گزشتہ سال اکتوبر سے لبنان میں بدامنی ہے‘ حکومتی اشرافیہ کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں‘وقفہ وقفہ سے ہنگامے پھوٹتے رہتے ہیں۔ گیارہ فروری کو نئی کابینہ نے پارلیمان سے ا عتماد کا ووٹ لینا تھا تو مظاہرین اور سیکیورٹی عملہ کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔مشتعل ہجوم نے ارکان اسمبلی کی گاڑیوں پر انڈے مارے‘ پارلیمان جانے والی سڑکیں بلاک کیے رکھیں۔ پولیس کو کئی جگہ آنسو گیس پھینک کر احتجاج کرنے والوں کو منتشر کرنا پڑا۔تین ماہ پہلے ایسے ہی ہنگاموں کے باعث لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری کو اقتدار چھوڑناپڑا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ احتجاج شروع اس وقت ہوا جب حریری کی حکومت نے وٹس ایپ پرچھ ڈالر ماہانہ ٹیکس لگانے کا ارادہ ظاہر کیا ۔ یہ فیصلہ انہیں واپس لینا پڑا لیکن لوگوں کا غصہ کم نہ ہوا۔ کم آمدن والے لوگ پہلے ہی مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث بھرے بیٹھے تھے‘ اس ٹیکس نے چنگاری کاکام کیا اورملک بھر میں آگ لگ گئی۔ دو ماہ تک ملک وزیراعظم کے بغیر رہا۔ اس سال بیس جنوری کو پارلیمان کی مدد سے ایک ٹیکنوکریٹ حسن دیاب نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا۔ مشرقی بحیرۂ روم کے ساتھ شمالی عرب میں واقع لبنان تقریبا ًستّر لاکھ آبادی پر مشتمل ہے۔ گو لبنان میں پارلیمانی جمہوریت قائم ہے لیکن اس کی آڑ میں ایک چھوٹا ساٹولہ سیاست پر قابض ہے۔ ملک فرقہ وارانہ طور پر تقسیم کا شکار ہے۔ یہاں کی آبادی سنّی مسلمان‘ شیعہ مسلمان ‘ عیسائی اور الموحدین (دروز) مذہب کے لوگوں پر مشتمل ہے۔تقریبا ستّر فیصد آبادی مسلمان‘ پچیس فیصد عیسائی اور پانچ فیصد دروز ہے ۔بیروت‘ سدون‘ تریپولی وغیرہ سنّی آبادی کے مراکز ہیں۔ وادی بقا‘ بیروت کا جنوبی نواح شیعہ آبادی کا گڑھ ہے۔ کوہِ لبنان اور اسکے ارد گرد کے علاقہ میں عیسائی آبادی کی اکثریت ہے۔ بیروت کے مشرق اور جنوب کے پہاڑی علاقوں میں دروز آباد ہیں۔پندرہ برس کی خانہ جنگی کے بعدانیس سو نواسی میں کیے گئے ایک معاہدہ کے تحت لبنان کا سیاسی نظام فرقہ وارانہ شراکت اقتدار پر تشکیل دیا گیا۔غیر تحریری آئینی روایت کے مطابق صدرمارونیہ عیسائی مذہب کی آبادی سے ہوتا ہے‘ پارلیمان کا اسپیکر شیعہ مسلک سے جبکہ وزیراعظم سنّی آبادی سے۔ لبنان کو زیادہ آمدنی والا ترقی پذیر ملک سمجھا جاتا ہے جو ارد گرد کے دیگر ملکوں سے زیادہ خوشحال ہے۔ اس کی اوسط فی کس قومی دولت تقریباًبارہ ہزار ڈالر یعنی پاکستان کی آمدن سے گیارہ گُنا ہے۔تاہم لبنان کی دولت قرضوں کی مرہونِ منت ہے‘ ٹھوس معاشی ترقی کی نہیں۔لبنان کی معیشت غیر پیداواری معیشت ہے۔ صرف دس فیصد زراعت اور بیس فیصد صنعتی شعبہ پر مشتمل ہے۔ ستّر فیصد معیشت خدمات اور بینکنگ پر مبنی ہے۔ ملک بہت زیادہ بیرونی قرضوں میں جکڑ اہوا ہے۔ اس کے قرضے اسکی مجموعی قومی دولت (جی ڈی پی) کے ایک سو پچپن فیصد کے برابر ہیں۔ امیر اور بالا ئی متوسط طبقہ پر مشتمل لبنان کی اشرافیہ اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانے کی عادی ہوچکی ہے۔ اسکا گزارہ آج تک اس وجہ سے ہوتا رہا کہ مشرق ِوسطیٰ کے دوسرے ملکوں میں لاکھوںلبنانی کام کرتے ہیں جو اپنی حکومت کو زیادہ شرحِ سود کے لالچ میں قرض دیتے رہے۔امیر طبقہ نے بیرونی قرضوں کوٹھوس صنعتی ترقی کی بجائے پراپرٹی کے کام اور بینکنگ سے منافع کمانے کے لیے استعمال کیا۔ یہی لوگ بینکوں کے مالک ہیں اورحکومت کوسود پر قرضے دیکر مزید مال بناتے رہے۔ اسی طبقہ کے لوگ بجلی بھی فروخت کرتے ہیں کیونکہ حکومتی ادارہ سب لوگوں کو بجلی مہیّا نہیں کرتا۔ عالمی مالیاتی ادارے لبنان حکومت سے کہتے رہے کہ حکومت کرپشن پر قابو پائے‘ اپنے اخراجات کم کرے اور ٹیکسوں میں اضافہ کرے۔ لبنان کی اشرافیہ ایسا کرنے پر تیار نہیں تھی۔ سعد حریری نے امیر طبقہ کی بجائے کم آمدن والے لوگوں پر ٹیکس لگانے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں حکمران طبقہ کے خلاف ہنگامے پھوٹ پڑے جو اب تک کسی نہ کسی شکل میںجاری ہیں۔ اس سال لبنان کو اڑھائی ارب ڈالر کے یورو بانڈ کی مدت پوری ہونے پر کروڑوںڈالر منافع ادا کرنا ہے لیکن اس کے پاس زرمبادلہ کی صورت میں پھوٹی کوڑی نہیں۔ اب لبنان کے بینک بیس فیصد شرح سود کی پیش کش کررہے ہیں لیکن کوئی اسکے بینکوں میں رقم جمع کرانے کو تیار نہیں۔ لبنان کی کرنسی پاونڈ (عربی میںلیرا)اپنی قدر کھوچکی ہے۔کھلی مارکیٹ میں لبنانی پاؤنڈ اصل قیمت سے ایک تہائی سستا مل جاتا ہے۔ ملک کی دو تہائی معیشت امریکی ڈالر میںکاروبار کرتی ہے۔ زرمبادلہ کی شدید قلت اور بحران کا شکار ہے۔ بینکوں کے پاس لوگوں کے جمع کرائے گئے ڈالر بھی انہیں دینے کو نہیں ‘ انہوں نے ڈالر نکلوانے کی حد مقرر کی ہوئی ہے۔ نادہندگی کا خطرہ لبنانی ریاست کے سر پہ منڈلا رہا ہے۔ معاشی ترقی کی شرح بہت سست ہوچکی ہے‘ تقریباً صفر کے قریب۔ حکومت کے محاصل میںمزید کمی ہوگئی ہے۔کاروباری کمپنیوں نے ملازمین کی بڑے پیمانے پر چھانٹی کی ہے۔شدید معاشی بحران سے نکلنے کے لیے لبنان کو پچیس ارب ڈالر بیرونی امداد کے طور پر درکار ہیں۔ فی الحال تو یہی لگتا ہے کہ لبنان بیرونی قرضوں کی نادہندگی (ڈیفالٹ) کو ٹال نہیں سکے گا۔ اگر ایسا ہُوا تو اس کی مجموعی قومی دولت( جی ڈی پی) فوری طور پر دس فیصد کم ہوجائے گی۔ جب کوئی ملک بے تحاشا قرضے لیکر غیرپیداواری کاموں پر لگاتا ہے تو اس کا فائدہ تو اشرافیہ اٹھاتی ہے لیکن اس کی بھاری قیمت کم آمدن والے لوگوں کو ٹیکسوں کی صورت میںادا کرنی پڑتی ہے۔ لبنان کی حکومت کے لیے معیشت کو درست کرنے کی خاطر سخت اقدامات لینے یُوں بھی مشکل ہیں کہ ملک میں امیر غریب میںپہلے ہی بہت زیادہ فرق موجودہے۔ ملک کی نصف سے زیادہ دولت صرف بالائی دس فیصد آبادی کی ملکیت ہے اور ایک چوتھائی آبادی بہت غریب ہے۔بیس فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی اور نکاسی آب کی سہولتیں میسّر نہیں۔لوگوں کی اکثریت کو علاج معالجہ کی مفت سہولتیں دستیاب نہیں۔عام آدمی کو ملازمت میرٹ پر نہیں بلکہ سفارش پر ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگ تنگ آمد بجنگ آمد سڑکوں پر آگئے ہیں۔