ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو کیا یہ کافی نہیں ظالم کی پشیمانی کو جس میں مفہوم کوئی نہ کوئی رنگ غزل یار جی آگ لگے ایسی زباں دانی کو کیوں نہ آج ذرا زبان و ادب کی بات ہو جائے کہ مجھے ایک مشاعرہ کا حال بھی بیان کرنا ہے کہ لاک ڈائون کے طویل دورانیے کے بعد حلقہ ارباب ذوق کے بعد یہ دوسری ادبی تقریب تھی جو انتہائی نفیس الطبع شاعر علی صدف نے اپنے دولت خانے پر برپا کی تھی۔سچی بات یہ کہ ہم تو ترس گئے تھے سخن آرائی اور غزل سرائی کو مشاعرہ پر مستزاد یہ کہ ساتھ پرتکلیف عشائیہ کہ بڑے پائے کے پائے وہ بنواتے ہیں۔ پھر غنیمت ہے جو ہم صورت یہاں دوچار بیٹھے ہیں۔شہر میں گویا ثقافت دوبارہ انگڑائی لے رہی ہے۔ ایک قسمت کی اداسی اور بے کلی سے لوگ باہر آ رہے ہیں مشاعروں کی اپنی ایک روایت ہے دہلی‘لکھنو اور لاہور اپنی اپنی پہچان رکھتے تھے اور رکھتے ہیں۔ بنیادی طور پر مشاعرے لوگوں کی تربیت بھی کرتے تھے اور ان کے ادبی ذوق کی تسکین کا باعث بھی تھے۔ ہمارے لاہور میں حضوری باغ کے مشاعروں سے لے کر جشن بہاراں کے مشاعرے اور شمع تاثیر مشاعرے تک باقاعدہ ایک تاریخ ہے۔ شمع تاثیر مشاعرے کا تو میں کنویئر رہا ہوں شعرا کی پوری کہکشاں سٹیج پر جھلملاتی تھی: پھول کھلنے لگے یادوں کے پس غرفہ چشم بزم یاراں ہوئی آراستہ سبحان اللہ مذکورہ مشاعرہ میں صدارت بندہ ناچیز کے سپرد ہوئی اور مہمان اعزاز ڈیرہ غازی خاں سے آئے ہوئے شیراز غفور تھے جو محفل ہائے دعوت شیراز کے حوالے سے ملک میں شہرت رکھتے ہیں۔ نظامت کے فرائض طرح دار شاعر ظہیر احمد ظہیر نے ادا کئے۔ بہت ہی اچھی شاعری سننے کو ملی کہ اس مشاعرے میں شاعر زیادہ اور سننے والے کم تھے۔ شاعر ہمعصروں کی موجودگی میں تو چنیدہ کلام سناتے ہیں کہ دھاک بیٹھ سکے اس لئے اچھا کلام سماعتوں کو لطف آسا کر رہا تھا۔ جاوید قاسم استاد شاعر ہیں بات کہنے کا قرینہ انہیں آتا ہے: رہنا نہیں ہمیشہ زمیں آسمان کو حسرت بھری نگا سے دیکھو جہاں کو پایا ہے لکھنو سے نہ دلی سے وہ شرف پنجاب سے ملا ہے جو اردو زبان کو اس میں واقعتاً کوئی دوسری رائے نہیں کہ پنجاب نے جو فکشن اور شاعری میں لوگ پیدا کیے وہ بے مثال ہیں۔ میں صرف شاعری کی بات کروں تو اقبال سے لے کر منیر نیازی ‘شہزاد احمد اور امجد اسلام امجد تک ایک طویل فہرست ہے ایک پختہ اور آفاقی شاعرمجید امجد کی صورت میں بھی ہیں کہ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا بہتر بات کر سکتے ہیں اردو کی آبیاری یہاں بہت ہوئی اب بھی اردو زبان کی ترویج کے لئے جاندار تحریک فاطمہ قمر پنجاب ہی سے چلا رہی ہیں اور یہ تحریک کی صورت اختیار کر گئی ہے خیر بات ہو رہی تھی شاعری کی عرفان صادق نے بھی بہت اچھا کلام سنایا میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ مشاعرہ پاک برٹش آرٹس کے زیر اہتمام تھا: ایس توں وڈا پہین وی کوئی نئیں سجناں باہجوں جین وی کوئی نئیں (عرفان صادق) سجاد بلوچ نے بھی خوب داد پائی وہ ایک سنجیدہ طبع شاعر ہے اور اس نے 92 نیوز کے ادبی صفحہ کو جدت اور آفاقیت سے روشناس کیا ہے۔ چونکہ وہ ہنر مند اور صاحب مطالعہ ہے اس لئے وہ معیار پر سمجھوتہ نہیں کرتا۔ وہ اور اس کی شریک حیات عنبرین صلاح الدین دونوں خوبصورت شاعر ہیں انداز آپ خود دیکھ لیں کہ میری توصیف پردال ہے: دل مسافر کو ٹھکانے کی پریشانی ہے اور مجھے خاک اڑانے کی پریشانی ہے اک پریشانی تو یہ ہے کہ ہے دنیا فانی ایک دنیا کو کمانے کی پریشانی ہے مشاعروں کی ایک خرابی یہ بھی ہے کہ یہاں شعرا زیادہ تر آزمایا ہوا کلام پڑھتے ہیں کہ جس پر داد ملے۔ بعض تو ساری عمر ایک دو غزلوں پر ہی کام چلاتے رہے اور دنیا بھر کے مشاعرے پڑھتے رہے۔ بہت کم شعرا ہیں جو تازہ تخلیق پیش کرتے ہیں۔ آپ آب حیات میں شعرا کے معرکے دیکھیں تو وہاں ایک مسابقت تھی اساتذہ اپنے شاگردوں کے ہمراہ جلوہ گر ہوتے۔تازہ کاری کی خوبصورت مثالیں سامنے آتیں۔ آپ کی دلچسپی کے لئے بتاتا چلوں کہ ایسی ہی معاصرانہ چشمک سے بڑے بڑے شعر وجود میں آئے۔ایسے ہی انیس نے نہیں کہا تھا: لگا رہا ہوں مضامین تازہ کے انبار خبر کرو مرے گلشن کے خوشہ چینیوں کو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مشاعروں کو اسی معیار پر استوار کیا جائے تو نوجوان اس سے سیکھیں گے اسے صرف داد و تحسین کے لئے نہیں ہونا چاہیے سامعین کو اوپر اٹھا کر معیار بلند کریں۔چلیے پہلے مشاعرے میں پڑھے گئے چند اشعار دیکھ لیں: اگر اب بھی زبان کھولی نہ بستی کے مکینوں نے تو ممکن ہے کسی لمحے درو دیوار بولیں گے (افضل پارس) بے وفا شخص سے ایک بار تو پوچھا ہوتا کیا وہ کافر سے مسلمان نہیں ہو سکتا (صغیر احمد صغیر) یا تعلق ہی سرے سے نہ بنایا جائے یا محبت کو دل و جاں سے نبھایا جائے (علی صدف) تو مٹانے چلا ہے خلقت کو کاش خلقت سے بات کی ہوتی (شبنم مرزا) مانا کہ اوج پر ہے ستارا رقیب کا ہم کو بھی مل گیا ہے ہمارے نصیب کا (شفقت اللہ مشتاق) اس روداد کو مہمان خصوصی کے شعر پر ختم کرتے ہیں: سر کٹانے سے بھی نہ جائے گا داغ دستار پر لگا ہوا ہے