بحیثیت مجموعی یہ کریڈیبلٹی ہی ہے جو آپ کو اقوام عالم کی درجہ بندی میں کھڑا کرتی ہے۔ آپ کی عدلیہ کا کیا کردار ہے۔ وہ اپنے فیصلے کتنی غیر جانبداری سے کرتی ہے۔مظلوم کو کتنی دیر میں انصاف ملتاہے۔ اگر وکیل عدالتوں پر ہلہ بول دیں۔ معزز عدالتوں کی بے توقیری کریں۔ جج دبائو میں آکر فیصلے دیں۔ نظریہ ضرورت کے تحت ایسے فیصلے دیدیں جن کا کوئی جواز نہ ہو۔ تو سوال بہر طور ملک کے عدالتی نظام پر اٹھے گا۔ الطاف گوہر نے اس طرح کئی پہلو اجاگر کئے۔ ہم خود دیکھیں اس وقت ملک کا جو ہالہ ہے اس کے تحت ''جس کی لاٹھی اس کی بھینس'' کے مصداق سارے کام ہورہے ہیں۔ ذرا غور فرمائیے۔ آپ کی پولیس کا نظام کیا ہے۔ تھانہ کلچر کو بہتر کرنے کیلئے کیا کیا گیا۔ کس شعبے میں ایسی تبدیلیاں کی گئی ہوں جس کے اثرات عام آدمی تک پہنچے ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی ایک شعبہ' ایک طبقہ گڑ بڑ کا مرتکب ہورہا ہے۔ باقی سب دودھ میں دھلے ہوئے ہیں۔ عام لوگوں سے منتخب نمائندوں اور وزرا تک ہم سب اس رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ وزیر کا بس چلتا ہے تو وہ صحافی کو زناٹے دار تھپڑ جڑ دیتا ہے۔ صحافی وہ سب کچھ کرنے پر آمادہ رہتا ہے جو وہ کرسکتا ہے۔ مریض ڈاکٹروں پر حملے کرتے ہیں۔ پولیس نے تھانوں کو عقوبت خانوں میں تبدیل کررکھا ہے۔ ہجوم پولیس کو کچل دیتا اور وڈیرہ غریب پر گاڑی چڑھاکر اس کی زندگی چھین لیتاہے۔ ٹاک شوز میں سیاستدان ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھاتے باز نہیں آتے۔ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں۔ وزیر شو میں بوٹ لے آئے تو اینکر مسلسل مسکراتا ہے۔ مگر یہ کبھی نہیں کہتا کہ بوٹ کے ساتھ شو نہیں ہوگا۔ یہ کیسا معاشرہ ہے۔ جہاں جرم کرکے کوئی شرمندہ نہیں ہوتا۔ ایک دکاندار' ایک ڈاکٹر' ایک دفتری بابو' پولیس کو مطلوب ہو۔ تو سارے دکاندار' سارے دفتری بابو' سارے ڈاکٹر مجرم کو بچانے کیلئے اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ وزیر باتدبیر حزب اختلاف کی ''کٹ'' لگانے کی دھمکی دیتا ہے۔ ببانگ دہل وزرا کو الیکشن کمیشن پر چڑھائی کی ہدایت د ی جاتی ہے۔ ہاری زبان کھولتا ہے تو وڈیرہ اور جاگیردار اسے قتل کرادیتا ہے۔ پولیس بے گناہ کو پکڑتی ہے تو پیسے لئے بغیر چھوڑتی نہیں۔ آپ چلتے پھرتے دیکھئے لوگ آپ کو ایک دوسرے سے الجھتے نظر آئیں گے۔ ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوجاتے ہیں۔ چلتا پھرتا کوئی انہیں نہیں سمجھاتا بلکہ یہ سب ان کیلئے ایک انٹرٹینمنٹ فلم ہوتی ہے۔ جسے دیکھنے سب کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہم آپس کے رشتوں میں ایک دوسرے سے الجھتے رہتے ہیں۔ خاندان کے اندر اب وہ معاشرتی ہم آہنگی نہیں۔ جوائنٹ فیملی سسٹم ٹوٹتا جارہا ہے۔ رشتوں کا احترام ختم ہوگیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے مفادات کیلئے ہم ایک دوسرے سے الجھتے رہتے ہیں۔ اب معاشرے کی لڑائیوں میں خواتین بھی کود پڑی ہیں۔ ہر شخص ہر گروہ ہر طبقہ' ہر وقت ہر جگہ شمشیر بدست ہے۔ زبان ہے یا ڈنڈا ہر وقت ہر کسی کیلئے تیار ہے۔ جب تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا بھر میں لوگ ہمیں کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ ہمیں شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہم خود ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے۔ آپ خود اندازہ لگائیں۔ ہم ہر معاملے میں دو نمبری کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ سے باز نہیں آتے۔ ادویات میں دو نمبر کا مال بیچتے ہیں یہ جانتے بوجھتے کہ یہ انسانی جانوں کا سوال ہے۔ کبھی آپ نے سوچا کہ کیا اس طرح ہم دنیا کی اقوام میں کوئی مذہب قوم کہلائیں گے۔ ہمارے ہاں کرپشن اب Institutionalize ہوگئی ہے۔ رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ ہمارا اخلاق' ہماری تربیت' ہمارا رویہ بالکل اتنا ہی قابل عزت ہے جتنا ہمارے پاسپورٹ اور ہماری کرنسی۔ ایک تجزیہ نگار نے بیرونی معاملات میں ہماری نالائقی کو کس طرح ایکسپوز کیا ہے وہ رقمطرازہیں ''قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے زرعی مصنوعات'' کو آگاہ کیا گیا ہے کہ زرعی تجارت میں زمینی راستے سے وسطی ایشیا کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے۔ ایران کہتا ہے کہ اب آپ صرف ایرانی ٹرک میں سامان لے جاسکتے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ آپ یہ سامان افغانستان کے راستے کیوں نہیں بھیجتے؟ آپ تو افغانستان کے نفس ناطقہ بنے ہوئے ہیں۔ پوری دنیا کی منتیں کررہے ہیں کہ افغانستان کو تنہائی سے نکالیں، امداد دیں،تسلیم کریں۔ وزیراعظم سے لیکر وزیروں' معاونین' بیورو کریسی تک سب افغانستان کے مفادات کے پہرے دار بنے ہوئے ہیں۔ امداد دے رہے ہیں۔ امداد دلوا بھی رہے ہیں۔ اگر اتنے پاپڑ بی،نے پر بھی آپ سینٹرل ایشین ممالک سے تجارت نہیں کرسکتے تو آفرین ہے آپ پر اور آپ کی افغان پالیسی پر۔ ہم نے اپنی نالائقیوں کی کیا قیمت چکائی۔ اس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے۔ ہم ہر محاذ پر ناکام ہورہے ہیں۔ خواہ اندرونی منظر ہو یا بیرونی پالیسی۔ وزارت تجارت کے حکام نے خصوصی کمیٹی کو یہ اطلاع بھی دی کہ بہت سے سعودی شہریوں نے بھارت میں ملز خریدی ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ سعودی ہماری طرف کیوں نہیں آئے۔ آپ کی مارکیٹنگ کی ٹیمیں کیا کررہی تھیں جن پر آپ لاکھوں' کروڑوں کرچ کرتے ہیں،۔ ظاہر ہے بھارت نے بہت پہلے سے اس حوالے سے کام کیا ہوگا۔ آپ کو یہ کیوں معلوم نہیں ہوسکا کہ اس حوالے سے آپ کی ٹارگٹ مارکیٹنگ کیا ہے۔ فارن آفس کیا خراٹے لے رہا تھا۔ وہ ٹانگ پر ٹانگ دھرے کیوں بیٹھے تھے۔ یا یہ کہ اس سلسلے میں آپ کی کوئی پالیسی ہی نہیں۔ کیا آپکا زور صرف اس بات پر ہے کہ غیر ملکی آپ کی بستیوں اور زمینوں اور عزتوں کا تاراج کرتے ہوئے ان ازحد قیمتی پرندوں کو کھلے عام شکار کریں جن کی نسل تیزی سے معدوم ہورہی ہے۔ ملز بے شک بھارت خریدے۔یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ ہمارے حکمران کتنی دانشمندی' دور اندیشی اور بصیرت سے ہر معاملے پر اپنا نقطہ نظر کس طرح دنیا کے سامنے رکھتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ دنیا اسے کس نظر سے دیکھتی ہے۔ (ختم شد)