پاکستان گڈز ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن اور منی مزدا ایسوسی ایشن نے پولیس کی جانب سے ڈرائیور کو ہراساں کرنے اور جی ٹی روڈ سمیت ٹرک اڈوں پر ٹائر شاپس‘ ورکشاپس ‘ ہوٹلز نہ کھولنے پر ملک بھر میں اجناس اور ادویہ کی سپلائی بند ہونے کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے۔ پریشان کن صورتحال کے پیش نظر 50فیصد ڈرائیوروںنے گاڑیاں چلانے سے معذرت کر لی ہے۔ کرونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر حکومت نے لاک ڈائون کرنے کا اچھا فیصلہ کیا ہے ‘اس سے لوگ گھروں میں بیٹھیں گے۔ نقل و حرکت ختم ہو گی جو وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ کیونکہ اٹلی ‘ایران ‘ اور چین میں زیادہ ہلاکتوں کی وجہ لوگوں کا حکومتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرنا تھا جس کے باعث اس وائرس سے اموات میں اضافہ ہوا۔ پاکستان میں لاک ڈائون کرتے وقت گڈز ٹرانسپورٹرز کے ایس اوپیز نہیں بنائے گئے۔ جس کے باعث انہیں سفر میں شدید دشواری کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کئی مرتبہ یہ خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ لاک ڈائون سے اشیاء ضروریہ کی قلت پیدا ہو گی۔ دیہاڑی دار مزدوروں کے گھروں میں چولہے ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔ اس وقت چاروں صوبوں میں لاک ڈائون کا لیول مختلف ہے ۔ کسی جگہ ٹرانسپورٹ چل رہی ہیں جبکہ بعض مقامات پر پابندی عائد ہے۔ حکومت نے جیسے ہی لاک ڈائون کا اعلان کیا‘ پولیس نے جی ٹی روڈ سمیت مختلف مقامات پر ٹائر شاپس اور ورکشاپس بند کروا دیں۔ گڈز ٹرانسپورٹرز سے وابستہ عملے کے کھانے ‘آرام کرنے اور گاڑی کے ٹائر تبدیل کرنے سمیت اس کی فٹنس کے لئے ورکشاپس کی ضرورت ہوتی ہے اگر ورکشاپس بند ہوں گی تو پھر ٹرکوں کا سڑکوں پر رواں رہنا مشکل ہو جائے گا۔ جنوری میں حکومت نے ایکسل لوڈپر پابندی عائد کی تھی جس کے خلاف گڈز ٹرانسپورٹرز نے ہڑتال کی تو ملک بھر میں آٹے کی سپلائی متاثر ہوئی اور آٹے کا بحران پیدا ہو گیا اب اگر حکومت نے گڈز ٹرانسپورٹر اور منی مزدا ایسوسی ایشن کے لئے ایس او پیز جاری نہ کئے تو ملک بھر میں اشیا ضروریہ آٹے گندم ‘ دالیں ‘ دودھ اور ادویات کی سپلائی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔صوبائی حکومتیں اور مرکز مال بردار گاڑیوں کو روکنے کی بجائے مسافر بسوں پر پابندی یقینی بنائیں تاکہ لوگوں کی آمدورفت رک سکے۔ لاک ڈائون کے باعث ہر کوئی اس کوشش میں ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال کے لئے اشیا ضروریہ کا ذخیرہ کرے جبکہ اس پریشان کن صورتحال میں بھی گرانفروشی عروج پر ہے ۔کئی اشیاء کی 100فیصد زائد قیمت میں فروخت جاری ہے لیکن انتظامیہ نے اس پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ سبزیوں اور پھل فروشوں نے گرانفروشی کی انتہا کر دی ہے لیکن انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں حالانکہ انہیں اس بات کا بھی علم نہیں کہ لوگوں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھا کر وہ جو مال و اسباب اکٹھا کر رہے ہیں کیا استعمال بھی کر سکیں گے۔ اس موقع پر تو تاجر برادری کو اپنے منافع بھی کم کر دینے چاہئیں تاکہ لوگ مشکل حالات میں پریشان نہ ہوں۔ یورپ میں کئی دنوں سے کرفیو نافذ ہے لیکن وہاں کے تاجروں نے گرانفروشی کی نہ ہی وہاں پر کسی چیز کی قلت پیدا ہوئی ہے ۔یوٹیلیٹی اسٹورز پر وافر مقدار میں ہر چیز دستیاب ہے لیکن یہاں پر انتظامیہ کی غفلت کے باعث مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ایم ڈی یوٹیلیٹی سٹور اس کا نوٹس لیں تاکہ تمام شہریوں کو آسانی سے سامان مل سکے۔ پولیس حکومتی احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر رہی ہے لیکن حوالات میں تمام افراد کو ایک جگہ پر رکھنے سے بھی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ خدانخواستہ اگر حوالات میں ایسا شخص بھی بند ہوا جس میں کرونا کی علامات پائی جاتی ہیں تو تمام قیدیوں کو متاثر کرے گا۔ پولیس گرفتار افراد کو ایک جگہ پر اکٹھا مت کرے بلکہ ان کے درمیان 5سے چھ فٹ کا فاصلہ رکھے تاکہ گرفتار شدہ افراد محفوظ رہیں۔ اسی طرح ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار بھی اکٹھے ٹولیوں کی شکل میں کھڑے ہوتے ہیں انہیں بھی فاصلے پر کھڑا ہونا چاہیے تاکہ دوران ڈیوٹی وہ اس وبا سے محفوظ رہیں۔بازار بند ہونے کے باعث عوام کا زیادہ رش یوٹیلیٹی سٹورز پر ہے۔ ملک بھر میں 4ہزار کے قریب یوٹیلیٹی سٹور ہیں جن پر 14ہزار کے قریب ملازمین ڈیوٹی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان سٹوروں سے یومیہ 20لاکھ افراد خریداری کرتے ہیں۔ خریداروں کی جانب سے حفاظتی تدابیر نظر انداز کئے جانے کے سبب لاکھوں افراد میں کرونا پھیلنے کا خدشہ ہے۔ ایم ڈی یوٹیلیٹی سٹورز کی اس سے بڑھ کر اور کیا نااہلی ہو گی کہ انہوں نے ابھی تک ملازمین کو کرونا وائرس سے بچائو کے لئے ماسک‘ دستانے اور حفاظتی کٹس فراہم نہیں کیں۔ اگر حکومت نے ایسی ہی غفلت اپنائے رکھی تو پھر چودہ ہزار ملازمین کی زندگیاں غیر محفوظ ہو جائیں گی۔ اس کے علاوہ یوٹیلیٹی سٹورز پر خریداروں کے درمیان بھی فاصلہ رکھیں۔فروٹ اور سبزی منڈیوں میں بھی لوگ بغیر حفاظتی انتظامات کے خریداری کر رہے ہیں ضلعی انتظامیہ اس کا نوٹس لے بیوپاری بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ اس کے علاوہ بینکوں ‘ سٹورز اور دیگر جگہوں پر قطار سسٹم متعارف کرایا جائے مختلف جگہوں پر عوامی آگاہی کے لئے سماجی فاصلے کے لئے نشانات لگوائے جائیں تاکہ لوگوں میں آگاہی پیدا ہو اور وہ ایک دوسرے سے واضح فاصلہ رکھ کرکرونا وائرس سے محفوظ رہ سکیں۔ خدانخواستہ عوام نے حکومتی ہدایات پر عملدرآمد نہ کیا تو پھر صورت حال پر قابو پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا ۔اس لئے ہمیں اپنی اور دوسروں کی زندگی محفوظ بنانے کے لئے حکمت عملی سے حفاظتی تدابیر پر عملدرآمد یقینی بنانا ہو گا۔