معزز قارئین!۔ امام کعبہ ڈاکٹر شیخ عبداللہ بن عواد الجہنی اپنے کامیاب دورہ پاکستان کے بعد وطن واپس چلے گئے ،اُن سے ملاقاتیں کرنے والوں میں صدر عارف اُلرحمن علوی، وزیراعظم عمران خان ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور حکومتی اکابرین کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین اور مختلف مسالک کے عُلماء بھی شامل ہیں ۔ مختلف مساجد اور دینی مدارس میں امام کعبہ کی اقامت میں نماز پڑھنے اور اُن کے خطبات سُننے والوں کی بھی تعداد لاکھوں میں تھی۔ علاّمہ اقبالؒ نے اپنی نظم ’’ شکوہ‘‘ میں مالکِ ارض و سماء سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ … ’’تیرے کعبے کو ، جبینوں سے بسایا ہم نے !‘‘ …O… کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ نمازی جو، حج ، عمرہ ، کے دَوران یا عام دِنوں میں کعبہ کو اپنی جبینوں سے بساتے ہیں اور امام کعبہ کی خوش قسمتی کا تو، جواب ہی نہیں ہے۔ اسلام آباد اور لاہور میں جہاں جہاں بھی امام کعبہ تشریف لے گئے۔ اُن کا ہر طبقے نے عقیدت و احترام سے شاندار استقبال کِیا۔ مجھے یاد ہے کہ ’’ آج سے چار سال قبل شیخ خالد الغامدی صاحب امام کعبہ تھے ، جب وہ ، اپریل 2015ء میں دورہ پاکستان پر تشریف لائے ۔ اُن کا بھی عقیدت و احترام سے شاندار استقبال کِیا گیاتھا۔ 14 اپریل کو لاہور میں (ملک ریاض حسین کے بحریہ ٹائون کی ) گرینڈ جامع مسجد میں امام کعبہ صاحب کی اقتداء میں بہت سے لوگوں نے نمازِ جمعہ ادا کی تھی۔ اخبارات میں نمازیوں کی تعداد ہزاروں میں بتائی گئی اور ایک لاکھ کی بھی ۔ امام کعبہ صاحب نے خطبۂ جمعہ میں فرمایا تھا کہ ’’ اسلام میں مذہبی تعصب اور منافرت کی گنجائش نہیں ہے۔ (پاکستان کے )حکمران قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کریں اور عُلماء اِنصاف کے لئے جدوجہد کریں ‘‘۔ امام صاحب نے یہ دُعا بھی فرمائی تھی کہ ’’ یا اللہ !۔ پاکستان کو دہشت گردی سے نجات دِلا دیں‘‘۔ معزز قارئین!۔ امام صاحب کی یہ دُعا تو قبول ہوگئی تھی۔ اسلام آباد / لاہو ر میں مختلف تقاریب سے خطاب کرتے ہُوئے موجودہ امام کعبہ ڈاکٹر شیخ عبداللہ بن عواد الجہنی نے فرمایا کہ ’’ پاکستانی قوم ، پاک فوج اور حکومت نے دہشت گردی کو ختم کردِیا ہے اور مَیں اُنہیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہُوں ۔ امام کعبہ ڈاکٹر شیخ عبداللہ بن عواد الجہنی کے خطابات کے اہم نکات یہ ہیں کہ ’’ ٭ اسلام مساوات ، رواداری اور امن کا درس دیتا ہے ۔ اسلام میں دہشت گردی کی گنجائش نہیں ہے ۔ ٭ پاکستان اور سعودی عرب ایک جسم دو قالب ہیں ۔ ٭ سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیتا رہے گا ۔ ٭ پاکستان اُمت مسلمہ کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے اور وہ خطّے میں قیام امن کے لئے اہم کردار ادا کر رہا ہے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ میرے نزدیک امام کعبہ کے خطابات کا خاص نُکتہ یہ ہے کہ ’’ پاکستان کے عُلماء آگے بڑھیں اور معاشرے سے نفرت ختم کرنے اور بھائی چارے کی فضاء قائم کرنے میں کردار ادا کریں ۔ عُلماء کا کام اللہ تعالیٰ کے بندوں ( یعنی تمام اِنسانوں ) کو جوڑنا ہے۔ عُلماء جو بھی فتویٰ دیں اُس کی بنیاد حقؔ اور سچؔ پر ہو!‘‘۔ کیوں نہ مَیں نئی نسل کی معلومات کے لئے حقؔ۔ سچ ؔاور فتویٰ کے معنی بیان کروں ؟۔ عربی زبان کے لفظ حقؔ کے معنی تو، ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اور دوسرے ’’ ٹھیک ، درست ، راست ، واجب یا جائز ‘‘۔ سچ ؔ ۔ ہندی زبان کا لفظ ہے اور اِس کے معنی بھی ہیں ۔’’ راست ، حق ، راستی ، بجا ، درست یا واقعی ‘‘۔ جو عالم دین شرع کے حکم / شرعی فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہُو اُسے مفتی کہتے ہیں اور اُس کے فیصلے کو فتویٰ ؔ ۔ علاّمہ اقبالؒ نہ جانے اُس وقت اپنے دَور کے عُلماء سے کتنے مایوس ہوں گے جب، اُنہوں نے کہا تھا کہ … ’’مشکل ہے کہ اِک بندہ ٔ حق بِین و حق اندیش!‘‘ …O… معزز قارئین!۔ سانحہ کربلا پر تبصرہ کرتے ہُوئے غوث اُلاعظم شیخ عبداُلقادر جیلانی / گیلانی ؒکے سلسلہ قادریہ کے ، فارسی اور پنجابی کے صوفی شاعر ، حضرت سُلطان باہو (1629ء ۔ 1690ئ) نے فرمایا تھا کہ … جے کر، دِین عِلم وِچ ہوندا ! تاں سِر نیزے کیوں چڑھدے ہُو! اٹّھاراں ہزار جے عالم آہا ! اوہ اگے حُسینؑ دے مَردے ہُو ! جو کُجھ ملاحظہ سَرورؐ دا کر دے! تاں خیمے تمبو کیوں سَڑدے ہُو! پر صادق دِین تِنہاں دے باہُو ! جو سرِ قُربانی کردے ہُو! … O … یعنی’’ اگر دِین اسلام ( محض) عِلم میں ہوتا تو پھر ( میدانِ کربلا میں اہل بیتؑ) کے سروں کو نیزوں پر کیوں چڑھایا جاتا؟ سانحۂ کربلا کے وقت یزید کی سلطنت میں 18 ہزار عُلمائے دِین موجود تھے ( انہوں نے یزید کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کیوں نہیں کِیا؟اور اُنہوں نے حضرت امام حُسینؑ پر اپنی جانیں کیوں نہ قربان کردیں؟ اگر وہ عُلماء حق پرست ہوتے تو وہ آل رسولؐ کے خیموں کو آگ کی نذر کیوں ہونے دیتے؟ اگر اُس وقت مسلمان کہلانے والے لوگ حضورؐ کی اطاعت / تابعداری کرنے والے ہوتے تو ، وہ اہلِ بَیتؑ کا پانی کیوں بند کرتے؟۔ اے باہوؑ ! جو لوگ حق پرست لوگوں کے لئے قربانی دے سکیں ، وہی دِین کی حفاظت کرنے والے اور سچے ہیں‘‘۔ پھر کیا ہُوا معزز قارئین!۔ یزیدی دَور کے بعد بھی عہدوں کے لالچی عُلماء بادشاہوں کے درباوں کی زینت بن گئے۔ بادشاہوں کی خواہش کے مطابق ’’ اسلامی فِقّہ‘‘ ترتیب دی گئی۔ بادشاہوں کو ’’ ظلِ الٰہی‘‘ اور ’’خُدا کا نائب ‘‘ قرار دِیا گیا اور اُن سے وفاداری کو اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی تابعداری کے فتووں کو عام کِیا گیا ۔’’انداز میر نجات نقشبند المعروف بہ بابائے صحرائی کے برائے مسلمانانِ ہندوستان رقم فرمودہ اَست‘‘۔ کے عنوان سے علاّمہ اقبال کی فارسی نظم کے9 اشعار کا ترجمہ پیش کر رہا ہُوں ۔ ’’٭ (اب ) کعبہ کی آبادی ہمارے ٗبتّوں سے ہے ( آج ) کُفر ہمارے اِسلام پر خندہ زَن ہے ۔ ٭ شیخ نے بتّوں کے عشق میں اِسلام ہار دِیا۔اُس نے زنار کو اپنی تسبیح کا دھاگہ بنا لیا۔ ٭ (اب) بُزرگ صِرف اپنے سفید بالوں کی وجہ سے بُزرگ ہیں ، ورنہ اُن کے کام ایسے ہیں کہ ، گلی کے بچے بھی اُن پر ہنستے ہیں ۔ ٭ دِل لاالہ کے نقش سے خالی ہے ۔ اور ہوس کے بتوں کے باعث بُت خانہ بنا ہُوا ہے۔ ٭ ہر مودراز ، خرقہ پوش ( رُوحانی بزرگ ) بنا ہُوا ہے ۔ افسوس ہے کہ اُن دین فروشوں ، سوداگروں پر (آج کل کے) پیر ۔ مریدوں کے ساتھ سفر میں رہتے ہیں ۔ وہ مِلّت کی حالات و ضروریات سے بالکل بے خبر ہیں ۔ ٭ ان کی آنکھیں نرگس کی مانند بے نُور ہیں اور اِن کے سینے دِل کی دولت نہ ہونے کی وجہ سے دِل کی دولت سے خالی ہیں ۔ ٭ کیا واعظ اور کیا صُوفی سب جاہ پرست ہیں ۔ مِلّت بیضا کا وقار ختم ہو چکا ہے ۔ ٭ ہمارے واعظ کی آنکھ بُت خانے پر لگی ہوئی ہے اور ہمارے مفتیانِ دین مبیں فتوے فروخت کر رہے ہیں ۔ ٭ دستو!۔ اب ہمارے لئے کیا چارہ ، کار باقی رہ گیا ہے ؟ ۔ جب ہمارے پیر نے میخانے کا رُخ اختیار کر لِیا ہے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ قیام پاکستان کے لئے قائداعظم ؒ کی قیادت میں ۔ اہل سُنت اور شیعہ مسلمانوں نے جدوجہد کی تھی ۔ البتہ ۔’’جمعیت عُلمائے ہِند‘‘۔ کے اکثر عُلماء نے ، ہندوئوں کے باپو موہن داس کرم چند گاندھی ؔکی سرپرستی میں ، ہندوئوں کی مُتعصب جماعت ۔ ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘۔ کا ساتھ دِیا تھا جنہیں کانگریسی مولوی کہا جاتا تھا ۔ قیام پاکستان کے بعد بھی اُنہی کانگریسی مولویوں کی باقیات نے قائداعظم ؒ کے خلاف فتویٰ بازی کا کاروبار بند نہیں کِیا۔ عام انتخابات میں اُنہیں کبھی بھاری مینڈیٹ نہیں ملا اِس لئے اُنہیں ہر حکمران کا طفیلی بن کے سیاست کرنا پڑتی ہے ۔ اللہ کا شُکر ہے کہ پاک فوج اور محب وطن پاکستانیوں نے دہشت گردی کا خاتمہ کردِیا ، جس پر امام کعبہ بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔ بجا ارشاد فرمایا امام کعبہ نے لیکن، اُنہوں نے عُلماء سے جو، ارشاد فرمایا ہے اُس کا کیا ہوگا؟۔