درد مندوں کو گریز کیوں ہے؟ انہی کو پیش قدمی کرنا ہوگی۔ عاجزی اور انکسار لیکن توکل اور مستقل مزاجی کے ساتھ۔ وہی عنان تھامنے کا فیصلہ کریں گے تو عتاب تھمے گا‘ نجات کا در کھلے گا۔ الجھی ہوئی ڈور سلجھے گی۔ پے در پے بحرانوں کے بارے میں آدمی سوچتا ہے تو اعصاب ٹوٹنے لگتے ہیں۔ پیہم ایک شور شرابہ ہے‘ معقولیت کی کوئی بات‘ جس میں خال ہی سنائی دیتی ہے۔ پھر احمد مشتاق یاد آتے ہیں۔ کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو غور کیجئے تو سجھائی دیتا ہے‘ کوئی ایسی مصیبت ٹوٹ نہیں پڑی‘ کوئی دوسری قوم بلکہ خودہم بھی جس کا شکار نہ ہوئے ہوں۔ یہ انیسویں صدی میں امریکہ کی خانہ جنگی سے بڑا عذاب بہرحال نہیں۔ شمالی اور جنوبی امریکہ کی افواج جب مدمقابل تھیں۔ پندرہ لاکھ آدمی جان سے گئے۔ یہ خلافت کے خاتمے سے بڑا بحران بہرحال نہیں۔ ایک ایک کر کے جب ساری عرب اور یورپی ریاستیں استنبول کے خلاف اٹھی تھیں۔ ترکیہ کا شیرازہ جب بکھر گیا تھا۔ درد و الم کی شدت میں اقبالؔ نے جب یہ کہا تھا: بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفی خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش اقبالؔ کی سب سے زیادہ جامع سوانح عمری ’’زندہ رود‘‘ میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے لکھا ہے: عالمگیر جنگ کی تباہیوں سے دنیا لرزتی رہی۔ اقبالؔ نے سر اٹھا کر بھی نہ دیکھا اور ’’اسرار و رموز بے خودی‘‘ میں منہمک رہے۔ جذبات کے وفورسے ابلتا ہوا مسلم برصغیر۔ اقبالؔ کے آخری ایام کی مفصل روداد میں ڈاکٹر چغتائی نے لکھا ہے: ہمہ وقت اقبال قیام پاکستان کے بارے میں سوچتے رہتے۔ شب و روز ایک ہی نکتے پر وہ زور دیتے کہ تمام مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر متحد ہو جانا چاہیے۔ مجلس احرار نے ہندوستان کے چہار سمت ایک غلغلہ اٹھا رکھا تھا۔ ابوالکلام آزاد جم کر آل انڈیا کانگرس کے ساتھ کھڑے تھے۔ اپنی قوم سے ناخوش اور مایوس ہو کر قائداعظم لندن سدھار گئے تھے۔ اس عالم میں بھی مشرق کے عظیم شاعر اور فلسفی نے امید کا دامن تھامے رکھا۔ ان کا اصرار یہ تھا کہ قائداعظم کو واپس لایا جائے اور مسلم لیگ کی قیادت ان کے سپرد کردی جائے۔ ایسا نہیں کہ ہر چیز میں وہ ان سے متفق تھے۔ پنجاب مسلم لیگ کی قیادت پر ان کا نقطہ نظر یکسر مختلف تھا‘ باایں پیہم انہیں ادراک تھا کہ مصائب کی ماری امت کو اس لیڈر کی ضرورت ہے‘ جس کی دیانت اور درمندی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ قدرت نے سیاسی تدبر کی ہمہ گیری کے ساتھ جسے غیر معمولی جذباتی توازن عطا کر رکھا ہے۔ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ آخر کار قائل ہو گئی۔ ایک قرارداد اس نے منظور کی۔ لیاقت علی خان کو لندن بھیجا گیا کہ بابائے قوم کو واپسی پر آمادہ کریں۔ 1930ء کے خطبہ الٰہ آباد میں دو آزاد مسلم ریاستوں کا تصور پیش کرنے والے اقبالؔ اس یقیں کے ساتھ دنیا سے اٹھے کہ پاکستان بالآخر قائم ہو کر رہے گا۔ فکر انہیں لاحق تھی تو یہ کہ مسلم برصغیر کو یکسوئی عطا ہوگی یا نہیں ہوگی۔ ملوکیت‘ جاگیرداری اور ملائیت کے ادبار سے وہ نجات پا سکے گا یا نہیں۔ ’’اے کشتہ سلطانی و ملاّئی و پیری‘‘ وہ اجتہا پر مُصر تھے۔ مدتوں کے غور و فکر سے اس نتیجے پر وہ پہنچ چکے تھے کہ ایک طرح کی روحانی جمہوریت ہی اس قوم کے مذہبی امراض کا دارو ہے۔ عام آدمی کو جو عدل‘ تحفظ اور روزگار کی ضمانت دے۔ قائداعظم کے نام ایک خط میں انہوں نے لکھا:مسلم برصغیر کی قیادت وہ جماعت کرے گی جو عام آدمی کے لیے روٹی کا مسئلہ حل کر سکے۔آخری وقت میں بھی انہیں قوم کی فکری ژولیدگی کا احساس بے قرار کئے رکھتا۔ نسیمے از حجاز آید کہ نے آید سرود رفتہ باز آید کہ نے آید سر آمد روزگارے ایں فقیرے دگر دانائے راز آید کہ نے آید اقوام و ملل محض اس لیے برباد نہیں ہوتیں کہ معاشی افلاس کے شکنجے میں جکڑی جائیں۔ اقتصادی بحران‘ سماجی‘ علمی اور تاریخی عوامل سے جنم لیتا ہے۔ ادراک کار فرما ہو جائے‘ یکسوئی نصیب ہو اور منزل کا تعین کرلیا جائے تو شاہراہ جگمگ کرنے لگتی ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں خاص طور پر‘ اس لیے کہ اپنے مزاج میں دوسری اقوام سے وہ مختلف اور منفرد بھی ہیں۔ ژولیدہ فکری ہمیشہ زوال کا باعث ہوئی۔ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ۔ سبب کچھ اور ہے‘ تو جس کو خود سمجھتا ہے زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں ملوکیت‘ جاگیرداری اور استعمار کی صدیاں۔ مسلم برصغیر کی وحدت فکر برباد ہوئی اور ایسی برباد کہ آج تک سنبھل نہیں سکی۔ خوئے غلامی اور احساس کمتری‘ ہولناک احساس عدم تحفظ کو جس نے جنم دیا۔ اب جو نئی جہات کے ساتھ کار فرما ہے۔ مصائب جب قطار اندر قطار آتے ہیں تو اجتماعی حیات کے سیاق و سباق پر مکمل اور یکسرنیا انداز فکر درکار ہوتا ہے۔ خالی الذہن ہو کر پھر سے مبادیات کا جائزہ۔ وحشت سے نہیں‘ الجھی ہوئی ڈور کو صبر‘ تحمل اور تدبر سے سلجھایا جا سکتا ہے۔ اس کی توفیق ہمیں ارزاں نہیں۔ یہ سیاسی لیڈروں کے بس کی بات نہیں کہ وہ اقتدار کے حریص اور فوری نتائج کے آرزو مند ہوتے ہیں۔ ہرقیمت پر غلبہ پانے اور کوس لمن الملک بجانے کی بے تاب تمنا۔ یہ اہل دانش کا منصب ہے۔ اپنی ذات اور گروہ بندی سے اوپر اٹھ کر جو سوچ سکیں۔ معاشرے کی تقسیم اور تضادات سے جو بالا ہوں۔ وہ اہل دانش کہاں ہیں؟ ظاہر ہے کہ معدوم تو نہیں ہوئے مگر خوابیدہ ضرور ہیں۔ امتیں جب گونا گوں ادبار کی دلدل میں اترتی ہیں تو فقط حریت فکر کی قندیل ہی اجالا کرسکتی ہے۔ درد مندوں کو گریز کیوں ہے؟ انہی کو پیش قدمی کرنا ہوگی۔ عاجزی اور انکسار لیکن توکل اور مستقل مزاجی کے ساتھ۔ وہی عنان تھامنے کا فیصلہ کریں گے تو عتاب تھمے گا‘ نجات کا در کھلے گا۔ الجھی ہوئی ڈور سلجھے گی۔