لاہور (نامہ نگار خصوصی ، کرائم رپورٹر،سپیشل رپورٹر، مانیٹرنگ ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ نے زینب کے قاتل عمران کو سر عام پھانسی دینے کی درخواست مسترد کر دی،عدالت نے واضح کیا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 22 کے تحت یہ کام حکومت کر سکتی ہے عدالت نہیں جبکہ مجرم عمران کو پروگرام کے مطابق آج علی الصبح کوٹ لکھپت جیل میں پھانسی دی جانا تھی۔ جسٹس سردار شمیم احمد خان اور جسٹس شہباز علی نے زینب کے والد حاجی امین کی درخواست پر سماعت کی ۔درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 22 کے تحت پبلک مقام پر پھانسی ہو سکتی ہے ۔سیکشن میں لکھا ہے یہ گورنمنٹ کا کام ہے ہم گورنمنٹ نہیں ۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے حکومت کو کوئی درخواست دی ہے جس پر وکیل نے بتایا کہ 20 جون کو حکومت کو درخواست دی لیکن کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔سرکاری وکیل کی جانب سے بھی سر عام پھانسی کی درخواست کی مخالفت کی گئی۔درخواست گزار وکیل نے استدعا کی کہ عدالت جیل میں ہی مجرم کو پھانسی کے وقت لائیوٹیلی کاسٹ کی اجازت دے عدالت نے درخواست مسترد کر دی۔ عمران کے اہلخانہ نے گزشتہ روز کوٹ لکھپت جیل میں عمران سے آخری ملاقات کی۔ اہلخانہ سمیت40کے قریب افراد ملاقات میں شامل تھے ۔ ۔جن میں12 مرد ، 12 بچے اور 17 خواتین شامل تھیں ۔ملاقات کیلیے 45 منٹ کا ٹائم دیا گیا۔ملاقات کرنے والوں میں عمران کی والدہ،بھائی،دادا اور بہنیں بھی شامل تھیں ۔عمران اپنی غلطی پر گھر والوں سے معافی مانگتا رہا جبکہ عمران کی ماں اور بہنیں اس سے گلے لگ کر روتی رہیں۔عمران نے زینب کے گھر والوں سے بھی معافی مانگنے کا پیغام اپنی ماں کو دیا۔ جیل سپرنٹنڈنٹ کے مراسلہ پر سی سی پی او لاہور نے جیل کی سکیورٹی کے سخت انتظامات کرنے کی ہدایات جاری کردی ۔ زینب کے والد امین انصاری نے کہا ہے کہ ہم چاہتے تھے کہ مجرم کو سرعام پھانسی دی جاتی ۔ صدرمملکت اب بھی چاہیں تو ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے سرعام پھانسی کا حکم دے سکتے ہیں۔ جنرل ضیا نے بھی تو ایگزیکٹو آرڈر سے پھانسی کا حکم دیا تھا ۔ حکومت چاہتی ہی نہیں کہ بچوں کو تحفظ دیا جائے ۔ ہماری پریشانی صرف ہم ہی جان سکتے ہیں۔