لاہور سے اڑان بھرنے والا بدقسمت طیارہ لینڈنگ گیئر میں خرابی اور بعدازاں انجن فیل ہونے کے باعث کراچی ایئر پورٹ کے قریب رہائشی علاقوں میں گر گیا۔ طیارے میں عملے سمیت 99مسافر سوار تھے۔ دو مسافر معجزانہ طور پر محفوظ رہے جنہیں ابتدائی طبی امداد کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔ عیدالفطر سے چند روز قبل طیارے کے حادثہ نے پوری قوم کو سوگوار کر دیا ہے۔ قومی ایئر لائن کے سربراہ ایئر مارشل (ر) ارشد ملک کا کہنا ہے کہ طیارہ زیادہ پرانا نہیں تھا اور پرواز کے لئے موزوں تھا۔ انہوں نے حادثے کی مکمل تحقیقات کرانے کا اعلان کیا۔ سول ایوی ایشن حکام نے ابتدائی رپورٹ میں لینڈنگ گیئر جام ہونے کے بعد طیارے سے پرندوں کے ٹکرانے کو بھی بیان کیا ہے۔ المناک حادثے کے بعد وزیر اعظم نے تحقیقات کا حکم جاری کیا جبکہ صدر‘ آرمی چیف اور قومی و بین الاقوامی رہنمائوں نے سوگوار خاندانوں اور پاکستانی قوم سے اظہار تعزیت کیا ہے۔ پاکستان میں طیارے گرنے کے واقعات باقی ممالک سے تشویشناک حد تک زیادہ ہو چکے ہیں۔ رواں برس کے دوران یہ تیسرا فضائی حادثہ ہے۔ پاکستان کی 72سالہ تاریخ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اب تک پاکستان کی فضائی حدود میں 83حادثے ہو چکے ہیں۔ جہاں تک پی آئی اے کی بات ہے تو حالیہ حادثے کو شامل کر کے 21حادثات پیش آئے ہیں۔ پی آئی اے کے طیارے آخر کیوں ایک تسلسل کے ساتھ حادثات کا شکار ہو رہے ہیں۔ خطے کے دیگر ممالک بھارت‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش میں مسافر بردار جہازوں کے حادثات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ادارہ انتظامی ہی نہیں تکنیکی لحاظ سے بھی زوال کا شکار ہو چکا ہے۔ بدقسمت طیارہ کراچی میں ماڈل کالونی کے علاقے میں گرا۔ یہ علاقہ ایئر پورٹ کے بالکل قریب ہے۔ ایئر پورٹ سکیورٹی کے بین الاقوامی کوڈ کی یہ خلاف ورزی صرف کراچی میں دکھائی نہیں دیتی بلکہ اسلام آباد‘ لاہور اور دوسرے بڑے شہروں میں بھی نئی نئی ہائوسنگ سوسائٹیاں ہوائی اڈوں کے قریب بن رہی ہیں۔ ایسی سوسائٹیاں اپنے مارکیٹنگ ہتھکنڈوں میں اس بات کو نمایاں کرتی ہیں کہ وہ ایئر پورٹ سے اتنے منٹ کی دوری پر ہیں۔ اس مسلسل عمل نے عام لوگوں میں کشش پیدا کی کہ وہ ایئر پورٹ کے قریب گھر بنائیں۔ دیگر ممالک کے ایئر پورٹس گنجان آبادی سے خاصے فاصلے پر بنائے جاتے ہیں۔ ان ایئر پورٹس کے قریب آبادی کی اجازت نہیں دی جاتی۔ پاکستان میں چونکہ انفرادی اور ادارہ جاتی سطح پر قانون شکنی کو برائی نہیں سمجھا جاتا اس لئے کوئی ادارہ یا حکومت ہوائی اڈوں کے پاس آبادی کو روکنے کے لئے کبھی سرگرم نہیں ہوئی۔ تازہ حادثہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم اپنی حفاظت سے غافل ہو رہے ہیں۔ ہوائی اڈوں کے اردگرد صفائی کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ اہتمام کیا جاتا ہے کہ کھلے میں کھانے کی کوئی ایسی چیز نہ پھینکی جائے جس پر پرندے آتے ہوں۔ اسی طرح پرندوں کو نشانہ بنانے کے لئے ماہر نشانہ باز چوکس رہتے ہیں۔ چیل اور کوے جیسے پرندے جب کسی جہاز سے ٹکراتے ہیں تو ان کا نرم سا وجود ایک تباہ کن ہتھیار بن جاتا ہے جس سے جہاز کی سکرین اور کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ سکتے ہیں‘ انجن میں خرابی ہو سکتی ہے اور پروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سول ایوی ایشن کی رپورٹ میں پرندوں کے ٹکرانے کی بات درست ہے تو اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ پرندے جہاز سے کیوں ٹکرائے۔ اگر پرندے ایئر پورٹس کی حدود کے اردگرد موجود تھے تو نشانہ باز سٹاف کیا کر رہا تھا۔ طیارے کا حادثہ قیمتی جانوں کے چلے جانے کا باعث بنا ہے۔ کئی خاندان تباہ ہو گئے‘ بڑا مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ جانی و مالی نقصان بار بار نہیں اٹھایا جا سکتا۔ ہوا بازی کا محکمہ موجود ہے۔ پاکستانی عملہ اندرون و بیرون ملک سے تکنیکی معاملات کی تربیت حاصل کرتا ہے۔ حکومت معاشی بحران کے باوجود پی آئی اے کی ضروریات پوری کرتی ہے تاکہ ملازمین کو بے روزگاری کا دکھ نہ اٹھانا پڑے۔ فی جہاز کے لحاظ سے پی آئی اے نے باقی فضائی کمپنیوں کی نسبت زیادہ لوگ بھرتی کر رکھے ہیں۔ پاکستان کے شہری آج بھی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ہوائی سفر پی آئی اے سے کریں۔ اس سب کچھ کے باوجود اگر پی آئی اے کے جہازوں سے منشیات نکلنے‘پروازیں لیٹ ہونے‘ عملے کی مسافروں سے بدسلوکی‘ آئے روز مسافروں کا سامان گم ہونے اور حادثات کی روک تھام کے لئے اقدامات نہیں کئے جاتے تو اس کا مطلب یہی ہو گا کہ ادارہ ناقابل اصلاح حد تک نااہلی کا شکار ہو چکا ہے۔ ایئر مارشل (ر) ارشد ملک نے برسوں بعد پی آئی اے کے معاملات میں بہتری کی موثر کوششیں کی ہیں۔ ان کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کے لئے پہلے ان کی ملازمت اور اہلیت کو قانونی جنگ کی شکل دی گئی اور جب عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کو قومی مفاد کے مطابق طے کر دیا تو دیگر نوعیت کے مسائل شروع ہو گئے۔ جہاز اگر مکمل فٹ تھا تو پھر متعلقہ عملے سے پوچھا جانا چاہیے کہ لینڈنگ گیئر اور انجن بند ہونے کی خرابیاں کیوں اور کیسے پیدا ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ سے حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کی منزلیں آسان ہونے کی دعا کے ساتھ ہم سوگوار خاندانوں سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کو حادثے کی رپورٹ پبلک کرنے کا مشورہ دیں گے تاکہ ایسے حادثات کی مستقبل میں روک تھام کے لئے انتظامات کو یقینی بنایا جا سکے۔