چین نے جموں وکشمیرکے لداخ صوبہ میں کئی علاقوں پراپنے جھنڈے گاڑ کرمودی اوراسکے زرخریدمیڈیاکی بولتی بندکردی ہے ۔ مودی اینڈکمپنی اپنے طوراورامریکہ کے ذریعے چین سے مذاکرات کی پیشکش پر پیشکش کررہی ہے۔حتی کہ مودی نے ٹرمپ کے ذریعے سے بھی چینی صدرسے ثالثی کی پیشکش کروائی لیکن چین نے اسے مستردکردیا۔ بھارتی میڈیا لداخ میںچین کے درآنے اوربھارتی فوج کوپیچھے دھکیلنے پرایساچپ اورخاموش ہے کہ جیسے کچھ بھی نہیں ہوا اورلداخ کی صورتحال کواپنے عوام کوبے خبررکھنے ،اسے چھپانے کے لئے پاکستان سے کبوتروں اورٹڈی دل کے درآنے اورتبلیغی جماعت کارو نارہا ہے۔ ایک یوم قبل بھارت کی درخواست پر دونوں ممالک چین اوربھارت کے اعلیٰ فوجی عہدے داروںکے مابین فلیگ میٹنگ منعقد ہوئی لیکن وہ ناکام ہوئی کیونکہ اس میٹنگ کے دوران بھارت ،چین سے منت سماجت کررہاتھاکہ حالیہ ایام میںلداخ کے جس حصے پرچینی افواج نے قبضہ کرلیااسے چین چھوڑ کرواپس اپنی پرانی یاپہلے والی پوزیشن پرچلا جائے ۔لیکن چین نے یہ کہتے ہوئے صاف انکارکردیاکہ چین جہاں ایک دفعہ گھس جاتاہے واپس نہیں نکلتا۔چین کایہ جواب سن کربھارتی وفد بے نیل ومرام واپس لوٹ آیا۔ صاف دکھائی دے رہاہے کہ چین نے مودی کی گردن دبوچ لی ہے مودی چین سے جنگ نہیں چاہتاکیوں وہ اس امرکوخوب جانتاہے کہ چین سے جنگ کرنے کامعنی بھارت کوصفحہ ہستی سے مٹادینے کے ہیں اوراگرمودی چین سے جنگ نہیں کرتاتولداخ کے ایک حصے پرچین کے قبضے پراسکی جوسبکی ہورہی ہے تو وہ پھر اپنے عوام کوکس طرح چہرہ دکھاسکتاہے۔ لداخ اوراکسائی چین کاجغرافیہ کیا ہے۔ ریاست جموںوکشمیر کا مجموعی رقبہ قریبا دو لاکھ 22ہزار 236مربع کلومیٹر ہے۔اس طرح سائز میں یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب سے کچھ زیادہ اور دنیا کے 113ممالک سے بڑا ہے۔کشمیر صرف جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر کا نام نہیں بلکہ گلگت بلتستان، لداخ، اکسائی چن، وادی شاکسگم اور سیاچن گلیشیئر بھی ریاست کشمیر کا حصہ ہیں۔ البتہ آزاد کشمیراورگلگت بلتستان نے ڈوگرہ افواج کے خلاف جہاد کرکے ان دونوں خطوں کو آزاد کرا لیا اورپھردونوں تقسیم برصغیرکے فارمولے کے تحت پاکستان کا حصہ بن گئے اس فارمولے کے تحت صرف جموں و کشمیر اورلداخ باقی رہ گئے جنہیں پاکستان کاحصہ بن جاناتھالیکن ہندوکی مکاری، پاکستان کے حکمرانوں کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں اور شیخ عبداللہ کی غداری کی وجہ سے ابھی تک تشنہ تعبیرہے۔ریاست جموں وکشمیر کا سب سے بڑا حصہ بھارتی قبضے میں ہے جو مجموعی رقبے کا قریبا 46 فیصد بنتا ہے۔ اس میں وادی کشمیر، جموں اور لداخ شامل ہیں۔ بھارت کے زیرتسلط جموںو کشمیر اورلداخ کا رقبہ ایک لاکھ ایک ہزار 1387 مربع کلومیٹر ہے۔1962ء جس میں سے وادی کشمیر کا رقبہ قریبا 15 ہزار 948 مربع کلومیٹر، جموں کا رقبہ قریبا 26 ہزار 293 مربع کلومیٹر اور لداخ کا رقبہ قریبا 59 ہزار 146مربع کلومیٹر ہے۔ ریاست جموں وکشمیرکیآزادکشمیراورگلگت بلتستان کا قریبا 38 فیصد علاقہ پاکستان کے الحاق میںہے ۔یوں پاکستان کے ساتھ الحاق شدہ ریاست جموںو کشمیر کا مجموعی رقبہ قریبا 84 ہزار 100 مربع کلومیٹر بنتا ہے۔اس میں گلگت بلتستان کا رقبہ قریبا 82 ہزار 420 جبکہ آزاد کشمیر کا رقبہ ایک ہزار 680 مربع کلومیٹر ہے۔گلگت بلتستان تاریخی طور پر تین ریاستوں یعنی ہنزہ، نگر اور گلگلت پر مشتمل رہا ہے۔ 1848ء میں کشمیر کے ڈوگرہ راجہ نے ان علاقوں پر قبضہ کر کے انہیں اپنی ریاست میں شامل کر لیا تھا۔ 1947 اور 1948 میں ان علاقوں کے مقامی لوگوں نے گلگت سکائوٹس کے تعاون سے آزادی کی جنگ لڑی اور یہ علاقے ریاست کشمیر سے آزاد کرا لیے۔ گلگت بلتستان 17 روز تک آزاد رہا جس کے بعد اہل گلگت وبلتستان نے تقسیم برصغیرکے فارمولے کے تحت اپنے علاقے کی باگ ودوڑ پاکستان کوسونپ دی۔دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پورے کشمیر کی مجموعی آبادی قریبا ایک کروڑ 85 لاکھ ہے۔اس میں مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی آبادی شامل ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو کشمیر آبادی کے اعتبار سے دنیا کے 133 ممالک سے بڑا ہے۔ پاکستان میں آزاد کشمیر کے مردم شماری کمشنر کے مطابق 2017ء میں اس علاقے کی آبادی قریبا 40 لاکھ 45 ہزار 366 تھی۔ 1998 کی مردم شماری میں گلگلت بلتستان کی آبادی87 ہزار 347 ریکارڈ کی گئی جو اب قریبا 20 لاکھ ہے۔بھارت میں 2011ء کی مردم شماری کے مطابق وادی کشمیر کی آبادی 68 لاکھ 88 ہزار 8475، جموں کی آبادی 53 لاکھ 78 ہزار 538 اور لداخ کی آبادی دو لاکھ 74 ہزار 289 نفوس پر مشتمل ہے۔جموں کشمیر کو باقاعدہ ریاست کا درجہ پہلی بار برصغیر کی انگریز حکومت نے 1846 میں دیا- اس سے پہلے یہ علاقہ مھاراجہ رنجیت سنگھ کے زیر حکومت تھا جس کے ایک جرنیل زور آور سنگھ نے 1834 میں ریاست لداخ کو بھی فتح کر کے جموں کشمیر کا ایک حصہ بنا دیا تھا سیاچین گلیشیئر،کارگل, لیہہ اور اکسائی چن بھی لداخ کا ہی حصہ تھے 1841میں سکھ جرنیل نے چین کے زیر کنٹرول تبت کے علاقہ پر چڑھائی کر دی جس کے جواب میں چینی افواج لداخ یعنی ریاست جموں کشمیرمیں داخل ہو گئیں اور اکسائی چن تک کے علاقہ کو فتح کر لیا اور تب سے اکسائی چن چین کا حصہ ہے۔ اکسائی چن ریاست جموںوکشمیرکی جغرافیہ کاسولہ واں حصہ بنتاہے یایوں کہیں کہ اکسائی چن ریاست جموں وکشمیرکا16فیصدعلاقہ ہے۔ اکسائی چن اور شاکسگام کا شمار غیر آباد علاقوں میں ہوتا ہے۔یہاں عموما خانہ بدوش پائے جاتے ہیں جو ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کی تعداد کے حوالے سے معلومات دستیاب نہیں ہیں۔البتہ یہ ضرورہے کہ اکسائی چن کا رقبہ قریبا 36 ہزار 813 مربع کلومیٹر ہے۔ اکسائی چن ایک طرف لداخ کے ساتھ متصل ہے جبکہ اس کا ایک کونا گلگت بلتستان کو بھی چھوتا ہے۔تاریخی طور پر یہ علاقہ لداخ کا حصہ تھا۔اب یہ علاقہ چین کے صوبے سنکیانگ کا حصہ ہے۔
لداخ پرچین، بھارت میٹنگ ناکام
پیر 08 جون 2020ء
چین نے جموں وکشمیرکے لداخ صوبہ میں کئی علاقوں پراپنے جھنڈے گاڑ کرمودی اوراسکے زرخریدمیڈیاکی بولتی بندکردی ہے ۔ مودی اینڈکمپنی اپنے طوراورامریکہ کے ذریعے چین سے مذاکرات کی پیشکش پر پیشکش کررہی ہے۔حتی کہ مودی نے ٹرمپ کے ذریعے سے بھی چینی صدرسے ثالثی کی پیشکش کروائی لیکن چین نے اسے مستردکردیا۔ بھارتی میڈیا لداخ میںچین کے درآنے اوربھارتی فوج کوپیچھے دھکیلنے پرایساچپ اورخاموش ہے کہ جیسے کچھ بھی نہیں ہوا اورلداخ کی صورتحال کواپنے عوام کوبے خبررکھنے ،اسے چھپانے کے لئے پاکستان سے کبوتروں اورٹڈی دل کے درآنے اورتبلیغی جماعت کارو نارہا ہے۔ ایک یوم قبل بھارت کی درخواست پر دونوں ممالک چین اوربھارت کے اعلیٰ فوجی عہدے داروںکے مابین فلیگ میٹنگ منعقد ہوئی لیکن وہ ناکام ہوئی کیونکہ اس میٹنگ کے دوران بھارت ،چین سے منت سماجت کررہاتھاکہ حالیہ ایام میںلداخ کے جس حصے پرچینی افواج نے قبضہ کرلیااسے چین چھوڑ کرواپس اپنی پرانی یاپہلے والی پوزیشن پرچلا جائے ۔لیکن چین نے یہ کہتے ہوئے صاف انکارکردیاکہ چین جہاں ایک دفعہ گھس جاتاہے واپس نہیں نکلتا۔چین کایہ جواب سن کربھارتی وفد بے نیل ومرام واپس لوٹ آیا۔ صاف دکھائی دے رہاہے کہ چین نے مودی کی گردن دبوچ لی ہے مودی چین سے جنگ نہیں چاہتاکیوں وہ اس امرکوخوب جانتاہے کہ چین سے جنگ کرنے کامعنی بھارت کوصفحہ ہستی سے مٹادینے کے ہیں اوراگرمودی چین سے جنگ نہیں کرتاتولداخ کے ایک حصے پرچین کے قبضے پراسکی جوسبکی ہورہی ہے تو وہ پھر اپنے عوام کوکس طرح چہرہ دکھاسکتاہے۔ لداخ اوراکسائی چین کاجغرافیہ کیا ہے۔ ریاست جموںوکشمیر کا مجموعی رقبہ قریبا دو لاکھ 22ہزار 236مربع کلومیٹر ہے۔اس طرح سائز میں یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب سے کچھ زیادہ اور دنیا کے 113ممالک سے بڑا ہے۔کشمیر صرف جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر کا نام نہیں بلکہ گلگت بلتستان، لداخ، اکسائی چن، وادی شاکسگم اور سیاچن گلیشیئر بھی ریاست کشمیر کا حصہ ہیں۔ البتہ آزاد کشمیراورگلگت بلتستان نے ڈوگرہ افواج کے خلاف جہاد کرکے ان دونوں خطوں کو آزاد کرا لیا اورپھردونوں تقسیم برصغیرکے فارمولے کے تحت پاکستان کا حصہ بن گئے اس فارمولے کے تحت صرف جموں و کشمیر اورلداخ باقی رہ گئے جنہیں پاکستان کاحصہ بن جاناتھالیکن ہندوکی مکاری، پاکستان کے حکمرانوں کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں اور شیخ عبداللہ کی غداری کی وجہ سے ابھی تک تشنہ تعبیرہے۔ریاست جموں وکشمیر کا سب سے بڑا حصہ بھارتی قبضے میں ہے جو مجموعی رقبے کا قریبا 46 فیصد بنتا ہے۔ اس میں وادی کشمیر، جموں اور لداخ شامل ہیں۔ بھارت کے زیرتسلط جموںو کشمیر اورلداخ کا رقبہ ایک لاکھ ایک ہزار 1387 مربع کلومیٹر ہے۔1962ء جس میں سے وادی کشمیر کا رقبہ قریبا 15 ہزار 948 مربع کلومیٹر، جموں کا رقبہ قریبا 26 ہزار 293 مربع کلومیٹر اور لداخ کا رقبہ قریبا 59 ہزار 146مربع کلومیٹر ہے۔ ریاست جموں وکشمیرکیآزادکشمیراورگلگت بلتستان کا قریبا 38 فیصد علاقہ پاکستان کے الحاق میںہے ۔یوں پاکستان کے ساتھ الحاق شدہ ریاست جموںو کشمیر کا مجموعی رقبہ قریبا 84 ہزار 100 مربع کلومیٹر بنتا ہے۔اس میں گلگت بلتستان کا رقبہ قریبا 82 ہزار 420 جبکہ آزاد کشمیر کا رقبہ ایک ہزار 680 مربع کلومیٹر ہے۔گلگت بلتستان تاریخی طور پر تین ریاستوں یعنی ہنزہ، نگر اور گلگلت پر مشتمل رہا ہے۔ 1848ء میں کشمیر کے ڈوگرہ راجہ نے ان علاقوں پر قبضہ کر کے انہیں اپنی ریاست میں شامل کر لیا تھا۔ 1947 اور 1948 میں ان علاقوں کے مقامی لوگوں نے گلگت سکائوٹس کے تعاون سے آزادی کی جنگ لڑی اور یہ علاقے ریاست کشمیر سے آزاد کرا لیے۔ گلگت بلتستان 17 روز تک آزاد رہا جس کے بعد اہل گلگت وبلتستان نے تقسیم برصغیرکے فارمولے کے تحت اپنے علاقے کی باگ ودوڑ پاکستان کوسونپ دی۔دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پورے کشمیر کی مجموعی آبادی قریبا ایک کروڑ 85 لاکھ ہے۔اس میں مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی آبادی شامل ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو کشمیر آبادی کے اعتبار سے دنیا کے 133 ممالک سے بڑا ہے۔ پاکستان میں آزاد کشمیر کے مردم شماری کمشنر کے مطابق 2017ء میں اس علاقے کی آبادی قریبا 40 لاکھ 45 ہزار 366 تھی۔ 1998 کی مردم شماری میں گلگلت بلتستان کی آبادی87 ہزار 347 ریکارڈ کی گئی جو اب قریبا 20 لاکھ ہے۔بھارت میں 2011ء کی مردم شماری کے مطابق وادی کشمیر کی آبادی 68 لاکھ 88 ہزار 8475، جموں کی آبادی 53 لاکھ 78 ہزار 538 اور لداخ کی آبادی دو لاکھ 74 ہزار 289 نفوس پر مشتمل ہے۔جموں کشمیر کو باقاعدہ ریاست کا درجہ پہلی بار برصغیر کی انگریز حکومت نے 1846 میں دیا- اس سے پہلے یہ علاقہ مھاراجہ رنجیت سنگھ کے زیر حکومت تھا جس کے ایک جرنیل زور آور سنگھ نے 1834 میں ریاست لداخ کو بھی فتح کر کے جموں کشمیر کا ایک حصہ بنا دیا تھا سیاچین گلیشیئر،کارگل, لیہہ اور اکسائی چن بھی لداخ کا ہی حصہ تھے 1841میں سکھ جرنیل نے چین کے زیر کنٹرول تبت کے علاقہ پر چڑھائی کر دی جس کے جواب میں چینی افواج لداخ یعنی ریاست جموں کشمیرمیں داخل ہو گئیں اور اکسائی چن تک کے علاقہ کو فتح کر لیا اور تب سے اکسائی چن چین کا حصہ ہے۔ اکسائی چن ریاست جموںوکشمیرکی جغرافیہ کاسولہ واں حصہ بنتاہے یایوں کہیں کہ اکسائی چن ریاست جموں وکشمیرکا16فیصدعلاقہ ہے۔ اکسائی چن اور شاکسگام کا شمار غیر آباد علاقوں میں ہوتا ہے۔یہاں عموما خانہ بدوش پائے جاتے ہیں جو ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کی تعداد کے حوالے سے معلومات دستیاب نہیں ہیں۔البتہ یہ ضرورہے کہ اکسائی چن کا رقبہ قریبا 36 ہزار 813 مربع کلومیٹر ہے۔ اکسائی چن ایک طرف لداخ کے ساتھ متصل ہے جبکہ اس کا ایک کونا گلگت بلتستان کو بھی چھوتا ہے۔تاریخی طور پر یہ علاقہ لداخ کا حصہ تھا۔اب یہ علاقہ چین کے صوبے سنکیانگ کا حصہ ہے۔
آج کے کالم
یہ کالم روزنامہ ٩٢نیوز میں پیر 08 جون 2020ء کو شایع کیا گیا
آج کا اخبار
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
منگل 19 دسمبر 2023ء
-
پیر 06 نومبر 2023ء
-
اتوار 05 نومبر 2023ء
اہم خبریں