شام فراق یار نے ہم کو اداس کر دیا بخت نے اپنے عشق کو حسرت و یاس کر دیا خوئے جفائے ناز پر اپنا سخن ہے منحصر ہم نے تو حرف حرف کو حرف شناس کر دیا سیاست میں یہ تو ہوتا ہے کہ کہیں فرفت تو کہیں وصال۔کوئی دشمن تو کوئی دوست اور کوئی رقیب تو کوئی محبوب ۔یہ سب کچھ سیاست میں بھی ہے اور یہاں بھی محبوب کے نخرے برداشت کرنا پڑتے ہیں اور اگر وہ روٹھ جائے تو اسے منانا بھی پڑتا ہے۔ وہی کہ نوکر کیہیہ تے نخرہ کیہہ!ہم بھی سعودیہ کو منا رہے ہیں اور وہ مان بھی جائے گا کہ یہ آشنائی کوئی نئی تو نہیں پھر اپنے پیارے کے لئے وہ زبان تو استعمال نہیںکرتے جو شاہ محمود قریشی نے استعمال کی تھی اور پھر محبوب کی ناراضگی تو بنتی تھی۔ ظفر اقبال یاد آ گئے: ایسا نہیں کہ میرے بلانے سے آ گیا جب رہ نہیں سکا تو بہانے سے آ گیا محبت میں یہ تو چلتا ہے مگر پتہ نہیں ایک نہایت عمدہ شعر میرے ذہن میں بے تاب ہے کہ صفحہ قرطاس پر آ جائے۔ بتانا مقصود یہ ہے کہ ہمارے اساتذہ شعر کیسا کہتے تھے کہ کمال کی دلیل ساتھ لاتے تھے۔ بس میرا دل چاہتا ہے کہ میرے قارئین اس شعر کا لطف اٹھائیں: ہم جو تڑپے تو صنم روٹھ گیا چھوڑ گیا خون بہتا ہی رہا ان کو منانے کے لئے میرا خیال ہے شعر آپ کو سمجھ میں آ گیا ہو گا کہ محبوب کو عاشق کا تڑپنا بھی پسند نہیں کہ تسلیم و رضا کا تقاضا ہے کہ چپ چاپ اور بنا چوں و چراں قتل ہو جائے۔ اب جب وہ نیم بسمل یعنی مقتول درد کے باعث ملا ہے تو محبوب غصے میں اسے اسی حالت میں چھوڑ گیا اور عاشق کا خون بھی قاتل کے پیچھے بہتا چلا جا رہا ہے گویا اس سے معافی طلب کرنا اور اسے واپس لانا چاہتا ہے۔ بہرحال جہاں زیادہ محبت ہوتی ہے وہاں کبھی کبھی شکررنجی ہی ہو جاتی ہے اور ایسے بھی کبھی چاہت اور بڑھ جاتی ہے۔ دشمن تو چاہتا ہے کہ تفرقہ پڑے۔ ہمیں اس معاملے میں بہت ہوشیار رہنا چاہیے کہ سوشل میڈیا پر ایسے علماء کی تقریریں لائی جا رہی ہیں جو امام کعبہ کے پیچھے نماز نہ پڑھنے پر دلیلیں دیتے ہیں۔ جو شخص مسلمانوں میں نفرت پھیلاتاہے وہ مسلمانوں کا نہ دوست ہے اور نہ خیر خواہ شیعہ سنی کے مابین بھی محاذ گرم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خارجی اور داخلی ہر سطح پر صورت حال گھمبیر ہوتی جا رہی ہے اس کے لئے انتہائی حکمت و دانش کی ضرورت ہے جو کہ فی الحال مفقود ہے۔ سارا سناریو ہمارے سامنے ہے کہ ہمیں انتخاب کرنا ہے کہ کس کے ساتھ جانا ہے امریکہ کے ساتھ یا چین کے ساتھ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ انتخاب کرنے کی پوزیشن میں ہم نہیں ہیں ۔ اقبال کے شعر کی حد تک تو ٹھیک چین و عرب ہمارا۔ مگر چین کا نام لینے والے کو امریکہ چین سے رہنے نہیں دے گا۔ دوسرے لفظوں میں دو کشتیوں میں پیر رکھنے والی بات ہے ہم دوراہے پر کھڑے ہیں۔ بے چینی ہماری بڑھتی جا رہی ہے۔ بہت کچھ مشکوک ہوتا جا رہا ہے۔ آپ عوامی سطح پر خاص طور پر مڈل کلاس کے مذہبی لوگوں میں یہ شک کو شبہات دیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں یہ دھیان رکھنا ہے کہ رستے ہی رکاوٹ ہیں۔ اس معمے کو سلجھانا آسان نہیں ہے مگر اتنا تو ہم سمجھتے ہیں کہ سی پیک ہمارے لئے انتہائی کارآمد ہے اور یہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ ایران کیوں چین کے قریب چلا گیا ہے۔ ترکی اور ملیشیا کیوں خود مختاری اور بقا کے حوالے سے حساس ہیں۔ ہمیں ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے داخلی سطح پر یکسو ہونا پڑے گا۔ ابھی تو ہمیں ایک اور جانب دھکیلا جا رہا ہے کہ جہاں یو اے ای پہنچ گیا ہے کہ پہلے اس نے مودی کو ایوارڈ سے نواز کر مسلمانوں کو ایزا پہنچائی اور اب اسرائیل کو تسلیم کر کے کھلے عام اسلام دشمنوں کے سامنے سجدہ ریز ہو گیا اور اہل بصیرت اس کو ٹریلر سمجھ ہی نہیں رہے حقیقت جانتے ہیں۔ایک مرتبہ پھر ہمارے مرکز کو ہلایا جا رہا ہے تاکہ مسلمان مکمل انتشار کا شکار ہو جائیں اس ابتری کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس وقت علماء کو آگے آنا چاہیے اور قوم میں یگانگت اور یکجہتی کے لئے انہیں تیار کرنا چاہیے اس کے لئے برداشت ‘رواداری اور بھائی چارہ کی ضرورت ہے۔ معزز قارئین:لگتا ہے میں نے کالم کو گھمبیر سا کر دیا ہے۔آپ خود ہی بتائیں کہ کیا کیا جائے۔ ہمارے رہنما اور سیاستدان سب اپنی اپنی بقا کے لئے ایک دوسرے سے بھڑ رہے ہیں۔ وفاق اور سندھ کی کشیدگی ہی کو لے لیں جو کہ بڑھتی جا رہی ہے اب جو مراد علی شاہ نے صاف کہہ دیا ہے کہ کوئی اپنے دماغ سے فتور نکال دے کہ انہیں اختیارات میں شریک کر لیا جائے گا۔تو مجھے وہ دور دوبارہ یاد آ گیا جب نواز شریف وزیر اعلیٰ تھے اور بے نظیر وزیر اعظم۔ گورنر راج کی باتیں ہو رہی ہیں۔ان معاملات سے یکسر بے خبر غریب طبقہ مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ ذمہ دار کوئی بھی نظر نہیں آ رہا۔ کرپشن ہماری رگوں میں سرایت کر چکی ہے کہ جب بلوچستان کا مگسی یہ کہے کہ وہ کرپشن میں نیب گیا‘ جیل گیا اور اب وہ وزیر اعلیٰ بن گیا تو یہاں کیا ممکن نہیں۔ یہ باتیں سن کر اپنے کانوں پر یقین نہیں آتا۔ مگر کیا کیا جائے جنگل سے کب نکلتے ہیں آہو ڈرے ہوئے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ خان صاحب کر کیا رہے ہیں۔ وہ جو انقلاب لانا چاہتے تھے وہ تو نہیں آیا شاید ان کے ہاتھ سے اس طرح آ جائے کہ وہ سب کا جینا اجیرن کر رہے ہیں اور سب کے راستے مسدود کرتے جا رہے ہیں۔ مثلاً ایک عام سے اور معمولی سے معاملے کی طرف ہماری توجہ ہمارے شاعر اور دانشور نوید بک پوسٹ ترسیل کی طرف دلائی کہ جو 10روپے سے بڑھ کر 20روپے ہو گئی ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں نوید صادق کی بھیجی ہوئی پوسٹ من و عن یہاں نقل کر دوں تاکہ آپ کو پڑھے لکھے لوگوں کے ہیجان کا علم ہو سکے۔ بک پوسٹ ترسیل کی قیمت 10روپے سے 20روپے اور آج کارواں پوسٹ کرنے کے لئے ٹکٹیں منگوائیں تو 25روپے۔ عمران خاں کو چاہیے کہ ملک میں ادب اور ادب کا نام لینے والوں کو ختم کرنے کا حکم جاری کر دیں۔ اس کے بدلے میں وہ جو مراد سعید اسمبلی میں اور اسمبلی کے باہرکہتے ہیںاسے ادب عالیہ قرار دے دیں۔ میں تو پرچہ بند کرنے کا سوچ رہا ہوں۔ تو جناب یہ ہے حکومت کی کارکردگی ایک پرچہ ہی نہیں بہت کچھ بند ہونے جا رہا ہے۔ یہ شکوہ معروف شاعر اور مدیر خالد صاحب نے بھی کیا ہے جس بھی چیز کا تعلق علم اور تعلیم سے ہے اس کا مستقبل تو کیا حال بھی ابتر ہو چکا۔ آپ مجھے ان تلخ باتوں پر معاف فرما دیں کہ عوام اور دانشور کی بات سامنے لانا ضروری تھا:ایسا لگ رہا ہے کہ ہم کہیں معلق ہیں کسی chaosمیں ہیں۔ اس وقت تو کوئی ایسا شخص ہونا چاہیے تھا جو اپنے قول عمل سے ہمارا حوصلہ بنتا۔ خان صاحب ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں گھبرانا نہیں۔ حالانکہ انہیں خود بھی گھبرانا چاہیے کہ ان سے کیا کروایا جا رہا ہے۔ امجد صاحب کے شعر کے ساتھ اجازت: دل کے دریا کو کسی روز اترجانا ہے اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے