یہ رواں ہفتے کے آغاز کی سویر ہے۔ دیواروں سے لپٹی بیلوں پر سفید پھولوں کی بہار ہے۔کیاریوں میں کھڑے ننھے پودوں نے پھولوں کے تاج پہن لئے ہیں۔ بہار کی ہوا چلتی ہے تو یہ پھول کھلکھلاتے ہیں، لہلہاتے ہیں۔ وہ پھول جو فقط چند روزہ زندگی لے کر اس خوشبو اور رنگوں کے عالم میں مہمان ہوئے ہیں۔ سفید پھولوں والی گھنی بیلوں میں چڑیاں چہچہاتی ہیں۔ فضا میں کوے یہاں سے وہاں اڑے جاتے ہیں اور کبھی ہلکی سی کائیں کر دیتے ہیں۔ بہار کی ہوا کا اعجاز ہے کہ یہ کائیں بھی کانوں کو بھلی لگتی ہے۔پڑوس کی مسجد کے آنگن میں جو پیپل کا پیڑ کھڑا ہے، اس کی مکین کوئل البتہ خاموش ہے۔ ایک نئی ابتدا ہے۔ نیا ہفتہ آغاز پکڑ رہا ہے۔جاڑا چارج چھوڑ کے جاچکا ، اس کی جگہ بہار چارج لینے کو پہنچ چکی ہے۔ طبیعت پر اک سرور کی سی کیفیت طاری ہے کہ یکایک خیال کا کوندا لپکتا ہے اور اس سرور کو اندیشوں سے بوجھل کر دیتا ہے۔ میں سوچتا ہوں یہ بہار تو بس چند روزہ ہے، گزر جائے گی۔ اس کے بعد آگے ایک طویل موسم ہے گرمی کا، سات آٹھ ماہ کی گرمی۔ لو، تپش، حبس، حدت کے رنگ بدلتی مگر مستقل ٹھہری ہوئی گرمی۔ پسینے کے بو میں لپٹی مزاجوں کو بیزار کرتی ہوئی گرمی۔بجلی کے بلوں کو ستاروں سے آگے تک پہنچا دینے والی گرمی۔یہ خیال آتے ہی طبیعت مکدر ہوگئی ہے۔گرد و پیش پر اتری بہار کا حسن پتہ نہیں کہاں گیا ہے اور سویرے سویرے بے کیفی طاری ہوگئی۔ تاہم خیال کا اعجاز یہ ہے کہ مسلسل رواں رہا کرتا ہے۔ چوبیسیوں گھنٹے میں کسی بھی وقت دماغ کا چوراہا خیال کی ٹریفک سے خالی نہیں رہتا۔پتہ نہیں مجھ پر کب تک آئندہ کے خوف سے یہ یبوست طاری رہتی کہ اک ذرا تیز ہوا کا جھونکا آیا جس میں ہلکی خنکی تھی۔ ٹھنڈ کی ایک لہر جسم کو تھرتھراتی ہوئی گزر گئی۔کیاری کے نازک پودے لہلہائے، پھولوں نے تبسم بکھیرا۔ ایک چڑیا نے کیاری میں پڑی پانی کی کنالی میں ڈبکی لگا کر پروں کو جھٹک کر خشک کیا اور پھوار اڑائی۔ پڑوس سے کسی مرغے نے بانگ دی اور ساتھ ہی میری سوچ کے در پر دستک ہوئی۔میں لمحہ موجود میں لوٹ آیا۔ کیسے فضول لوگ ہیں ہم ویسے۔ آنے والے دنوں کے اندیشوں میں گھرے رہتے ہیں اورحال کو بھی ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ یا پھر ماضی کو یاد کر کے آہیں بھرا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ہی وہ زمانے جو اب کبھی ہماری زندگی میں نہ آئیں گے، ان کے خیال میں اپنے حال سے بھی بیزار رہا کرتے ہیں۔نروان کی تلاش میں راج پاٹ کو لات مار کر جنگلوں میں بھٹکنے والے بدھ کا کہنا ہے کہ ماضی میں دھیان نہ لگاؤ کہ وہ جیسا بھی تھا بیت چکا۔ دھیان کو مستقبل پر بھی مرکوز نہ رکھو کہ وہاں اندیشے ہیں اور امکانات۔دھیان کو موجود لمحے پر لگاؤ کہ یہی زندگی ہے اور اسی کا سپھل ہونا ہی اصل کامیابی ہے۔ میرے پاس پچھلے دنوں ایک جاننے والے تشریف لائے، ان کے ساتھ ایک اور صاحب بھی تھے۔ دونوں ہی سوٹ بوٹ میں ملبوس۔ میرے جاننے والے صاحب کے ہاتھ میں بریف کیس تھا۔انہوں نے کہا یہ میرے باس ہیں اور میں نے فلاں انشورنس کمپنی جائن کی ہوئی ہے۔پھر دو چار ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد انہوں نے انشورنس کروانے کے فضائل و مناقب بیان کرنے شروع کئے۔مروت آڑے تھی‘ سنتا رہا۔انہیں بتایا کہ آگے ہی میں ایک پالیسی لے چکا ہوں جس کا سالانہ پریمئیم باقاعدگی سے ادا کر رہا ہوں۔ اب باس نے کاغذ قلم نکال لیا اور بچت کے فوائد پر لیکچر دینے لگے۔ عرض کیا تنخواہ دار کے لئے ایک اور پریمئیم نکالنامشکل ہوگا۔ بولے ’’مشکل ہے ناممکن تو نہیں۔ انشورنس سے لازمی بچت ممکن ہو جاتی ہے۔ آپ کو پیٹ کاٹ کے بھی بچت کرنی پڑے تو کیجئے‘‘۔ گذارش کی کہ حضور مستقبل جو غیر یقینی ہے، اس کے لئے میں اپنا لمحہ موجود خراب کرلوں، یہ بھلا کیسی منطق ہے۔ ان کی مہربانی کہ مجھے خلاصی مل گئی۔ آپ کسی تقریب میں چلے جائیں، شادی ہو یا موسیقی کی کوئی محفل، ہر شخص موبائل نکال کر ویڈیو، تصویریں بنانے میں محو ہوتا ہے۔ یہ سب اہتمام آئندہ کے لئے ہوتا ہے کہ فرصت میں دیکھیں گے۔ سچی بات ہے وہ فرصت کبھی نہیں آتی، تاہم جس لمحے وہ تقریب عروج پر تھی، اس لمحے کا لطف ہم نے ویڈیو میں مصروف ہو کر ضرور کھودیا۔دولہا دلہن تک ویڈیوز اور فوٹوگرافی میں اتنے منہمک ہوجاتے ہیں کہ اپنی زندگی کے قیمتی ترین لمحات کو انجوائے نہیں کر پاتے۔ حال سے بیزار ہونے کا اک ذرا وسیع پہلو یہ بھی ہے کہ ہماری زندگیاں گزر جاتی ہیں اپنے حال کو کوستے کوستے۔ بنیادی طور پر ماضی پرست لوگ ہیں ہم۔ ہمارے بزرگوں کو تو خیر ہر وقت ہی ’’آج‘‘سے گلہ رہتا ہے۔ان کے خیال میں علم و دانش، فن و حرفت، اخلاق و مروت، حیا و ادب سب کچھ زمانے سے اُٹھ چکا۔ وہ اپنا زمانہ یاد کرتے اور اس کے فراق میں آہیں بھرا کرتے ہیں۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ جب ان کا زمانہ چل رہاتھا تو ان کے بزرگ اپنے وقت کو یاد کر کے شکایات کے وہی دفتر کھولے رکھا کرتے تھے جو وہ آج کھولے بیٹھے ہیں۔ حال ہمیشہ برا ہی رہا ہے ہمارے بزرگوں کی نظر میں۔ حالانکہ اگر ایسا ہوتا تو انسان ایسی ہوش ربا ترقی نہ کر پاتا۔ آنے والے لوگوں نے علم کو ہمیشہ آگے بڑھایا۔ اگر آنے والی نسلیں نااہل ہوتیں تو ایسا بھلا کیونکر ہو پاتا۔ میں نے سوچا مجھ سے تو یہ پھول اچھا ہے جو فقط دو تین دن کی زندگی لے کر آیا ہے مگر بہار کی ہوا کا، رْت کی رنگینی کا بھرپور لطف اٹھا رہا ہے۔ یہ چڑیا جسے کچھ پتہ نہیں کب کسی بلی یا چیل، باز کے ہاتھ چڑھ جائے پانی میں ڈبکی لگا کر لمحہ موجود کا لطف لے رہی ہے۔ یکایک نسیم صبح مزید رومان پرور ہوگئی اور بہار کے رنگ ان خیالات کے فلٹر سے جیسے تھری ڈی ایفیکٹ کے حامل ہوگئے۔لمحہ موجود تیرا سواگت ہے۔