ہماری صحافتی برادری میں سے برادر عزیز عامر خاکوانی کتاب بینی‘ کتاب نویسی اور کتاب دوستی کا حق ادا کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف لاہور کے کتاب میلے میں جاتے ہیں بلکہ وہ پہروں استغراق کے ساتھ کتابیں دیکھتے ہیں۔ وہ گزشتہ کئی برس سے قارئین کی دلچسپی اور رہنمائی کے لئے کتابوں کا جائزہ پیش کر رہے ہیں اور یوں شوق کتاب بینی کو مہمیزکرنے کا کارخیر انجام دے رہے ہیں۔ میں کتاب میلے کے آخری روز پیر کے دن شام ڈھلے پہنچا تو ابھی ہجوم عاشقاں موجود تھا اور اکثر سٹالوں پر کھوے سے کھو اچھل رہا تھا۔ہمارے ایک اور صاحب علم اور کتاب شناس دوست یاسر پیرزاد نے حساب کتاب لگا کر لاہور کی آبادی کے لحاظ سے کتاب میلے میں لوگوں کی حاضری کو قدرے مایوس کن قرار دیا ہے۔ تاہم مہنگائی ‘ انٹرنیٹ اور سمارٹ فون کے اس دور میں روایتی کتاب سے بڑی تعداد میں لوگوں کی دلچسپی میرے لئے تو حیران کن اور حوصلہ افزا ہے۔ ہاں البتہ پیرزادہ صاحب کی اس بات سے مجھے اتفاق ہے کہ ہمارے ہاں ذوق کتاب بینی پروان نہیں چڑھ سکا اور پڑھے لکھے لوگ بھی اس نعمت سے محروم ہیں۔ سی ایس ایس کے انٹرویوز میں جب نوجوانوں سے چند کتابوں کے نام لینے کی فرمائش کی جاتی ہے جن کا مطالعہ انہوں نے گزشتہ برس کیا ہو تو اکثر دو تین کتابوں کے نام بھی نہیں لے پاتے۔آج کل آپ یورپ یا امریکہ کے سفر پر جائیں تو ہر ایئر پورٹ پر‘ ہر ریستوران اور ہر شاہراہ پر آپ کو پیرو جواں اور مرد و خواتین سمارٹ فون سے دل بہلاتے دکھائی دیں گے مگر 1970ء اور 1980ء کی دہائی میں وہاں ہر ہاتھ میں کتاب ہوتی تھی۔ امریکہ کی تو اکثر بک شاپس میں ساتھ ہی کافی شاپ بھی ہوتی ہے جہاں آپ اپنی پسندیدہ کتاب اگر خرید نہیں سکتے تو پڑھ ضرور سکتے ہیں کافی شاپ ہو، چائے یا کافی کا مگ لیجیے اور پہروں کتاب کے مطالعے میں مگن رہیے۔ بک شاپ والے آپ کو قہر آلود نہیں بلکہ تحسین آمیز نگاہوں سے دیکھیں گے۔ بعض بک شاپس پر آج بھی کئی نئی کتابیں مہر بند ادویات کی طرح نائلون کے ریپر میں مقفل ملتی ہیں جنہیں دیکھا تو جا سکتا ہے مگر کھول کر پڑھا نہیں جا سکتا۔ کسی زمانے میں مجھے ادبی کتابیں بہت اچھی لگتی تھیں مگر اب تاریخ‘ سیاست‘ بین الاقوامی تعلقات اور سب سے بڑھ کر خود نوشت داستانوں میں بہت دلچسپی محسوس ہوتی ہے۔ کتاب میلے میں مجھے ایک کتاب کی تلاش تھی۔2018ء میں چھپنے والی یہ کتاب تقریباً ڈیڑھ برس سے انٹرنیشنل بیسٹ سیلر ہے۔ انگریزی کتابوں کی معروف بک شاپ Readingsکے اسٹال پر نہ ملی مگر میں نے کتاب میلے میں اس کی تلاش جاری رکھی اور بالآخر گوہر مقصود کو پا لیا۔ اس کتاب کا نام ہےEducationاور مصنفہ کا نام ہے Tara Westover۔تارا اس وقت عمر کے لحاظ سے تیس کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں ہے۔ اس کا خاندان امریکی ریاست اداہو کے جنوب مشرق کا رہنے والا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ تارا اپنی عمر کے 17برس تک سکول نہ جا سکی۔ اس دوران گھر پر برائے تعلیم کا بندوبست تھا۔ تارا کا دادا بہت متشدد تھا وہ اپنے خاندان کو حکومت‘ سکولوں اور ہسپتالوں سے دور رکھنا چاہتا تھا۔تارا کا والد بھی شدت پسندی میں اپنے باپ سے کم نہ تھا۔ اس کے سات بچے تھے اور تارا ان میں سب سے چھوٹی تھی۔تارا نے سترہ برس کی عمر میں اپنی خاندانی روایات سے بغاوت کی۔ اس نے گھر میں رہتے ہوئے اور اپنے باپ سے جھڑکیاں کھاتے اور بعض اوقات اس کی مارپیٹ کا شکار ہوتے ہوئے بھی ریاضیات‘الجبرا اور گرائمر وغیرہ میں بہت اچھی استعداد پیدا کر لی اور گھر سے بھاگ کر اپنی سٹیٹ کی برگھیم ینگ یونیورسٹی کا ٹیسٹ پاس کر کے داخلہ لے لیا اور وہاں سے اسے بی اے کے بعد گیٹس سکالر شپ ملا۔ اس سکالر شپ سے تارا نے ٹرنٹی کالج کیمبرج یونیورسٹی سے 2009ء میں ایم فل اور 2014ء میں تاریخ کی نظری تعبیر کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کی یہ کارکردگی ایک بہت بڑے معجزے سے کم نہ تھی۔ دسمبر 2018ء میں بل گیٹس نے تارا سے ملاقات کی اور کہا کہ مجھے ہمیشہ فخر محسوس ہوا کرتا تھا کہ میں جو نہیںجانتا اسے خود جاننے اور سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور اکثر اس میں کامیاب رہتا ہوں۔ لیکن تارا نے جس طرح سے انتہائی نامساعد حالات میں اپنے آپ کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس لحاظ سے وہ مجھ سے کہیں آگے ہے۔ بل گیٹس نے دوران گفتگو یہ بتایا کہ اسے یہ علم نہ تھا کہ کتاب کی مصنفہ تارا نے اعلیٰ تعلیم گیٹس سکالر شپ پر حاصل کی۔اسے اس بات کا علم تارا کی خودنوشت پڑھتے ہوئے اس وقت جب وہ اس صفحے پر پہنچا جہاں مصنفہ نے گیٹس سکالر شپ کے ذریعے اعلیٰ تعلیم کا حصول کیا تھا۔ 1980ء کی دہائی میں مجھے کیمبرج یونیورسٹی انگلستان میں کچھ مدت کے لئے زیر تعلیم رہنے کا موقع ملا۔ وہاں کیفے ٹیریا پر بات چیت کے دوران ایک ہسپانوی طالبہ نے بتایا کہ اس نے تقسیم ہندکے حوالے سے چھپنے والی لیری کولنز کی کتاب A Freedom by midnightپڑھ رکھی ہے۔ باتوں باتوں میں طالبہ نے بتایا کہ اس نے یہ کتاب ہسپانوی زبان میں پڑھی ہے۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ یورپ و امریکہ میں چھپنے والی ہر کتاب کا ہفتوں میں دوسری زبانوں میں ترجمہ کر دیا جاتا ہے۔ تب پاکستان میں انگریزی کتابوں کے ترجمے کا رواج نہ تھا۔ میں نے اپنے زمانہ طالب علمی میں ہی امریکی مصنف ڈیل کارنیگی کی کتاب پڑھ رکھی تھی۔ جنہیں شاید ’’میری لائبریری‘‘والوں نے شائع کیا تھا۔مگر اب میں نے دیکھا کہ انہیں زیادہ پرکشش انداز میں بعض اداروں نے شائع کر دیا ہے۔ اگرچہ شاہراہ زندگی پر نوجوانوں کو مایوسی سے بچانے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو دریافت کرنے کے لئے سٹیفن آر کوے جیسے نئے مصنفین نے بھی کئی کتابیں لکھی ہیں مگر جو بے ساختگی اور درد مندی ڈیل کارنیگی کی کتاب پریشان ہونا چھوڑیے، جینا شروع کیجیے، یا میٹھے بول میں جادو ہے، وغیرہ میںہے ،وہ کسی اور مصنف کی کتاب میں نہیں۔ میں نے خاندان کے بعض بچوں اور کچھ طلبہ کو تحفتاً دینے کیلئے بہت سی کتب خریدی ہیں کہ آج بھی بہترین تحفہ خوشبو اور کتاب ہے۔ اگرچہ یہ کتاب میلہ غنیمت ہے تاہم آئندہ کتاب میلوں میں کراچی اور بیرون ملک پبلشرز کی شمولیت کا اہتمام کیا جائے اور وسیع تر جگہ پر کتاب میلے کا انعقاد ہونا چاہیے۔