وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے لاک ڈائون میں نرمی اور چند کاروبار کھولنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام فیصلے قومی مشاورت سے ہو رہے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ کورونا کے کیسز اور ا س سے متاثرہ افراد کی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن لوگوں سے طویل مدت تک روزگار نہیں چھینا جا سکتا اس لئے لاک ڈائون میں نرمی کا فیصلہ کیا گیا۔ حکومت نے لاک ڈائون میں نرمی کر کے اسے سمارٹ لاک ڈائون کا نام دیا ہے۔ سمارٹ لاک ڈائون کے تحت چھوٹی دکانوں کو مخصوص اوقات میں کاروبار کرنے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ کاوبار کھولنے کے حوالے سے وفاق اور سندھ میں جو اختلاف دکھائی دے رہا تھا وہ بھی بظاہر دور ہو چکا ہے۔ حکومت نے بعض تفریحی پارکس‘ پولو کلب‘ ٹینس کورٹ‘ جم وغیرہ کو کھولنے کی مشروط اجازت دی ہے۔ حجام اور درزی بھی اپنا کام کر سکیں گے۔ حکومت نے ساتھ ہی انتباہ کر رکھا ہے کہ ایس او پیز کی خلاف ورزی کی صورت میں کھولے گئے کاروبار کو دوبارہ بند کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ملک بھر میں کورونا سے 200افراد جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ 10ہزار نئے متاثرین سامنے آئے۔ یوں جاں بحق ہونے والوں کی مجموعی تعداد 661سے زاید ہو چکی ہے۔ پاکستان میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 30ہزار 500ہو گئی ہے۔ ان میں سے آٹھ ہزار افراد صحت یاب ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ کورونا کا مرض کم ہونے کی بجائے پھیل رہا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان متاثرہ ممالک کی فہرست میں بھی اوپر آ گیا ہے۔ یہ صورت حال اطمینان بخش نہیں‘ خاص طور پر انتظامی استعداد اور صحت کی سہولیات کا جائزہ لیں تو پاکستان کے وسائل اس مرض سے نمٹنے کے لئے ناکافی دکھائی دیتے ہیں۔وطن عزیز میں دو کروڑ سے زاید دیہاڑی دار ہیں۔ جو لوگ چھوٹی دکانوں‘ مارکیٹوں اور مختلف کلب وغیرہ میں خدمات انجام دے کر روزی روٹی کماتے ہیں ان کی تعداد بھی خاصی زیادہ ہے۔ لاک ڈائون وبا کو روکنے کا ایک موثر طریقہ ہے۔ کسی ملک کے پاس اگر مالی وسائل کی کمی ہو اور آبادی کا بڑا حصہ لاک ڈائون کی وجہ سے روزگار کے مسائل کا شکار ہونے لگے تو حکومت کے پاس اس کے سوا چارہ نہیں رہتا کہ وہ بھوک اور لاک ڈائون کے درمیان ایک ترازو نصب کر دے۔ پاکستان میں دو ماہ لاک ڈائون میں گزرے ہیں۔ اس دوران حکومت نے اجتماع والے مقامات کو بند کر دیا‘ طبی عملے کی حفاظت کے لئے آلات کا بندوبست کیا‘ قرنطینہ مراکز قائم کئے‘ ویکسین کی تیاری کا آغاز کیا‘ وینٹی لیٹر اور این ایم 95ماسک خود تیار کرنے کا بیڑہ اٹھایا‘ عالمی مالیاتی اداروں اور قرض دینے والے ممالک سے اپیل کی کہ پاکستان کے قرضوں میں رعایت دی جائے۔ ان سب اقدامات کے ساتھ ساتھ حکومت نے غریبوں اور دیہاڑی دار افراد کے لئے احساس کفالت پروگرام کا آغاز کر کے لاک ڈائون کی پابندیوں سے متاثرہ افراد کو سہولت پہنچانے کی کوشش کی۔ احساس کفالت پروگرام کے تحت کم آمدنی والے اور غیر مستقل روزگار رکھنے والے افراد کی مدد اب بھی جاری ہے لیکن کورونا وبا کے ختم ہونے کا امکان تاحال دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے غیر یقینی ماحول میں کاروباری مراکز کو زیادہ دیر تک بند رکھنا کاروباری طبقے کو کچلنے کے مترادف ہو گا۔ یہ طبقہ کسی بھی سماج کی معیشت کا بازو ہوتا ہے‘ بازو مفلوج رکھ کر معیشت کے جسم کی حفاظت ممکن نہیں۔ یہ لائق تحسین امر ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے اور سیاسی شخصیات کورونا کے متعلق اتفاق رائے رکھتے ہیں۔ ذاتی سطح پر انہیں اگر کسی حکمت عملی پر اعتراض ہوتا ہے تو اس کی وجہ بھی عوام کی سہولت کا خیال ہے۔ بحرانی ایام میں قیادت اور فیصلوں کی ذمہ داری حکومت کے سر آ جاتی ہے۔ اس دور کے فیصلوں کا اچھا یا برا نتیجہ بھی حکومت قبول کرتی ہے۔ محدود مالیاتی وسائل اور انتظامی استعداد کے باعث جلد یا بدیر یہ فیصلہ سبھی اقوام کو کرنا پڑ رہا ہے کہ انہوں نے کورونا کی موجودگی میں کس طرح ریاستی امور چلانا ہیں۔حکومت نے ایک فیصلہ کیا ہے کہ محروم طبقات اور معاشی بازو کا درجہ رکھنے والے طبقات کے مفادات کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ نصف گزر چکا ہے۔ عید کی تیاری کے لئے جتنی بھی سادگی اور کفایت شعاری اپنائیں یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ بچوں کے لئے جوتے اور کپڑوں کی خریداری نہ کی جائے۔ حالیہ دنوں بازاروں میں دکھائی دینے والا رش اسی وجہ سے ہے۔ بلا شبہ بعض تاجر تنظیمیں اور رہنما حکومت سے کاروبار کھولنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ اس مطالبے کے پس پردہ سیاسی مفادات کا شک بھی موجود تھا۔ کئی بار تاجروں نے حکومت کو زبردستی دکانیں کھولنے کا انتباہ کیا۔ بھوک سب سے خطرناک ہوتی ہے۔ یہ ہتھیار بھی ہے اور وجہ جنگ بھی۔ پاکستان میں سابق حکومتوں نے سیلاب‘ زلزلے اور دیگر آفات کے وقت بنیادی تقاضوں کو نظرانداز کر کے فیصلے کئے جن کا نقصان بعد میں سامنے آتا رہا۔ تاجر اور دکاندار برادری کو اس بات کی ذمہ داری قبول کرنا ہو گی کہ ان کا روزگار حکومتی ایس او پیز کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر خدانخواستہ کاروبار کی جگہ پر بدنظمی ہوتی ہے اور حفاظتی تدابیر کو نظر انداز کرنے سے کورونا کی شدت میں اضافہ ہوا تو پوری تاجر برادری کو اس کا نقصان ہو سکتا ہے۔ زندگی بہرحال منافع اور کاروبار سے بیش قیمت ہے۔ حکومت نے زندگی اور معیشت بچانے کے لئے لاک ڈائون میں نرمی کا جو فیصلہ کیا ہے وہ ہم سب سے عموماً اور تاجر برادری سے خاص طور پر ذمہ دارانہ طرز عمل کا تقاضا کرتا ہے۔