کون ہے جو اپنا بچپن بھول جائے۔ الحمدللہ میرا بیٹا ایک سال کا ہو گیا ہے۔ اس کی پیاری شرارتیں اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں سمجھانے اور بتانے کے لمحے جیسے جیسے دیکھتی ہوں، اپنا بچپن،عادتیں،شرارتیں سب یاد آنے لگتا ہے۔ یوں تو زندگی کے سبھی ادوار اہم ہوتے ہیں مگر بچپن کا دور سب سے زیادہ اہم اس لئے بھی ہوتا ہے کیونکہ شخصیت کی بنیادیں، مضبوط کردار اور ذہنی پختگی اسی دور کی مرہون منت ہے۔ خود سے جڑا ہر رشتہ پیارا ہو یہ ضروری نہیں لیکن ذہن پر تا دم مرگ نقش رہتا ہے۔ کون سے والدین ہوں گے، جنہوں نے اپنی اولاد کے بچپن سے لے کر اپنے مرتے دم تک اس کی کامیابی، فرمانبرداری، صحت سلامتی اور شیطان کے شر سے محفوظ رہنے کی دعا نہ کی ہو گی؟ مگر ترقی کی اس نئی شکل میں سب مسخ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ خون کا رنگ اب لال کہاں، سفید ہو گیا ہے۔ اپنی اولاد کو زندگی کی اس لمبی دوڑ کے لئے تیار کرتے کرتے انکی کردار سازی کرنا بھول جاتے ہیں۔ چونکہ اچھے برے کا فرق اور زندگی کے راستوں کا تعین اب ایک ڈیوائس کے ہاتھ میں ہے اس لیے لمبی ریس کے بس ایسے بیمار گھوڑے وجود میں آ رہے ہیں جن سے مستقبل کی خوفناک کی کئی مثالیں خبروں کی شکل میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔9 جنوری 2021 کو ایک ایسی خبر پڑھی جس نے جھنجھلا کر رکھ دیا۔ 14 سالہ بڑا بھائی ہی 8 سالہ چھوٹے بھائی کا قاتل بن بیٹھا۔ گھناونا فعل ( جس کے بارے سوچ آتے ہی ذہنی ارتعاش کے سوا کچھ حاصل نہیں ) بڑا بھائی اسی کا مرتکب ہوا۔ کچھ لوگ تو اس واقعے کو ایک نا سمجھی کا نام دے رہے ہیں۔ کیا ایک نا سمجھ دماغ اس گھناونے فعل کے بعد خود کو بچانے کے لیے جان بھی لے سکتا ہے؟ لڑکے نے پکڑے جانے پر نا صرف اعتراف جرم کیا بلکہ اسی گندے فعل سے گزار کر اپنے بھائی کے علاوہ ایک اور دوسرے بچے کے قتل کا اعتراف بھی کیا۔ایسی بہت سی مثالیں اور خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں جو ذہنی پستی کے سب سے نچلے درجے کی حد واضح کرتی ہیں۔ معاشرہ کس حد تک بیمار ہے، عکاسی کرتی ہیں۔ تفصیلات اس سے کہیں زیادہ خوفناک ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں روزانہ زیادتی کے اوسطا 11 واقعے پیش آتے ہیں جن میں کم سن بچے ، بچیاں شامل ہیں۔ ایک اندازہ تو یہ بھی ہے زیادہ تعداد کم سن بچوں کی ہی ہے۔ جو درندوں کی ہوس کا نشانہ بنتے ہیں۔ چند سادہ پہلو اس کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں کہ لڑکپن میں کوئی بچہ ایسے فعل کا مرتکب کیوں ہوتا ہے؟ (1) اگر بچہ خود ذہنی، جسمانی یا جزباتی لحاظ سے خود زیادتی کا نشانہ بنا ہو۔ مگر افسوس اس بات پر یا تو معاشرے میں survivalکے لئے والدین اپنی زبان بند رکھتے ہیں یا پھر بچے پر اعتبار کے لئے کوئی تیار ہی نہیں ہوتا۔ جو بچہ اپنے اہل خانہ کے سامنے ہی بے اعتبار ہو جائے، اس کی آنکھوں میں بے بسی کی تکلیف سے ابھرنے والی نمی کو میں نے بہت قریب سے محسوس کیا ہے۔ دوسرا اہم پہلو، والدین اور دیگر اہل خانہ بچے سے وقتی طور پر جان چھڑانے کے لئے اس content پر نظر ہی نہیں رکھتے کہ وہ کیا اور کیوں دیکھ رہا ہے۔؟ رہی سہی کسر ڈراموں میں دکھایا جانے والا مواد پوری کر دیتا ہے جو بگاڑ کی بڑی وجہ ہے۔ مقدس رشتوں کو گندگی میں لپٹا دکھایا جاتا ہے۔ بجائے اس کے کہ اصلاح کے پہلو کو ساتھ منسوب کیا جائے برائی نہ صرف پنپتی بلکہ پھلتی پھولتی دکھائی جاتی ہے۔کبھی جوائنٹ فیملی سسٹم لوگوں کی ترجیحات میں شامل رہتے تھے مگر آج بہت سے گھرانے اس سے دوری اس لئے بھی کر رہے ہیں کیونکہ جس تحفظ کو خاندان ساتھ میں محسوس کرتے تھے اب وہ عدم تحفظ میں بدل گیا ہے۔ نجی ٹی وی پر پروڈیوسر مومنہ درید کا ڈرامہ "اڈاری" ہو یا پاکستانی فلم پروڈیوسر شعیب منصور کی فلم "بول" ہو دونوں نے تلخ حقیقتوں کے بہت سے پردوں کو چاک کیا۔ مگر سچ کا سامنا کرنے کو ہم تیار کہاں؟ آنکھیں کھولنے کی بجائے جس نے دیکھا تنقید کے تیر برساے۔ معروف ناول نگار عمیرا احمد کی مشہور تصنیف " عکس" پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس سمیت کئی اور مثالیں پیش ہو سکتی ہیں جس میں کسی کا کم سن ہونا یا جنس کا معترض ہونا جرم نہیں۔ تمام صورتوں میں مجرم صرف معاشرہ ہے، جس میں بڑے فخر سے ہم رہتے ہیں۔کبھی نا صرف بیٹیاں بلکہ بیٹے بھی سانجھے ہوتے تھے۔ چھوٹے بچوں کی حفاظت اور ان پر نظر رکھنے کی ذمہ داری نا صرف والدین بلکہ اہل محلہ پر بھی عائد تھی۔ نا صرف پورا محلہ بلکہ آس پاس کے لوگ بھی کڑی نظر رکھتے تھے اور کسی اجنبی کے بارہا گزر پر چوکنے ہو جاتے تھے۔لاپتہ ہونے کی صورت میں پریشانی ہر گھر میں ہوتی تھی اور محلے کے جوان اور بوڑھے افراد بچوں کو تلاش کرنے نکل کھڑے ہوتے تھے۔ یہ بھی معاشرے کی ہی ایک خوبصورت شکل تھی جو اب کہیں گمشدہ ہے۔ جسے ڈھونڈنے کی فرصت کسی کے پاس کہاں؟ ہم ابھی تک اسی بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ آیا بچوں کو جسمانی تعلیم دی جائے یا نہیں؟ جسمانی تعلیم کو نصاب میں شامل کیا جائے یا نہیں؟ ایسی معلومات معصوم ذہنوں پر کیا اثرات مرتب کریں گی۔ کیا ایسی تعلیم سے بچے ذہنی مسائل کا شکار تو نہ ہو جائیں گے؟ بگاڑ کی پہلی وجہ اکثر والدین ہیں جن کے نزدیک ہر پہلو سے آشنائی صرف اسکول اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے۔۔ دوسری وجہ اکثر اسکول اور اساتذہ ہیں جو اپنی چند گھنٹوں کی ڈیوٹی کے بعد لا تعلق ہو جاتے ہیں۔ اور تیسری وجہ ہمارا وہ بیمار معاشرہ ہے جس کی برائیوں کو جانتے ہوئے بچوں کو لا وارثوں کی طرح چھوڑ دیتے ہیں۔ ہماری مثال اس مخبوط الحواس شخص کی مانند ہے جو یہ بیمار گھوڑوں کی مدد سے دنیا فتح کرنے کے خواب دیکھتا ہے۔