سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ایک بار پھر لسانی سیاست کی ہوا چل رہی ہے۔ ہم جیسے سادہ دل لوگوں نے سمجھا تھا کہ الطاف حسین کے بعد لسانی فتنے اپنے موت آپ مرجائیں گے مگر فتنے اب بھی جاری ہیں۔ سیاست کی بنیاد اب تک نفرت ہے۔ اس لیے آج نفرت کی سیاست کے بارے میں اچھے الفاظ کی توہین کرنے کے بجائے آئیں اور سندھ کے ایک عظیم صوفی شاعر سچل سر مست کے بارے میں بات کریں۔ سندھ ایک گدڑی ہے۔ اس گدڑی میں بہت سارے لعل ہیں۔ سندھ کے سب سے بڑے لعل لطیف سائیں ہیں۔ مگر لطیف کے بعد سچل سرمست کا نام آتا ہے۔ ایک روایت ہے کہ سچل ابھی چھوٹے تھے کہ ان کے گھر شاہ لطیف مہمان بن کر آئیں جب ان کی نظر سچل پر پڑی تو انہوں نے کہا کہ ہم نے جو حقیقت کی دیگ پکا کر تیار کی ہے اس کا ڈھکن یہ بچہ اتارے گا۔ یہ بات اس لیے بھی کی جاتی ہے کہ سچل سرمست کی شاعری میں سندھ کے ہر صوفی شاعرسے زیادہ بیباکی اور جرأت ہے۔ انہوں نے سچ کو اس طرح پیش کیا جس طرح آگ سے نکلا ہوا سونا۔ انہوں نے سچ کو اپنے فن سے سجا کر پیش کرنے کے بجائے اسے اسی طرح پیش کیا جیسا وہ تھا۔ اس لیے سچل سرمست کا کلام جب ہمارے فنکار یا ان کے فقیر گاتے ہیں تو وہ مست ہوجاتے ہیں۔ جس طرح ان کے نام سے ’’سرمست‘‘ جڑا ہوا ہے؛ اسی طرح ان کے کلام میں بھی وہ مستی اور خماری ہے جو کسی اور کے کلام میں نہیں۔ سچل سرمست میں بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو کسی اور صوفی شاعر میں نہیں ملتی۔ کیا یہ بات حیران کن نہیں ہے کہ انہوں نے ایک یا دو زبانوں میں نہیں بلکہ سات زبانوں میں شاعری کی ہے۔سندھ میں بہت سارے صوفی شعراء ایسے ہیں جنہوں نے دو زبانوں میں شاعری کی ہے۔ کسی شاعر نے تیسری زبان میں بھی مشق سخن کی ہے مگر سچل سرمست کا یہ کمال ہے کہ انہوں نے سات زبانوں میں شاعری کی ہے۔ ان کی سندھی شاعری بہت پراثر ہے مگر جو لطف اور جو روانی ان کی سرائیکی شاعری میں ہے وہ کسی اور زبان میں نہیں۔ یہ بات میں اس لیے نہیں کہتا کہ سرائیکی میری مادری زبان ہے۔ ۔ ہم زباں ہونے سے لوگ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں اور ایک دوسرے سے اپنائیت محسوس کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ سچل کی سرائیکی شاعری پڑھ کر مجھے اپنی ماں کی لوریاں یاد آتی ہوں ۔ یہ ممکن ہو سکتا ہے، مگر میں سوچتا ہوں کہ اگر سچل سر مست کی شاعری سے مجھے مادری زبان ہونے کی وجہ سے الفت ہے تو پھر شیخ ایاز کو ان کی سرائیکی شاعری کیوں پسند تھی۔ شیخ صاحب نے جب طویل خاموشی کے بعد منظرعام پر آکر اپنا ادبی اظہار کیا تھا تو اس کی ابتدا بھی انہوں نے سچل سرمست کے مزار اور ان کے میلے سے کیا تھا۔ انہوں نے اس وقت اپنے مقالے میں خاص طور پر لکھا تھا کہ ’’ویسے تو سچ سارا سونا ہے مگر مجھے ان کے سرائیکی کلام سے محبت ہے۔ کیوں کہ ا ن کے کلام میں جو شہد کی خوشبو ہے۔ ان کے سرائیکی کلام میں جو تصوف کی خوشبو ہے۔ وہ ان کے کسی دوسرے کلام میں نہیں‘‘ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ مجھے سچل سرمست کی شاعری کا اردو روپ سب سے زیادہ پراثر محسوس ہوتا ہے۔ سچل سرمست نے فارسی میں بھی شاعری کی ہے۔ انہوں نے ہندی کلام بھی لکھا ہے۔ مگر ان کی اردو پر جو پکڑ ہے وہ تو کمال کی ہے۔ حالانکہ اس وقت سندھ میں اردو بہت ہی کم بولی جاتی تھی۔ یہ اس دور کی بات ہے جب سندھ کو انگریزوں نے فتح نہیں کیا تھا۔ جب سندھ پر تالپور خاندان کی حکمرانی تھی۔ تالپورحکمران سرائیکی بولتے تھے۔ جب انہیں انگریزوں نے شکست دی تب انگریزوں نے اردو کو سندھ میں بھرپور طریقے سے متعارف کروایا۔ انگریز ہندوستان سے آئے تھے اور وہاں وہ اردو آسانی سے بولتے تھے؛ اس لیے سندھ میں اردو انگریزوں کے معرفت آئی مگر انگریزوں سے قبل سندھ میں سچل سرمست نے جس طرح اردو میں شاعری کرکے محبت کا ایک نیا باب کھولا اس کا احساس اگر لسانی سیاست کو فروغ دینے والوں کو ہوتا یا ان کے باتوں میں بہت جانے والے لوگ جانتے کہ آج سے ڈھائی صدیاں قبل سندھ میں اردو شاعری کا پرچم جس طرح سچل سرمست نے لہرایا وہ کمال اس درویش کا تھا۔ کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتاہے کہ سچل سرمست نے اپنے اظہار کے لیے سات زبانوں کا انتخاب کیوں کیا؟وہ تو ساری عمر سرکاری سائے سے بھی دور رہے۔ وہ اس دور میں تالپور حکمرانوں کی ادبی وزارت کا کوئی افسر نہ تھا کہ سات زبانوں پر عبور ہونے کا رعب جمائے۔ کاش! سندھ میں لسانی سیاست کی آگ بھڑکانے والوں کے دل میں سچل سرمست کی یہ بات اتر جائے۔ سچل نے انسان کی کمزوریوں کی نشان دہی کی ہے اور انہوں نے ان کمزوریوں پر غالب آنے کے لیے لوگوں میں حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے اپنے کلام میں جس طرح ’’نفی اور اثبات‘‘ کا فلسفہ عوامی انداز میں بیان کیا ہے وہ تو کمال ہے۔ سچل سرمست کے بارے میں سب سے بڑی بات یہ مشہور ہے کہ ان کے کلام میں جو بہادری ہے کہ کسی اورصوفی شاعر کے حصے میں نہیں آئی۔ یہ ہی سبب کہ شیخ ایاز نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’آج صبح صبح سچل سرمت کا کلام پڑھا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شیر کے گوشت سے ناشتہ کیا ہے‘‘وہ سچ کو بیان کرنے اور لوگوں کا حوصلہ بڑھانے کے سلسلے میں بہت بڑے مقام کے مالک ہیں۔ اس لیے انہوں نے بار بار یہ تلقین کی ہے کہ دنیا سے دہشت زدہ مت ہو۔ اپنے دل کا اظہار کرنے کے سلسلے میں کسی کو خاطر میں مت لاؤ۔ ایسی باتیں کرتے ہوئے ان کا جو انداز بیاں ہے وہ تو کمال کا ہے۔ انہوں نے کتنے پیار اور کتنے کھلے اظہار کے ساتھ لکھا ہے : ’’شعار خاص سے الجھے/شعور عام سے الجھے/ہمارا مسلک پرواز/کس کس دام سے الجھے/صبا جب زلف جاناں کا /پیام مشکبو لائی/کبھی ہم کفر سے الجھے/کبھی اسلام سے الجھے‘‘ کاش! نفرت کی باتیں کرنے والے سچل سرمست کی محبت کی مے کا ساغرپیئیں اور ان کی طرح محبت کے فقیر بن جائیں اور دنیا کو بتائیں کہ : ’’پیار ہی ایک لفظ ہے/پہلا اور آخری/ہاں اگر چاہو تو ہیں/الفاظ بے معنی بہت‘‘