جنوں کی تیز بارش میں، اسے پانے کی خواہش میں میں دل کی سطح پر اکثر کھلی آنکھوں کو رکھتا تھا بڑھا دیتی ہیں عمروں کو نہ جانے یہ کتابیں کیوں میں چھوٹا تھا مگر سر پر کئی صدیوں کا سایہ تھا شاید کبھی کبھی یہ کتابیں بھی ناکافی ہوتی ہیں۔ جیسے شمس تبریزؒ نے مولانا رومؒ کی کتابیں اٹھا کر حوض میں ڈال دی تھیں اور پھر مولانا کے استعجاب پر ہاتھ بڑھا کر سوکھی کتابیں نکال لیں تھیں۔ پردہ غیب میں کوئی بات ضرور ہے وہی کہ نغمہ تو پردہ ہے ساز کا۔ کتاب مگر ہمارے لئے ضروری تھی اور مولانا روم کی مثنوی دیکھیں انسان ششدر رہ جاتا ہے کہ ہر صفحہ پر بکھرے ہوئے الفاظ و معنی کے ہیرے جواہرات آنکھوں کو خیرہ کر دیتے ہیں۔ بڑی طاقت ہے لفظوں میں یہ دشنہ و خنجر بھی تو بن جاتے ہیں۔ میں تمہید کو لمبا نہیں کرنا چاہتا۔ بتانا مقصود یہ تھا کہ لفظوں کو برتنے کا سلیقہ اور قرینہ اپنی جگہ غالب کی طرح کوئی دعویٰ کر دے کہ گنجینہ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے۔ جو لفظ کہ غالب میرے اشعار میں آوے۔ اور بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔ بات میں کرنا چاہتا تھا طارق بلوچ صحرائی کے افسانوں’’لمس کی چپ‘‘ پر مگر مجھے اس کی تمہید باندھنا پڑ گئی۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ افسانے تو ہرگز نہیں حقیقتیں ہیں۔ ہاں آپ یہ کہہ لیں کہ یہ ایسی حقیقت ہے جو افسانہ لگتی ہے۔ سادہ الفاظ میں جھوٹ کی حد تک سچی بات ان تحریوں کو پڑھ کر پہلا خیال ایک عمر رسیدہ صوفی کا آتا ہے۔ جو کسی بوڑھے برگد سے ٹیک لگائے اپنا دھیان گیان بیان کر رہا ہے۔ اس میں ایک خوبی یہ ہے کہ اسی طرح کا وزڈم یعنی دانش ہے جو شیخ سعدی نے گھوم پھر حاصل کی اور پھر حکایات کی صورت بیان کر دیا مگر ادھر اپنے تجربات اقوال کی صورت تحریروں میں پرو دیے گئے ہیں۔ میں نے انسان سے رابطہ رکھا میں نے سیکھا نہیں نصابوں سے وہ چاند میں بیٹھی بڑھیا سے بھی باتیں کرتا ہے۔ دراصل کوئی روشنی اس کے اندر ہے۔ بڑھیا کہتی ہے پہلے لوگ مر جاتے تھے روحیں بھٹکتی رہتی تھیں اور اب روحیں مر جاتی ہیں اور لوگ بھٹکتے رہتے ہیں۔پھر وہ گویا ہوتی ہے دیکھو دنیا دل سے نکال دو۔ دنیا ایک مردار ہے۔ دل میں مردار ہو گا۔ تو خوشبو کہاں سے آئے گی۔ اچانک میرے ذہن میں آیا کہ مجاہدے والے تو دنیا کو دین بنانے کی بات بھی کرتے ہیں کہ وہ تارک الدنیا کو غلط سمجھتے ہیں۔ وہ گناہگار سے نہیں گناہ سے نفرت کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے طارق بلوچ صحرائی کا سیاق اور سباق اور ہو کہ یہ پہلی منزل یا پہلا پڑائو ہو۔ وہ صرف تعلیم یافتہ ہی نہیں تربیت یافتہ بھی ہے کہ اس نشست و برخاست اشفاق احمد اور بانو آپا کے ساتھ رہی۔ وہ بانو آپا کو ماں جی کہتا ہے۔ اس نے ان کے بارے میں بہت اچھا افسانہ بھی لکھا ہے جو پڑھنے کے لائق ہے جس میں سلسلہ اشفاقیہ سے جڑے نظر آتے ہیں۔ کہیں بھی وہ اکیلے نظر نہیں آتے بلکہ کسی اہل نظر کی انگلی پکڑتے ہیں اور فیض یاب ہوتے ہیں۔ بانو آپا کے بعد وہ عرفان الحق کی انگلی پکڑے ہوئے ہیں۔ یہ کسی بھی شخص کا بہت بڑا وصف ہے کہ وہ سیکھنے کے عمل میں اور عرفان کی منزلیں مارتا ہوا علم جذب کر رہا ہے۔ جب فضا بنتی ہے اور مقام ملتاہے تو پھر کچھ حصہ وہ بھی ملتا ہے جسے علم لدنی کہتے ہیں۔ یہ یکسوئی کی بات ہے جسے قرب الٰہی کہا جاتا ہے۔ ایک نوجوان کا شعر یاد آ گیا: کبھی کبھی تو وہ اتنی رسائی دیتا ہے وہ سوچتا ہے تو مجھ کو سنائی دیتا ہے اس کی تحریروں میں ٹوٹتی روایات‘مسخ ہوتی ہوئی تعداد اور لخت لخت ہوتے ہوئے معاشرے کا نوحہ ہے ۔طارق کا اپنا ایک اسلوب ہے جو اس نے بڑوں کی صحبت سے یوں کشید کیا ہے کہ وہ اس کے خمیر کا حصہ بن گیا ہے۔دوسرے لفظوں میں اس نے علم تجربہ اور مشاہد اپنے اندر جذب کیا ہے اور پھر اس نے کسی کہنہ مشق صوفی کی طرح اپنا ماضی الضمیر بیان کیا ہے‘کبھی دادی کی زبان میں اور کبھی دادا کے الفاظ میں۔ اس طرح اس نے رفتگان کی دانش سے رابطے کو ٹوٹنے نہیں دیا۔ نتیجہ خیز بات یہ کہ اس کے سامنے ایک عظیم مقصد ہے کہ آدمی کو انسان بنایا جائے۔ اگر چہ بقول حالی اس میں محنت زیادہ پڑتی ہے۔ وہ ہمارے عہد کا ایک کارآمد تخلیق کار ہے۔ شاید میں آپ کو بات یوں سمجھا سکوں: کس جہاں کی فصل بیچی کس جہاں کا زر لیا ہم نے دنیا کی دکان سے کاسہ سر بھر لیا لوگ فہم و آگہی میں دور تک جاتے مگر اے جمال یار تونے راستے میں دھر لیا اسے کسی کی دعا ہے وہ راستے میں کہیں نہیں رکا۔پُرمعنی جملے لکھتے چلے جانے طارق بلوچ ہی کام ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک تحریر، لیکن ان تمام کے درمیان بھی ایک طرح کا ربط ہے، وہ ہے خیر کی امنگ اور اچھائی کی نیت۔ ایک جگہ جب وہ لکھتا ہے کہ جلتاہوا کشمیر اہل زمین کے لئے بددعا ہے۔مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ کرونا کی وبا شاید اسی پیشین گوئی کا نتیجہ ہے۔ اس نے معصوم زینب کا بھی ذکر کیا ہے اور پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا بھی۔ وہ عالمی چیرہ دستیوں اور ان کے بے حس رویہ سے مکمل آگاہ مگر وہ اپنی یعنی امت کی کوتاہیوں پر بھی طنز کے تیر چلاتا ہے بلکہ ماتم زیادہ کرتا ہے۔ اکثر جملے اقوال زریں کے زمرہ میں آتے ہیں جنہیں آف کوٹیشنز کہہ سکتے ہیں یہ آسان نہیں ہوتا۔ یہی دریا کو کوزے میں بند رکھناہے۔ اس تحریر کو پڑھنے کے لئے دل اور دماغ دونوں خرچ ہوتے ہیں۔ دادی بولی بیٹا تیری ماں کے کہنے کا مطلب ہے ہم عمر بھر اپنی ہی ذات کے حصار میں قید رہتے ہیں اور اپنی زیست کی سائیکل بھی اسی دائرے کے گرد چلاتے ہیں۔ دائرے میں سائیکل چلانے والا تو مداری ہوتا ہے۔ پھر وہ آہستہ سے خود کلامی کے انداز میں بولی جو سیدھی سائیکل چلاتا ہے اسے ’’الف‘‘ کی سنگت نصیب ہوتی ہے اور دیکھنے والے اسے ’’شاہ مدار‘‘کہتے ہیں اس کو پاکستان سے محبت ہے۔لکھتا ہے’’پاکستان کا آخری باب کوئی نہیں لکھ سکتا کیونکہ تاریخ کا آخری باب کوئی نہیں لکھ سکتا‘‘ایک مختصر کالم میں مزید نہیں لکھا جا سکتا۔ ان کی ماں جی کے حوالے ایک بات ضرور لکھوں گا ایک جگہ ہم اکٹھے تھے کہنے لگیں’’آپ نے یہ شعر کمال کہا ہے‘‘غالباً یہی مفہوم تھا۔ میں خوشی سے باغ باغ ہو گیا۔شعر تھا: وقت کشتی ہے آنکھ پانی ہے دل پہ لکھا ہے بادباں ہونا