہیں اور706کلوٹس تعمیر کرنا تھے ۔ ذرائع کے مطابق اس وقت کے چیئرمین نیشنل ہائی ویزے اتھارٹی کی ملی بھگت سے اس منصوبے کی لاگت کو بڑھا کر 148ارب 65 کروڑ کردیا گیا جس کے بعد آڈیٹر جنرل نے اس کا آڈٹ کیا اور27ارب 38کروڑ کے 22 آڈٹ اعتراضات اٹھائے ہیں۔ کنٹریکٹر نے غیرمعیاری میٹریل استعمال کیا اور اس کو ایک ارب 13کروڑ کی زائد پے منٹ کی گئی۔ موٹروے کے شولڈرز کی تعمیر میں ڈیزائن کو نظر انداز کیا گیا جس سے این ایچ اے کو ایک ارب 40کروڑ کا نقصان ہوا۔ اسفالٹ ویئرکورس کی مد میں 98کروڑ جبکہ موٹر وے کے 250میٹر کے ممنوعہ علاقے سے میٹریل خریدنے کی مد میں ایک ارب 58کروڑ کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا۔ غیر معیاری اور کم مضبوط سٹیل پوسٹ لگانے کی مد میں 37کروڑاور دیگر میٹریل کی مد میں 20کروڑ کے اعتراضات لگائے گئے ۔ مین کیرج وے کی تعمیر بھی اصل نقشے کے تحت نہ کی گئی جس کی وجہ سے این ایچ اے کو دو ارب 31کروڑ کا نقصان ہوا ہے ۔ موٹر وے کے راستہ میں آنے والے درختوں کو کاٹ کر غیر قانونی طور پر فروخت کردیا گیا جس سے خزانہ کو8کروڑ 85لاکھ کا نقصان ہوا ۔ کنٹریکڑ کو بلا جواز ادائیگیوں کی مد میں ایک ارب 41کروڑ،ایم ٹو انٹر چینج پر مکمل روڈ نہ بنانے کی مد میں ایک ارب 12کروڑ، کچھ استعمال کی اشیا کو بلاجواز قبول کرکے ڈیزائن میں شامل کیا گیا اور سی ایس آر ریٹس سے تجاوز کیا گیا جس سے خزانہ کو تین ارب کا نقصان ہوا ہے ۔ تعمیر میں تاخیر سے میٹریل کی قیمتوں میں بلاجواز اضافے سے منصوبے کی کل لاگت میں 4ارب 60کروڑ اضافہ کیا گیا اور کنٹریکٹر کو تین سال کیلئے کوریڈور کی مرمت کیلئے بلاجواز 6ارب 70کروڑ کی غیر قانونی فیور دی گئی ۔ موجودہ حکومت نے 31مارچ کو موٹروے کا افتتاح کیا اور اسے عوام کیلئے کھول دیاگیا لیکن ابھی اس پر تعمیراتی کام جاری ہے ۔ ذرائع نے بتایا جس افسر نے یہ کنٹریکٹ دیا تھا اس کو سابق وفاقی حکومت نے ریٹائرمنٹ کے بعد بین الاقوامی مالیاتی ادارے میں تین سال کیلئے پاکستان کا نمائندہ تعینات کردیا تھا تاکہ منصوبے میں کی گئی مبینہ کرپشن بے نقاب نہ ہوسکے ۔ آڈٹ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ لوٹی ہوئی قومی دولت کو ریکور کیا جائے اور ذمہ دار افراد کیخلاف کارروائی کی جائے ۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ آڈٹ رپورٹ وزارت مواصلات پاکستان کوبھیج دی گئی ہے تاکہ جائزہ لے کرپبلک اکاوئنٹس کمیٹی میں ڈسکس کرکے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی جاسکے ۔