چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کورونا کے حوالے سے از خود نوٹس کی سماعت کی۔ دیگر ممبران میں جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس مظہر عالم خان ، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس قاضی محمد امین احمد شامل ہیں۔ سماعت کے دوران جج صاحبان نے کہا کہ کورونا کے حوالے سے صورتحال گھمبیر ہوتی جا رہی ہے، ملک میں معیشت کا پہیہ چلانا مشکل ہو جائے گا۔لوگوں کو بھوکا مرنے سے بچانا ہوگا۔جن کے پاس پیسے نہیں وہ زندگی کی بنیادی ضروریات کیسے پوری کریں ؟ گھمبیر صورتحال کے پیش نظر آئین کے آرٹیکل 54 کے تحت صدر مملکت پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کر سکتے ہیں ۔ لاک ڈاؤن کی نرمی بارے سوچنا ہوگا۔ لوگ بھوک سے بلبلا رہے ہیں ۔ لوگوں کے ہجوم اکٹھے ہو رہے ہیں۔ غریبوں کے روزگار کے بارے میں نہ سوچا گیا تو بہت برا ہوگا۔ عدالت عالیہ کا یہ کہنا بالکل بجا اور درست ہے کہ لوگ لاک ڈائون کی وجہ سے پریشان ہیں اور لاک ڈائون میں نرمی کا مطالبہ پوری قوم کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے بجا طور پر کہا کہ یہ کیسا لاک ڈاؤن ہے کہ لاک ڈاؤن کے نام پر ایک غریب آدمی کو سڑک پر جوتے مارے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف جنازے پر لوگ پہلی صف پر کھڑے نظر آتے ہیں ۔ وزیراعظم کی ایمانداری پر شک نہیں لیکن کورونا ٹیم کی کارکردگی بہتر نہیں کرپٹ لوگوں کو وزیر بنایاجا رہا ہے۔ سندھ حکومت کی کارکردگی بھی درست نہیں۔ آٹھ ارب روپے کا راشن بانٹا گیا مگر غریبوں کو نہیں ملا ۔ موزوں عہدے کیلئے موزوں شخص کا ہونا ضروری ہے ۔22 کروڑ پاکستانی عوام کی ترجمانی کرنے والے خیالات حکمرانوں کی توجہ کے متقاضی ہیں۔ بینچ نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کی کارکردگی عدم اطمینان کا اظہار کیا اور پنجاب حکومت کی بین الصوبائی نقل و حرکت کی پابندی کو آئین کے آرٹیکل 15 سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا۔نہایت ضروری ہو چکا ہے کہ بین الصوبائی نقل و حرکت بھی بحال ہونی چاہئے اور پبلک ٹرانسپورٹ کو بھی جزوی طور پر ہی سہی ضرور بحال کرنا چاہئے۔ کورونا لاک ڈاؤن کے بارے میں وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ صوبوں خصوصاً سندھ کے کہنے پر ٹرینوں کی بحالی کے شیڈول میں ایک ہفتے کی توسیع کر دی گئی ہے ۔ حالانکہ محدود پیمانے پر سہی ، ٹرینوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی بحالی ضروری ہو چکی ہے کہ پوری قوم گھروں میں قید ہے ، لوگ ذہنی اذیت کا شکار ہیں ، ڈپریشن کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور طرح طرح کے امراض لاحق ہونے کے خدشات ہیں ، سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کا یہ کہنا بھی بجا اور درست ہے کہ کورونا سے تو اللہ رحم کرے مگر لاک ڈاؤن کی بیماری اور بھوک سے بہت سے لوگوں کے مرنے کا خدشہ ہے ۔لاک ڈاؤن پر سب سے زیادہ زور صوبہ سندھ دے رہا ہے، بلاشک سندھ کے وزیراعلیٰ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لاک ڈائون اور ان کی نیت پر شک کرنا مناسب نہ ہوگامگر ان کو سماجی و سیاسی مسائل کا ادراک نہیں ، سندھ کے انتظامی معاملات میں بلاول زرداری کو بھی اہمیت حاصل ہے مگر مستقبل کے معاملات کو سمجھے میں انہیں وقت لگے گا، ان معاملات کو آصف زرداری بہت اچھے طریقے سے سمجھ سکتے ہیں مگر کورونا کے مسئلے پر آصف زرداری اور نواز شریف کی مجرمانہ خاموشی اس بناء پر ہے کہ امدادی کاروائیوں کیلئے کچھ دینا نہ پڑے۔ یہ حقیقت ہے کہ کورونا لاک ڈاؤن سے سب سے زیادہ متاثر کراچی ہو رہا ہے۔ کراچی کے مقابلے میں سندھ کے دیگر شہروں میں قدرے نرمی ہے ۔دیہاتوں میں تو لاک ڈاؤن نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ دیگر شہروں کے مقابلے میں کراچی کے مسائل زیادہ ہیں ۔ کثیر آبادی کے ساتھ ساتھ غریبوں کی کثیر تعداد کراچی میں موجود ہے۔ایم کیو ایم کی قیادت جو کہ سندھ اور کراچی کی تفریق پیدا کرنے کیلئے ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتی ہے نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھی قیادت کراچی کے مہاجرین سے بدلہ لے رہی ہے اور جان بوجھ کر کراچی کے لوگوں کو تنگ کیا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ پیپلز پارٹی کے پاس کراچی کا مینڈیٹ نہیں ہے، کراچی کا مینڈیٹ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے پاس ہے۔یہ ایشو بہت حساس اور خطرناک ہے، مراد علی شاہ کو اس کا ادراک کرنا چاہئے اور لاک ڈائون میں نرمی کی حمایت کرنی چاہئے اور اس تاثر کا خاتمہ بھی ضروری ہے کہ صوبوں اور وفاق کے درمیان اتحاد کا فقدان ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کورونا وائرس سے زیادہ خوف نے لوگوں کو پریشان کیا ہوا ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں لاک ڈاؤن نے عالمی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے،امداد دینے والے ممالک بھی امداد کے منتظر نظر آتے ہیں ۔ وزیراعظم عمران خان عالمی اداروں اور ترقی یافتہ ممالک سے قرضوں میں ریلیف کا جو مطالبہ کیا ہے، مثبت جواب کی توقع کم ہے۔ سال رواں میں عالمی معیشت سنبھلتی نظرنہیں آ رہی، ہر طرف بے اطمینانی اور پریشانی کا ماحول ہے، سی پیک کے حوالے سے چین سے کچھ سرمایہ کاری آ سکتی ہے، امریکا سے توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔عمران خان نے بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں سے اپیل بہتر ہے مگر وہ تو پہلے بھی کر رہے ہیں ،اصل مسئلہ اس وقت حل ہوگا جب قارون کی سوچ رکھنے والے سرمایہ داردولت باہر لائیں گے ، لیکن اس سے بڑھ کر معاشی سرگرمیوں کی بحالی ہے، اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی یہی ایک صورت ہے، وزیراعظم فیصلہ کریں ٹائیگر فورس بنانے کی بجائے پاکستان کو ٹائیگر بنائیں ۔ ٹائیگر فورس پر اعتراض صرف اعتراض نہیں کہ جس مقصد کیلئے یہ فورس بنائی گئی ہے اس کیلئے ٹائیگر نہیں خادموں کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دو دن میں امدادی رقوم کی تقسیم کے دوران جو بھگدڑ مچی اور بد نظمی کے ساتھ حکومت کی اپنی نافذ کردہ فعہ 144 کی جو خلاف ورزی ہوئی اس موقع پر تحریک انصاف کی ٹائیگر فورس کا کوئی کردار نظر نہیں آ رہا ۔ اچھی بات کی تحسین نہ کرنا بھی بد دیانتی میں شمار ہوتی ہے۔ حکومت کی طرف سے اربوں روپے ضرورت مندوں کو دینا اچھا عمل ہے مگر طریقہ کار درست نہ ہے۔