سات مئی صبح بیدار ہوئے تو فارق چوہان نے اپنے ایک دوست راجہ عاشق کی جانب سے ناشتے کی دعوت کا بتایا۔ اخبارات آ چکے تھے۔ بوٹوں کی وجہ سے پائوں کی دکھن کا علاج رات واپسی پر طاہر علی بندیشہ نے نکال لیا۔ وہ پاس ہی ایک سپر مارکیٹ میں لے گئے جہاں اکثر خریدار فلپائنی تھے۔ بتایا گیا کہ رگا کے اس علاقے میں فلپائنی افراد کی اکثریت ہے۔ ادائیگی کے چار کائونٹر بنے ہوئے تھے‘ نچلے حصے میں کچن اور کھانے پینے کا سامان تھا۔ بالائی منزل پر ملبوسات‘ کاسمیٹکس اور جوتوں کے لیے مخصوص تھی۔ مجھے 20 درہم والے جوگر مناسب لگے۔ چائنا کے بنے ایسے جوتے دبئی میں گھومنے پھرنے کے لیے مناسب ہیں۔ کچھ وقت تھا ،میں نے اپنے دوست رانا طفیل کو رات فون کر دیا تھا۔رانا ساحب باغ و بہار شخصیت ہیں ، بتا رہے تھے کہ قیدی بچوں کی بہبود کے لئے کام کرنے والی ہماری کو لیگ فرح ہاشمی چند روز قبل دبئی آئی تھیں ۔رانا صاحب سے کوئی ایک گھنٹہ گپ شپ رہی ۔سب تیار ہو چکے تھے۔ طاہر علی بندیشہ کو اپنی لا فرم میں جانا تھا‘ کئی روز سے وہ ایک کلائنٹ کی رہائی کی کوشش کر رہے تھے جو کسی کاروباری تنازع کی وجہ سے جیل میں تھا۔ سرمد خان نے گاڑی نکالنے کی بجائے ہمیں ٹیکسی کا سفر کرانے کا سوچا۔ اپارٹمنٹ سے باہر آئے۔ تیس چالیس گزپر سڑک تھی۔ کئی ٹیکسیاں گزریں لیکن ان کی ونڈ سکرین کے اوپر‘ ماتھے پر سرخ بتی روشن ہوتی۔ اس کا مطلب ٹیکسی کا خالی نہ ہونا تھا۔ کوئی پانچ منٹ بعد تھوڑا آگے جا کر ایک ٹیکسی مل گئی۔ دبئی میں اکثر نظام انٹرنیٹ سے منسلک ہیں۔ سرمد خان نے راجہ عاشق کے اپارٹمنٹ کی لوکیشن آن کردی۔ ٹیکسی ڈرائیور بنگلہ دیشی تھا۔بھارت کے پوپ گانے لگا رکھے تھے ، میٹر نصب تھا جس پر وقفے وقفے سے درہم گر رہے تھے۔ راجہ صاحب کی رہائش دبئی اورشارجہ کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ تین ٹاور ہیں۔ تینوں لگ بھگ 35 منزلہ۔ ساتویں منزل پر جونہی لفٹ سے نکلے سامنے راجہ عاشق کھڑے تھے۔ گھر میں داخل ہوئے تو ایک کشادگی کا احساس ہوا۔ بتا رہے تھے کہ چار بیڈ روم ہیں۔ سامنے کا سارا حصہ کھلا اور سمندر کی طرف۔ راجہ عاشق کاتعلق آزادکشمیر کے ضلع باغ سے ہے۔ بتا رہے تھے کہ پچھلے 34 برس سے امارات میں ہیں۔ پہلے دبئی میں رہائش تھی۔ تین برسوں سے شارجہ کی حدود میں رہائش لے لی۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ سبھی اعلٰی تعلیم یافتہ ہیں۔ راجہ عاشق کی کہانی یہ ہے کہ وہ کالج کی تعلیم کے دوران دبئی آ گئے۔ معلوم نہ تھا‘ ویزہ کس کیٹیگری کا ہو‘ یہاں آئے تو ایک ہوٹل میں مزدوری ملی۔ آزادکشمیر میں خاندان آسودہ تھا۔ یہاں مزدوری کرنا بہت مشکل محسوس ہوا۔ ’’دل کرتا کہ واپس چلا جائوں‘ پھر سوچتا لوگ میرے باپ کو طعنے دیں گے کہ تمہارا بیٹا کام سے بھاگ آیا۔‘‘ کچھ عرصے کے بعد ہوٹل کے کام کی سمجھ آ گئی۔ اس دوران کسی وجہ سے مالک نے مسلسل خسارے کے باعث ہوٹل فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ راجہ عاشق نے ہمت کی۔ پیشکش کی کہ وہ ہوٹل چلا سکتے ہیں۔ مالک نے کہا تم ایک مزدور ہو تم کیا چلائو گے۔ انہوں نے کہا کہ آپ ایک بار بھروسہ کریں۔ خیر انہیں موقع مل گیا۔ راجہ عاشق کام کے دوران ایسی خرابیوں سے واقف ہو چکے تھے جو خسارے کا باعث بنتی ہیں۔ سروس کا معیار‘ کچھ ملازمین کی کام چوری اور صفائی کا انتظام۔ انہوں نے ان معاملات پر توجہ دی۔ ہوٹل چل نکلا۔ کوئی آٹھ دس برس یہ کام کیا۔ ایک ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہو گئے۔ بازو‘ کمر‘ کندھا‘ پسلیاں زخمی ہوئے۔ کئی ماہ تندرست ہونے میں لگے۔ اس عرصے میں ہوٹل کا کام متاثر ہوا۔ راجہ صاحب نے بروقت اندازہ کرلیا کہ اب وہ یہ کاروبار جاری رکھنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ انہوں نے ہوٹل فروخت کردیا۔ دبئی میں کافی لوگوں سے جان پہچان ہو چکی تھی۔ پراپرٹی کابزنس شروع کیا۔ اس کام میں اللہ نے برکت دی اور زندگی ڈھب پر آ گئی۔ راجہ عاشق بتا رہے تھے کہ پاکستان سے انہیں مدد کی بہت درخواستیں آتی ہیں لیکن انہوں نے ابتدائی تجربات کے بعد اپنے ملنے والوں کی اعانت کا فیصلہ کیا۔ کئی لوگ خیراتی اورفلاحی منصوبوں کا بتا کر عرب امارات سے فنڈز اکٹھے کرتے ہیں‘ بعد میں پتہ چلتا ہے یہ تو دھوکے باز تھے۔ ان کے ہاں کچھ احباب پہلے سے موجود تھے جن سے تعارف کرایا گیا۔ ناشتہ میں لبنانی روٹی‘ شہد اور کچھ پاکستانی پکوان رکھے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ کھانے ان کی بیگم نے خود بنائے ہیں۔ ناشتہ کے سارے لوازمات موجود تھے اور نہایت خوش ذائقہ۔ واپسی کے لیے راجہ عاشق نے اپنی گاڑی نکالی۔ کوئی پندرہ منٹ میں ہم ڈیرہ پہنچ گئے۔ تھوڑا آرم کرنے کے بعد ہمیں شارجہ جانا تھا۔ شارجہ میں ادبی تقریبات کی روح رواں صائمہ نقوی سے ’’ارمغان لاہور‘‘ کی تقریب کی بابت بات کرنا تھی۔ وہاں اکبر بادشاہ کے متعلق بچوں کا ایک ڈرامہ دکھایا جارہا تھا۔ ہم ڈرامہ تو نہ دیکھ سکے لیکن شارجہ ایکسپو میں عرب ممالک کے بچوں کا ادب بھرپور طریقے سے دیکھ لیا۔ عراق‘ شام‘ سعودی عرب‘ سوڈان‘ مصر‘ لبنان‘ متحدہ عرب امارات‘ مراکش‘ ہر ملک کا الگ سٹال‘ کئی مالک کی کمپنیوں نے چار چار سٹال لگا رکھے تھے‘ بہترین کاغذ‘ اعلیٰ فنکارانہ خوبی کی مالک تصاویر‘ دینیات‘ ثقافت‘ معلومات عامہ‘ لوک کہانیاں‘ قومی ہیروز کی کہانیاں۔ سرمد خان ایک طرف ان کتابوں کو سراہ رہے تھے دوسری طرف بے چین کہ پاکستان کے بچوں کو ایسی کتابیں کیوں میسر نہیں۔دو سٹال پاکستانی اداروں نے لگائے تھے جنہیں دیکھ کر خوشی ہوئی ۔ ایکسپو سنٹر میں بچوں کو ان کی عمر کے مطابق مہارتیں سکھانے‘ پینٹنگ اور دوسری ثقافتوں کے مالک افراد سے مکالمہ کرنے کے طریقے سکھانے کے لیے الگ پویلین بنے ہوئے تھے جہاں امارات میں آباد مختلف قومیتوں کے بچے یہ مفید چیزیں سسیکھ رہے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ شارجہ کے حکمران ہز ہائی نس ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی ایک ہمدرد اور کتاب دوست شخصیت ہیں۔ وہ کتاب اور علم سے متعلق سرگرمیوں کی خصوصی سرپرستی فرماتے ہیں۔ (جاری ہے)