چین اور بھارت کے درمیان متنازعہ سرحدی علاقے مشرقی لداخ میں چینی افواج سے جھڑپوں میں کرنل سمیت 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق بھارت کے 36 سے زائد فوجی لاپتہ ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مارشل آرٹ کے ماہر چینی فوجیوں نے پتھروں، چھڑیوں اور گھونسوں سے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع نیا نہیں ہے بلکہ ماضی میں بھی ایکچویل لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کے مابین کئی مرتبہ جھڑپیں ہو چکی ہیںلیکن مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت میں اشتعال انگیزی بڑھی ہے۔ چین، نیپال، بھوٹان اور پاکستان کے ساتھ تو بھارت نے باقاعدہ طور پر جنگی ماحول بنا رکھا ہے۔ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے ساتھ بھی اس کے تعلقات کشیدہ ہیں۔اس کے باوجود بھارت سلامتی کونسل کا غیر مستقل ممبر بننے کے بھاگ دوڑ کر رہا ہے۔ درحقیقت مودی سرکار نے انتخابی جلسوں میں بڑی شدومد سے یہ نعرہ لگایا تھا کہ گھر میں گھس کر ماریں گے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سوائے پاکستان کے تینوں ملک چین، نیپال اور بھوٹان بھارت کو گھر میں گھس کر ہی مار رہے ہیں۔ مودی سرکار اندورنی ملک کے اصل ایشو سے توجہ ہٹانے کے لیے سرحدوں پر کشیدگی بڑھا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آر ایس ایس کے نظریات کو پھیلانے پر کمربستہ ہے۔ 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد مودی نے شہریت بل کے ذریعے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو بھارت سے نکالنے کے لیے کوشش کی، جس پر پورا بھارت سراپا احتجاج بنا رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں مودی سرکار کو اسمبلی کے اندر اور باہر آڑے ہاتھوں لے رہی ہیں۔ مودی نے اپوزیشن کی توجہ تقسیم کرنے اور عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے کنٹرول لائن پر پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی شروع کی۔ لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر چین سے لڑائی شروع کی۔ کالا پانی تنازع پر نیپال کے ساتھ کشیدگی بڑھائی۔ بھوٹان کے ساتھ نفرت کو فروغ دیا۔ میانمار اور روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے بنگلہ دیش کے ساتھ کشیدگی جبکہ افغانستان سے اس کا بوریا بستر ویسے گول ہو چکا ہے۔ بھارت کی یہ حالت اچانک نہیں ہوئی بلکہ اس کے پیچھے مودی کی پرتشدد اور نفرت انگیز پالیسیاں ہیں جن کی بدولت بھارتیوں کو یہ دن دیکھنے پڑے ہیں۔ اس وقت لداخ تنازع پر چین اور بھارت کے مابین حالات کافی گھمبیر ہو چکے ہیں۔ اس ہزیمت پر بھارتی فوج اور عوام میں شدید مایوسی پائی جا رہی ہے۔ لہٰذا خطرہ اس بات کا ہے کہ بھارت اپنے شہریوں کی توجہ لداخ تنازع سے ہٹانے کے لیے پاکستان کے خلاف کسی طرح کی بھی مہم جوئی کرسکتا ہے۔ اسی بنیا پر گزشتہ روز عسکری قیادت نے انٹر سروسز انٹیلی جنس کے ہیڈکوارٹرز کا دورہ کیا۔ جہاں پر انہوں نے قومی سلامتی بالخصوص کنٹرول لائن اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر غور و خوض کیا۔ دفاعی ماہرین کے مطابق بھارت آزاد کشمیر پر بھی حملہ کرسکتا ہے۔ چند روز قبل بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس بات کا اعلان بھی کیا ہے کہ مودی نے فضائی حملے کی اجازت دے دی ہے بلکہ اس سے قبل بھارتی آرمی چیف اور وزیر دفاع بھی ایسے ہی بے ہودہ قسم کے بیانات دے چکے ہیں۔ اس لیے افواج پاکستان کو دشمن کی ہر قسم کی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اگر لداخ کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو چین نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ بھارت کو سبق سکھا کر رہے گا۔ گزشتہ روز کرنل سمیت 20 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت اس بات کی دلیل ہے کہ چینی افواج اب خاموش نہیں رہیں گی۔ اس لیے پاکستان کو چین کے حق میں پوری طرح کھڑا ہونا چاہیے بلکہ نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات مضبوط کر کے خطے میں اپنے دوستوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہیے۔ بھارتی فوج اس پوزیشن میں تو نہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ دوبدو لڑائی کرے کیونکہ خطے میں بھی ہمسایوں کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ ہیں لہٰذا وہ ماضی کی طرح رات کے اندھیرے میں ہی کوئی شرارت کرنے کی کوشش کرے گا۔ کارگل، 27 فروری 2019ء اور 65ء کی جنگ کے زخم وہ ابھی تک چاٹ رہا ہے۔ اگر اس نے دوبارہ کوئی اس غلطی کی تو اسے سود سمیت واپس لوٹانے کے لیے افواج پاکستان تیار بیٹھی ہے۔ بھارت کے ہاتھوں سے آدھا لداخ تو ویسے ہی جا چکا ہے۔ اب چین نے بقیہ حصہ بھی بروز طاقت چھیننے کا فیصلہ کرلیا ہے کیونکہ جب تک چین کا لداخ پر کنٹرول مستحکم نہیں ہوتا اس وقت تک چین کا ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ محفوظ نہیں ہوسکتا۔ بھارت وہاں پر بیٹھ کر آئے روز کوئی نہ کوئی شرارت کرتا رہے گا۔ اس لیے روز روز کی شرارتوں سے بچنے کے لیے چین نے ایک بار ہی مسئلہ حل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ویسے بھی چین کو دفاع میں بھارت پر برتری حاصل ہے۔ چین کے پاس 187 ارب پائونڈ کا دفاعی بجٹ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت کے پاس 50 ارب پائونڈ ہے اگر دفاعی پوزیشن کو دیکھا جائے تو بھی چین کے پاس 1232 جبکہ بھارت کے پاس 538 لڑاکا طیارے ہیں۔ لہٰذا چین ہر لحاظ سے بھارت پر فوجی برتری رکھتا ہے۔ اپنے گھر میں علیحدگی کی 126 تحریکوں کے ساتھ بھارت کی یہ جرأت نہیں کہ وہ چین کے ساتھ کسی قسم کی محاذ آرائی کرے لیکن پاکستان کو چوکس رہنا ہو گا تاکہ دشمن کے اوچھے ہتھکنڈوں اور تخریبی حربوں سے بروقت نمٹا جا سکے۔