کوئی بھی پیشکش ہو اس میں احتیاط لازم ہے اپنے حواس کو بحال رکھنا‘ نتائج کو پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ مثلاً دیکھیے رابعہ عاطف نے ایک دلچسپ پوسٹ لگائی ہے کہ ’’ٹی وی کمرشلز میں مائیں اپنے بچوں کے گندے کپڑے دیکھ کر ہنستی ہیں جب ہم لوگ کپڑے گندے کر کے آتے تھے تو امی پہلے ہمیں دھوتی تھی اور پھر ہمارے کپڑے’’رابعہ کی بات درست ہے کہ ہماری مائیں ڈاڈھی ہوا کرتی تھیں۔ کبھی ہم کہتے کہ ڈر لگتا ہے تو امی کہتی بہادر بچے نہیں ڈرتے۔ خیر بات ہو رہی تھی گندے کپڑوں پر ہنسنے کی اور صفائی کی غلط اشتہار والے بھی نہیں ہیں۔ مائوں کو بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے گندے کپڑوں پر ہنس کر یہی تاثر دینا ہے کہ بات ہی کچھ نہیں۔ ابھی ڈیٹرجنٹ ڈالنا ہے اور داغ دھبے فشوں ہو جائیں گے۔ یہ صفائی بھی کمال چیز ہے جس میں سب سے اہم شے ہاتھ کی صفائی ہے اور اوپر کی سطح پر خزانے کی صفائی۔ آپ سنتے ہی ہیں کہ ہر حکومت آ کر پہلا فقرہ یہی کہتی ہے جانے والے خزانہ صاف کر گئے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں تو ایک وزیر صاحب خزانہ ہی اٹھا کر گھر لے گئے تھے۔ یہ غریبوں والی صفائی نہیں جو زیادہ سے اپنی ناک صاف کرنے پر دسترس رکھتے ہیں۔ اس میں گھر بار کی صفائی بھی ہے اپنے پہناوے کی بھی اور سب سے بڑھ کر اپنے باطن کی۔ اسلام میں تو صفائی نصف ایمان ہے۔ ہم اس کی اہمیت کو شاید نہیں سمجھتے کہ یہ ایمان خود اپنے ہاتھوں سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ایک معمولی سی بات کہ میں نے ایک شخص احسان سے ایک بات سیکھی کہ صبح اٹھ کر اپنے گھر کے سامنے سے شاپر وغیرہ اٹھا دیں تو کوئی حرج نہیں۔ مجھے تب بھی یہ پڑھ کر تکلیف ہوئی تھی کہ شہباز شریف نے لاہور کی صفائی کا ٹھیکہ ایک ترک کمپنی کو دے دیا ہے کہ کیا زندہ دل لاہوری اپنے شہر کی صفائی کرنے یا اسے صاف کرنے پر بھی قادر نہیں یا پھر انہیں یہ ذوق نہیں یا پھر وہ اتنا گند ڈالتے ہیںکہ اسے سمیٹنے کے لیے باہر والوں کی مدد چاہیے۔ کیا شہریوں کو یہ شعور نہیں دینا چاہیے کہ داتا کی نگری کو صاف رکھیں۔ یہ ہمارا گھر ہے ویسے بھی دوستوں کو اپنی صفائی پر نہیں لگاتے۔آج میں اخبار میں پڑھ رہا تھا کہ تحقیق ہو رہی کہ ترک کمپنی نے لاہور کی صفائی کے بجائے خزانہ صاف کیااور 70ارب روپے صاف کر گئے۔ دیکھیے انکوائری چل رہی ہے لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ایسی نوبت ہی کیوں آئی کہ یہ الزام لگے۔ کیا اس معاملے کو شفاف نہیں رکھا جا سکتا تھا۔حیرت ہوئی کہ باہر سے آنیوالی ترک کمپنی بھی حکومتی مزاج کی نکلی کہ اس نے بھی خزانے پر ہی ہاتھ صاف کیا: دکھ تو یہ ہے اس نے ہی لوٹا ہے ہم کو جس کے لیے گھر بار لٹایا جا سکتا تھا جہاں تک صفائی کا معاملہ ہے ہم سب اس حوالے سے غیر ذمہ دار ہیں۔ بچے تو گھر میں گند ڈالتے ہیں مگر بڑے بچوں سے کئی ہاتھ آگے ہیں وہ بچوں کا ڈالا ہوا گندم سمیٹ کر باہر محلے میں ڈال دیتے ہیں صفائی والے کو ایک صد روپے مہینہ دینے کے بھی روادار نہیں۔ صفائی کرنے والا محلے کا ذمہ دار نہیں محلوں کو صاف کرنے کا شاید رواج نہیں رہا۔ کئی روزکے بعد اگر کوئی محلے میں جھاڑو دینے آتا ہے تو اس کے دوسرے ہاتھ میں موبائل ہوتا ہے۔ مجال ہے گزرنے والے اس کی گرد سے بچ سکیں۔ اصل میں کوئی پوچھنے والا نہیں خواتین فرش دھو کر سارا پانی محلے کے سپرد کر دیتی ہیں کہ سب گھر سڑک سے اونچے ہیں۔ جو محلے پکے نہیں وہاں تو دلدل بن جاتی ہے۔ اگر سڑکیں ہیں تو وہ کچھ عرصہ تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ پی ٹریپ کا کوئی رواج نہیں۔ بار بار تاکید پر بھی کوئی کان نہیں دھرتا۔ زیادہ کہیں تو لوگ لڑتے ہیں کہ خرچہ کرنا پڑتا ہے۔ اب محلوں کی صفائی کو تو فوج کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی اگرچہ اداروں کی طرح ہی گندے ہیں۔ مجھے یاد آیا ایک مرتبہ نواز شریف نے فوج کو واپڈا کا محکمہ دیا کہ اس کی صفائی ضروری ہے لوگ زیادہ ہی بگڑ گئے ہیں۔ فوج نے جب یہ ادارہ سنبھالا تو انہیں کچھ ہی روز بعد اندازہ ہو گیا کہ دوسرے محکموں کو بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ ایک تاریخ ہے اب بھی تو صاف چلی شفاف چلی بھی صفائی کرنے کے لیے آئی ہے۔ لوگ ڈرے ہوئے ہیں کہ جو بھی آیا وہ صفائی کے نام پر خزانہ ہی صاف کر کے گیا۔ بہرحال یہ اضافی کام واقعتاً اچھا کر رہے ہیں کہ قبضہ مافیا کی صفائی کر رہے ہیں۔ جہاں تک صفائی کا تعلق ہے اس میں صاف شفاف ماحول کا ہونا بھی ضروری ہے خاص طور پر شہروں میں جس قدر آلودگی ہے سانس لینا محال ہے۔ اس ضمن میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ دھوئیں اڑاتی گاڑیوں کو پکڑیں۔ کوڑے کو آگ لگانے والے حراست میں لیے جائیں۔ ویسے بھی ارتھ وارمنگ میں کلائی میٹ بدل رہا ہے۔ گرمیاں پھیلتی اور سردیاں سکڑتی چلی جا رہی ہیں۔سگریٹ کو دیکھ لیں یہ صرف اندر ہی آلودگی نہیں پھیلاتی باہر بھی دھواں چھوڑتی ہے اور ہمیں Passive smokerبناتی ہے۔ پتہ نہیں ہم کیسے سوچتے ہیں اگر آپ کوڑا دانوں کو دیکھیں تو وہ اکثر خالی پڑے ہوتے ہیں اور ان کے اردگرد کوڑے کے ڈھیر۔ ایسے یہ جیسے لوگ اوور ہیڈ سے نہیں جائیں گے سڑک پار کریں گے۔ پتہ نہیں یہ کجی کیسی ہے جو تعلیم سے نہیں صرف ڈنڈے سے دور ہو سکتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم باہر کے لوگوں کو نوازنے کے چکر میں رہتے ہیں کرکٹ ہی دیکھ لیں۔ کوچ تو باہر سے بلایا جاتا ہے حالانکہ کسی کے آنے جانے سے ٹیم کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ حال کی پرفارمنس دیکھ لیں کہ ایشیا کپ میں ایسی شرمناک شکست‘ مگر اس کا مکی آرتھر پر کیا اثر وہی جو جون نے کہا تھا: میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں آپ دیکھیں تو سہی کہ کہیں کوئی منشا بم ہے تو کہیں کوئی گجر۔ چیف جسٹس کو کہنا پڑ رہا ہے کہ گجر کی بدمعاشی نہیں چلے گی۔ وقت آنے پر یہ جگے باہر بھاگ جاتے ہیں۔ جن میں ایک بڑا جگا اسحاق ڈار ہے جس نے پوری قوم پو ودہولڈنگ ٹیکس لگایا جو جگا ٹیکس ہی تو ہے۔ اب بھی کسی کو شرمندگی نہیں کہ اس ٹیکس کو ختم کر دے۔ اپنے ہی پیسے بینک سے نکلوانے پر 16فیصد ٹیکس۔ عوام سے کسی کو ہمدردی نہیں۔ پیسے سے محبت ہے۔ غریب تو جوتے ہی کھاتا ہے اور آنے والا صرف جوتوں کی تعداد بڑھاتا ہے یا جوتے مارنے والوں میں اضافہ کرتا ہے۔ہائے یہ گلشن میں شاخ شاخ بیٹھے الو جو اسے ویرانہ بنائے ہوتے ہیں۔ ایک بھولا بسرا شعر ذہن میں آ گیا کہ اس کا تعلق بھی اصل میں صفائی سے ہے: قدر پھلاں دی بلبل جانے صاف دماغ والی قدر پھلاں دا گرج کی جانے مردے کھاون والی اور یہ ہمارے حکمران جو حلال چیز کو بھی حرام کر کے کھانے کے عادی ہیں یہ صفائی کے نام پر بھی گند ہی ڈالتے ہیں‘ شرافت کے نام پر بدمعاشی کرتے ہیں اور محافظ بن کر لوٹتے ہیں۔ انکے عمل اور کردار نے تو لغت ہی بدل کر رکھ دی ہے‘ خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد۔ ہر کوئی وہ کام کر رہا ہے جو اس کا کام نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنے کام میں ناکام اور دوسروں کے کام میں کامیاب نظر آتا ہے۔ جو بھٹکتا ہے وہی راہ بن جاتا ہے ورنہ بستی میں کہاں سیدھا چلا جاتا ہے چلیے دیکھتے ہیں کہ 70ارب روپے کا کیا بنتا ہے۔ شاید سوائے لکیر پیٹنے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ افسوس کی یا حیرت کی بات یہ کہ اس منصوبے سے شہباز شریف کو بیورو کریسی نے روکا تھا اور تو اور اس کی ٹینڈرنگ بھی نہیں ہوئی۔ بھلا بادشاہ بھی کسی کا مشورہ یا ٹینڈر مانگتے ہیں۔ سارا نظام ان کی انگلی کے گرد گھومتا ہے۔ اب صفائی کروانے والوں کی اپنی صفائی ہو رہی ہے ٹھیک کہا رابعہ نے کہ امی پہلے ہمیں دھوتی پھر گندے کپڑے۔