شاعر مشرق نے خداوند تعالیٰ سے شکوہ کیا تھا کہ رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کا شانوں پر۔ برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر۔ مسلمانان عالم پچھلے زمانے میں بھی بے چارے تھے آج بھی بے چارے ہی ہیں۔ عالمی طاقتوں کے نزدیک ان کی حیثیت چارے سے زیادہ نہیں۔ مسلمان کریں بھی تو کیا۔ انہیں اپنے گھر کے اندرونی جھگڑوں سے فرصت نہیں۔ وہ آپسی تنازع سلجھالیں تو بڑی بات ہے، اپنی حالت کو سنوارلیں اور درپیش چیلنجوں سے نمٹ لیں تو شاید اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔ حالت ان کی روز بروز قابل رحم ہوتی جاتی ہے اور کوئی رہنما کوئی مسیحا انہیں ایسا میسر نہیں جو ان کے زخموں پر مرہم رکھ سکے اور یہ سمجھا سکے کہ جن مصائب اور پریشان حالی کا وہ شکار ہیں، ان دکھوں کا مداوا کیا ہے؟ ایک طرف تو ہم مسلمان اس خود اطمینانی سے دوچار ہیں کہ راستی اور صداقت پر ہم ہی ہیں، ہم ہی وہ امت ہیں جو ناجی یعنی نجات یافتہ ہے اور باقی دنیا گمراہ اور جہنمی ہے اور یہ جو مصائب ہم پہ سیاہ بادلوں کی طرح گھر گھر کر آ رہے ہیں، اس کی وجہ کفار، یہود و ہنود کی سازش کے سوا کچھ اور نہیں۔ عین ممکن ہے کہ اس میں کچھ سچائی بھی ہو لیکن اگر یہ سچ ہے تو اس میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کہ ہم مسلمانوں ہی میں ایسے عناصر بھی ہیں جو ان سازشوں میں اپنے دنیاوی مفادات کے لیے حصہ د ار بھی ہیں۔ شاید ہی کوئی زمانہ ایسا گزرا ہو جب مسلمانوں میں میر جعفر اور میر قاسم جیسے غدار پیدا نہ ہوئے ہوں۔ آج بھی ان کی کمی نہیں۔ ہم نے کہا کبھی رک کر ٹھہر کر اس سوال پر ٹھنڈے دل سے غور کیا کہ غدار اس کثرت سے مسلمانوں ہی میں کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ مسلمانوں کے اندر ایسے لوگ کیوں کر جنم لیتے ہیں جو مال و دولت کی حرص میں یا چند دنیاوی مفادات کے لیے اغیار کے ہاتھوں میں خود اپنے ہی ملک و ملت کے خلاف کھلونا بننے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ ہمارا دین دنیا پرستی کے خلاف جتنی نصیحت و تلقین کرتا ہے اور وفاشعاری اور جانثاری کو جتنا بلند درجہ دیتا ہے، مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے پر اس کا اثر بالکل برعکس طریقے سے مرتب ہوتا ہے۔ ان ہی اسباب کی بنا پر شاعر مشرق مسلمانوں کے اس طبقے سے مایوس ہو کر کہہ اٹھے تھے کہ یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود۔ تو پہلا سوال تو مسلمانوں کے اسی طبقے کی بابت غور طلب ہے جو اپنے ملک کی سرزمین سے اٹھ کر اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو کر یہاں کا گندم کھا کر پانی پی کراس سرزمین کو خیر باد کہہ دیتے ہیں ۔ یہاں مراد تارکین وطن کو مطعون کرنا نہیں ان مفاد پرست کالی بھیڑوں کی طرف اشارہ کرنا ہے جو آج بھی اپنے دین اور اپنے وطن کے وفادار نہیں۔ دنیا میں پچپن چھپن مسلم ممالک کے پاس دولت اور وسائل کی کوئی کمی نہیں۔ لیکن ان ملکوں میں امت واحدہ ہونے کا کوئی تصور نہیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ مسلمانان عالم اپنی کثرت و وسعت کے باوجود احساس تنہائی سے دوچار ہیں اور حالت اس درجہ قابل رحم ہے کہ کسی بڑے سانحے پر اگر مغرب یا ان کے لوگوں کی ذرا سی تائید و ہمدردی ہمیں مل جائے تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ نیوزی لینڈ کا تازہ سانحہ اس کی مثال ہے۔ آج مشرق و مغرب میں مذہبی عصبیت اور انتہا پسندی بام عروج کو چھو رہی ہے اور اس کا نشانہ بالعموم مسلمان ہی بن رہے ہیں۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ دنیا میں دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی بستے ہیں۔ یہودیوں اور عیسائیوں میں بھی تاریخی جھگڑے رہے ہیں۔ ہندوئوں اور بدھ مت کے ماننے والوں میں بھی اختلافات کچھ کم نہیں رہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ساری طاغوتی (خود ہماری اصطلاح میں) طاقتیں صرف مسلمانوں کے خلاف صف آراء نظر آتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں اس کا سبب تو مسلمانوں کا صدیوں کا عہد حکمرانی ہے جس میں انہوں نے غیر مسلموں یا ہندوئوں پر حکومت کی۔ بھارت کا خواب یہ ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کی اس آزاد سلطنت کا خاتمہ کر کے اس خطے میں اکھنڈ بھارت کے خواب کو پورا کیا جا سکے۔ مودی سرکار اور اس کی تائید کرنے والا ہندوئوں کا بڑا طبقہ اسی پالیسی کے تحت مسلمانوں کے وجود کا دشمن بنا ہوا ہے۔ رہا معاملہ مغرب کا تو وہاں مسلم اور اسلام دشمنی کے عقب میں صلیبی جنگیں ہیں جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین ہوئیں اور جس میں مسلمانوں نے بیت المقدس کو آزاد کرا کے عیسائیوں کو ہزیمت سے دوچار کیا۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اس خطے میں مسئلہ کشمیر اور کشمیری مسلمانوں کا جذبہ آزادی ہندوئوں کا سبب بن رہا ہے جبکہ مغرب میں مسئلہ فلسطین ہے جس نے یہودیوں اور ان کی سازشوں کا نشانہ مسلمانوں کو بنا رکھا ہے۔ علاوہ ازیں مغرب میں مسلم تارکین وطن کی خوش حالی، اسلام کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ اور مسلم تہذیب کے غلبے کا خوف وہ وجوہات ہیں جنہوں نے اسلاموفوبیا کو جنم دیا ہے۔ ان سارے معاملات کو اسلامی نقطہ نظر یا مسلم زاویہ نگاہ سے دیکھا اور پیش کیا جائے گا تو اس کا امکان بہت کم ہے کہ اس نفرت اور انتقام سے مسلمانوں کو محفوظ کیا جا سکے جو ہندو و یہود اور انتہا پسند عیسائیوں سے انہیں درپیش ہیں۔ ہمارے خیال میں دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ان سارے مظالم کو جو مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جا رہے ہیں، مسلم دانشور، مسلم میڈیا، مسلمانوں کی انجمنیں انسانی نقطہ نظر سے دیکھیں اور پیش کریں۔ ہمیں مذہبی انداز سے معاملات اور مسائل کو پیش کرنے کے بجائے اسے انسانوں کے قتل عام کا سانحہ بنا کر امن و آشتی کی ضرورت پر زور دینا چاہیے۔مغرب کا امن سند طبقہ اگر بے قصور مسلمانوں کے قتل عام پر دل گرفتہ اور افسردہ ہے تو اس لیے نہیں کہ انہیں مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی ان کے مذہب کی وجہ سے ہے بلکہ اس کے غم و غصے کا سبب یہ ہے کہ وہ اسے ایک انسانی المیے سے تعبیر کر رہے ہیں۔ قتل مسلمان ہو یا غیر مسلم، اصل بات یہ ہے کہ انسان کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ خود ہمارا دین بھی کسی بھی انسان کو خواہ وہ کسی مذہبی عقیدے کا ہو، اس کے قتل کو پوری انسانیت کی ہلاکت قرار دیتا ہے۔ لہٰذا اگر نیوزی لینڈ کا سانحہ ہو یا کشمیر میں بھارتی فوج کی دہشت گردی یا فلسطین میں فلسطینی مسلمانوں کی ہلاکت، ان سارے سانحات کو انسانی حوالے سے دیکھیں تو ہم غیر مسلموں کو اپنی بات آسانی سے سمجھا کرانہیں اپنا ہمنوا بنا سکتے ہیں۔ برسوں پرانے مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمیں ایک نیا بیانیہ دریافت کرنا ہو گا جبھی ہم نیوزی لینڈ جیسے سانحات سے اپنے ہم مذہبوں اور اپنے بھائیوں کو بچا سکتے ہیں۔