بھارت کے سابق آرمی چیف نے بھی کہہ دیا ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی کا حل فوجی سطح پر ناکام ہو چکا ہے۔ اب یہ حل سیاسی اور سفارتی سطح پر تلاش کرنا پڑے گا۔ مگر اس سلسلے میں اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان حالات اس نہج پر کیسے پہنچے؟ خاص طور پر جب پوری دنیا کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہے۔ جب دنیا میں جاری محاذ آرائیوں کی شدت پہلے سے کہیں کم ہوگئی ہے۔ اس وقت تبت اور لداخ کے سرد علاقوں میں منجمد مسائل کی برف پگھلانے کا فائدہ کس کو ہوگا؟ اس وقت چین اور بھارتی سرحد کے دونوں اطراف سرگرمیاں تیز ہیں۔ بھارت کے جانب اگر فوجی گاڑیوں کے گشت میں تیزی آگئی ہے تو چین کی طرف سے ہیلی کاپٹرز پرواز کر رہے ہیں۔ ایک طرف چین کے وزیر اعظم نے اپنی فوج کو تیار رہنے کی ہدایت کی ہے اور دوسری طرف بھارت کے پردھان منتری نے اپنے ملک کے بری؛ بحری اور ہوائی فوج کے سربراہان سے ملاقاتیں کی ہیں۔ اگر چین اور بھارت کے درمیاں جنگ چھڑ گئی تو اس سے پورا علاقہ متاثر ہوگا۔ اس لیے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کی اشتعال انگیز اور جنگجو پالیسیوں کی مذمت کی ہے۔ جب کہ بھارت کے سرحدی ملک نیپال نے بھی اپنے ملک کی سرزمین کے ایک ایک انچ کا تحفظ کرنے والا بیان دیکر بھارت کی توسیع پسندی کو آشکار کردیا ہے۔ اس وقت پوری دنیا کی نظریں جنوبی ایشیا کے اس خطہ پر ہیں؛ جہاں کسی بھی وقت بندوقیںبارودی آگ اگل سکتی ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعہ ساٹھ برس پرانا ہے۔ بھارت نے 1962ء کے دوران چین کے علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش میں جو فوجی پیش قدمی کی؛ اس کے نتیجے میں اسے ایسی شکست فاش نصیب ہوئی؛ جس کا صدمہ جواہر لال نہرو برداشت نہ کر سکے۔چین سے شکست نہرو کے لیے زندگی کی شکست ثابت ہوئی۔ اس جنگ کے بعد چین اور بھارت میں ایک ایسی دشمنی کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ بھارت میں ماؤ نواز باغیوں کی جماعتوں کا جنم ہوا۔ خاص طور پر نکسل وادی باغی جنہوں نے ہتھیاربند مزاحمت کا راستہ اپنایا؛ چین نے کبھی ان جماعتوں کی کھل کر مدد نہیں کی۔ چین نے معاشی ترقی کا راستہ اپنایا اور چین اب تک اس راستے پر گامزن ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان تلخی کو بڑھانے میں امریکہ کا بہت بڑا کردار رہتا آیا ہے۔ امریکہ نے چین کے خلاف جنوبی ایشیا میں گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی۔ امریکہ نے پاکستان کو ہر طرح سے مجبور کیا کہ وہ چین کے خلاف امریکہ کا مہرا بن کر کردار ادا کرے مگر پاکستان نے امریکہ کی اس فرمائش کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کیا۔اس سلسلے میں ’’سی پیک‘‘ کا معاملہ کلیدی اہمیت کا سبب بن گیا۔ امریکہ نے پاکستان پر ہر طرح سے دباؤ ڈالا کہ پاکستان گوادر پورٹ چین کے حوالے نہ کرے۔ جب پاکستان نے امریکہ کے دباؤ کو مسترد کیا ؛ تب امریکہ نے پاکستان سخت نتائج کی دھمکیاں دیں۔ پاکستان کو اس حقیقت کا ادراک تھا کہ امریکہ کا بھارت کو جنوبی ایشیا میں طاقتور بنانا چاہتا ہے۔ امریکہ نے بھارت کے ساتھ ایٹمی معاہدہ تو کیا مگر پاکستان کو وہ حیثیت دینے سے صاف انکار کردیا۔ اس وقت بھی بھارت اور چین کے درمیاں تلخیاں بڑھانے اور سرحدی کشیدگی کو ہوا دینے کے سلسلے میں امریکہ پیش پیش ہے۔یہ بھارت کا نہیں بلکہ امریکہ کا ایجنڈا ہے کہ بھارت ہمالیہ کے سرحدی علاقوں میں تعمیرات کا منصوبہ آگے بڑھائے۔ کیا بھارت کو معلوم نہیں تھا کہ چین لداخ میں راستوں اور پلوں کی تعمیر سے سخت ناراض ہوگا۔ بھارت کو اس بات کا پورا پتہ تھا۔ بھارت نے جان بوجھ کر چین کی دشمنی کے جن کو بوتل سے نکالا۔ اب وہ بھوت چین بھارت سرحدوں پر منڈلا رہا ہے۔چین کی انٹیلجنس بہت تیز ہے۔ چین کو معلوم ہے کہ بھارت ہمالیہ کی سرحدوں پر تعمیراتی منصوبے اس لیے عمل میں لا رہا کہ وہاں امریکہ کا نیٹ ورک قائم کر سکے۔ چین اس امریکی اور بھارتی گٹھ جوڑ پر کبھی خاموش نہیں بیٹھے گا۔ اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے چین امریکہ کے تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ امریکہ چین کو ہر طرح سے بدنام کرکے اس کی معاشی طاقت پر بھاری ضرب لگانا چاہتا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت اور چین کے درمیاں چھوٹے پیمانے پر ہی سہی مگر جنگ شروع ہو اور امریکہ چین کے خلاف مغربی دنیا میں پروپیگنڈہ کا طوفان اٹھائے۔ امریکہ چین کے خلاف ہر خطرناک سازشوں کا جال پچھا رہا ہے۔ چین میں صبر کی بہت بڑی صلاحیت ہے مگر چین اس بار اپنے خلاف سازشوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے چین نے سفارتی محاذ پر اپنے وہ ڈپلومیٹ مقرر کیے ہیں جو سخت زباں استعمال کرنا کا فن جانتے ہیں۔ چین نے امریکہ کے حوالے سے پہلے ہی پوری دنیا کو آگاہ کردیا ہے کہ امریکہ اس کے خلاف سرد جنگ کا محاذ سرگرم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ یورپ اس کا چین مخالف مہم میں بھرپور ساتھ دے۔ یورپ امریکہ کا افغانستان میں ساتھ دینے کی قیمت اب تک ادا کر رہا ہے۔ اب یورپ امریکہ کی چین مخالف مہم جوئی میں ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔یورپ اس سلسلے میں امریکی منصوبے پر سنجیدگی سے سوچتا مگر یورپ کورونا وائرس کی وجہ سے اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ اس مہم میں امریکہ کا ساتھ دے۔ اس لیے امریکہ کا سارا انحصار بھارت پر ہے۔ نریندر مودی اپنے ملک میں مسلمان مخالف پالیسیوں کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہے۔ مودی کا خیال ہے کہ اگر اس نے چین کے خلاف جنگ شروع کی تو ہندو قومپرستی کو اس طرح ابھارنے میں کامیاب ہو جائے گا جس طرح ہٹلر جرمنی میں ہوا۔مودی کی ہندو شاؤنزم کے مخالفین کی تعداد بھارت میں بڑھ رہی ہے۔ اس وقت اگر کانگریس میں فہم فراست کا فقدان نہ ہوتا تو نریندر مودی کی پالیسیوں کا جنازہ نکل چکا ہوتا۔ مگر کانگریس کی قیادت میں وہ قوت نہیں جو مودی کو سخت مزاحمت کا مزہ چکھائے۔ مودی اس وقت کورونا کی وجہ سے بہت دباؤ کا شکار ہے۔ بھارت کی اصل قوت اس کا مڈل کلاس ہے۔ وہ مڈل کلاس تیزی سے بیروزگاری کا شکار ہو رہا ہے۔ بھارت اس بیروزگاری کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ بھارت اس علاقے میں چین کے خلاف مہم جوئی کے منصوبے بن رہا ہے جو علاقہ بہت پرامن ہے۔ بھارت کو اس حقیقت کا دراک ہونا چاہیے کہ جنگ صرف فوجی نہیں لڑتے۔ دفاع کی حقیقی قوت عوام ہوتے ہیں۔ہمالیہ کے سائے تلے بسنے والے لوگ بدھ مت کے پیروکار ہیں۔ وہ انتہائی پرامن ہیں۔ وہ بھارت کا جنگ میں ساتھ قطعی طور پر نہیں دینگے۔ لداخ ہندو انتہاپسندوں کی بستی نہیں۔لداخ پرامن انسانوں کا وطن ہے۔ وہ وطن جو بدھ مت کے پرامن کلچر سے جڑا ہوا ہے۔ وہ وطن امن کا وطن ہے۔ اس وطن کے باسی محبت کی زباں بولتے ہیں۔ اس وطن کے باشندے سردیوں میں برف اور گرمیوں میں پھولوں کی آغوش میں رہتے ہیں۔ہمالیہ کے سائے بسنے والے انسان سبز گھاس پر بھی اپنا پیر رکھنے کو پاپ سمجھتے ہیں۔ وہ لوگ کبھی نہیں چاہیں کہ لداخ میں لہو بہے۔بھارت لداخ میں بارود کی بارش کرسکتا ہے مگر لداخ کے لوگ بھارت کی پرامن مزاحمت کرینگے۔ کیوں کہ لداخ پھولوں اور پھولوں جیسے لوگوں کا مسکن ہے۔ لداخ کے محاذ پر بھارت کی جنگ بھارت کی خودکشی ثابت ہوگی۔ کیوں کہ لداخ کے لوگ لہو سے نفرت کرتے ہیں۔لداخ کے لوگ امن کے امین ہیں۔