حکومت نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کی سفارش پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے بعد پٹرول کے فی لٹر نرخ 2.61روپے اضافے کے بعد 116.60روپے‘ ہائی سپیڈ ڈیزل 2.25روپے اضافے کے بعد 127.26روپے اور مٹی کا تیل 3.10روپے اضافے کے ساتھ 99.45روپے تک جا پہنچے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ حکومت نے پہلی بار ایک ہی دفعہ ایل پی جی کی فی کلو قیمت میں 23.54روپے اضافہ کیا ہے۔ کراچی کے شہریوں کے لئے نئے سال کے آغاز پر پہلی بری خبر کے الیکٹرک کی جانب سے فی یونٹ بجلی کے نرخوں میں 4.88روپے اضافہ ہے۔ تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالتے ہی ملکی معیشت کی بحالی کو اپنی ترجیح قرار دیا۔ معیشت کی بحالی کے لئے پہلے مالیاتی انتظامات کی درستی کی گئی۔ درآمدات کو کم کیا گیا‘ برآمدات میں اضافہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ دوست ممالک سے قرض اور مستعار فنڈز کے ذریعے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دیا گیا۔ بعدازاں آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے ساتھ نئے سرے سے مذاکرات کئے گئے۔ آئی ایم ایف نے جو شرائط پیش کیں ان پر کئی ماہ تک غورو خوض کیا گیا۔ خوب سوچ سمجھ کر آئی ایم ایف کے ساتھ نئے قرض کا معاہدہ ترتیب دیا گیا۔ ان اقدامات کا فائدہ ہوا۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں استحکام پیدا ہوا۔ ان اقدامات کے ساتھ ساتھ حکومت نے چین کے ساتھ سی پیک منصوبوں کے اگلے مرحلہ کی بابت بات کی۔ یہ تمام صورت حال پتہ دیتی ہے کہ حکومتی تدابیر نیک نیتی کے ساتھ جاری رہیں تو صنعتی و مالیاتی شعبہ جلد بحران سے نجات حاصل کر لے گا۔ گزشتہ برس ایسے متعدد مواقع آئے جب اشیائے ضروریہ کی قیمتیں صارفین کی رسائی سے باہر ہو گئیں۔ دو ماہ قبل ٹماٹر کے نرخ ساڑھے تین سو روپے سے چار سو روپے فی کلو تک جا پہنچے۔ لیموں کی قیمتیں رمضان المبارک کے دوران پانچ سو روپے فی کلو ہو گئیں۔ تیس چالیس روپے فی کلو فروخت ہونے والی سبزیاں ایک سو روپے کلو تک جا پہنچیں۔ گندم ‘ دالیں‘ گوشت اور ادویات تک کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ یہ اضافہ اس لحاظ سے پریشان کن تھا کہ شہریوں کی آمدن میں اضافہ کی بجائے کمی واقع ہو رہی ہے۔ ہر شخص کے وسائل جب اس کے اخراجات کی نسبت کم ہوں گے تو اشیائے ضروریہ خریدنے کی سکت ختم ہو جائے گی۔ اس سکت کا نہ ہونا مہنگائی کہلاتا ہے۔ حکومت کا یہ فریضہ ہے کہ وہ عوام کی قوت خرید کو بحال رکھے۔یقینا بہت سی چیزوں کے نرخ بیرونی تجارت اور روپے کی قدر میں کمی بیشی سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں تیل کے نرخوں کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ چند ماہ قبل جب سعودی عرب میں تیل نکالنے والی بڑی کمپنی آرامکو کی تنصیبات پر باغیوں نے میزائل حملہ کیا دنیا بھر میں تشویش کی لہر پیدا ہو گئی۔ اس بات کا خدشہ محسوس ہونے لگا کہ امریکہ اپنے اتحادی سعودی عرب کی زبردستی مدد کے نام پر خلیج میں ایک نئی جنگ شروع کر دے گا۔ اس طرح کے خدشات نے تیل کی خریداری بڑھا دی۔ صارف ممالک نے اپنا ذخیرہ بڑھانے کے لئے آرڈرز زیادہ کر دیے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قلت کے آثار پیدا ہوئے تو قیمتوں میں اضافہ ہونے لگا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قلت یا پھر ان کی قیمتوں میں اضافہ بین الاقوامی معیشت کو متاثر کرتا ہے۔ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ دو اسباب کی وجہ سے بڑھتے ہیں۔ جب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی ہو اور جب عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھیں۔ پٹرولیم مصنوعات میں حالیہ اضافے کے پس پردہ ان دونوں میں سے کوئی ایک وجہ دکھائی نہیں دیتی۔ معاشی اور مالیاتی اصلاحات کے نتیجے میں غریب اور کم آمدنی والے طبقات سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ وزیراعظم کے بعض رفقا کی ایسی کوششیں منظر عام پر آتی رہی ہیں جن میں بڑے کاروباری گروپوں کو ناواجب فوائد پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ یہ فوائد اربوں روپے کے ہیں۔ دوسری طرف غریب آدمی چند روپے کی خاطر زندگی دائو پر لگانے کو تیار رہتا ہے۔ علاج کے لئے سہولیات غریب آدمی کی پہنچ میں نہیں۔ لاکھوں گھرانے روٹی پوری نہیں کر پاتے۔ تیل کی قیمتیں بڑھنے سے اب ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھیں گے‘ اشیاء کی ترسیل مہنگی ہو گی‘ پیداواری لاگت میں اضافہ ہو گا۔ ہر وہ کاروبار متاثر ہو گا جہاں پٹرول ‘ ڈیزل ‘ مٹی کا تیل یا فرنس آئل استعمال ہوتا ہے۔ ایک زنجیر ہے جس کی کڑی نئی مہنگائی سے جڑی دکھائی دیتی ہے۔ یہ زنجیر جہاں جہاں موجود ہو گی قیمتوں میں اضافہ وہاں نمودار ہو گا۔ پٹرولیم کے نرخوں میں اضافے سے مہنگائی کا نیا سلسلہ نمودار ہونے کا خدشہ ہے۔ حکومتی اداروں اور ذمہ داروں کے تساہل کی وجہ سے پہلے ہی پرائس کنٹرول میکنزم غیر فعال ہو چکا ہے۔ اس فضا میں حکومت غریب طبقات کے لئے مراعات کا جو بھی فیصلہ کرتی ہے اس کے ثمرات پسماندہ طبقات تک پہنچتے پہنچتے ہفتوں اور مہینوں کا وقت لے لیتے ہیں جبکہ حکمران اشرافیہ کے لئے رعایتوں سے فائدہ اٹھانا اسی وقت ممکن ہو جاتا ہے جب کوئی فیصلہ کیا جائے۔ حکومت کی ان کوششوں کو سراہا جانا چاہیے جن کے ذریعے وہ ملک کو معاشی استحکام کی راہ پر ڈال رہی ہے تاہم جن فیصلوں سے عام آدمی متاثر ہو رہا ہے اور حکومتی اقدامات غیر موثر ثابت ہو رہے ہوں ان کی طرف حکومتی توجہ ضرور مبذول ہونی چاہیے۔ پٹرولیم مصنوعات‘ ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافہ اور پھر کے الیکٹرک کی طرف سے ایک ہی روز نرخوں میں اضافہ نئے سال کے آغاز پر بہت ناگوار اور نامناسب معلوم ہوتا ہے۔