چند روز قبل میری نظر سے ملک کے مشہور ادیب اور ڈرامہ نویس اصغر ندیم سید کا ایک نوٹ نکلا۔ یہ نوٹ انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے لکھا۔ یہ نوٹ پڑھنے کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ اصغر ندیم سید صاحب ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک استاد بھی تھے۔ انہوں نے اپنی ملازمت کے دوران اپنے تلخ تجربات کا تذکرہ کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ کس طرح حاسد اساتذہ نے ان کے خلاف سازشوں کے جال بنے؟ کس طرح یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی خوشامد کرنے والے ٹیچرز کو ان کے مقابلے میں مراعات ملتی رہیں۔ اس کے بعد انہوں نے لکھا کہ وہ دوران ملازمت جو کچھ پڑھانا چاہتے تھے انہیں پڑھانے نہیں دیا گیا۔ انہوںنے لکھا کہ وہ وہ ملک کے ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کے بارے میں پڑھانا چاہتے تھے۔اس سلسلے میں سعادت حسن منٹوسے لیکر فیض احمد فیض اور ساحر لدھیانوی سے لیکر شیخ ایاز تک وہ سب کچھ پڑھانا چاہتے تھے جن کو پڑھنے کے بعد بقول ان کے ایسے طلباء پیدا ہوتے جو انسان دوست اور اصول پرست ہوتے۔ اس ضمن میں انہوں نے ضیاء الحق جیسے حکمرانوں کے طرز حکومت پر تنقید کی ہے اور انہوں نے ملک کے انقلابی کرداروں کوسراہا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح ان پر تشدد کیا گیا اور کس طرح ان کے ناخن کھینچ کر نکالے گئے۔ انہوں نے حسرت کے ساتھ لکھا ہے کہ کاش! وہ اپنے طلباء کو جمالیات اور جمالیات کے فلسفے پر پڑھا پاتے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ہمارے ملک اور اداروں میں ایک طرح کا سسٹم ہے جس میں انسان قید ہے۔ اصغر ندیم سید مجھے بہت عزیز رہے ہیں۔ ان کے ڈرامے ہم نے بڑے شوق سے دیکھے ہیں۔ ان کا ریٹائرمنٹ کے بعد تحریر کردہ نوٹ پڑھ کر مجھے شیخ ایاز کے وہ الفاظ یاد آئے جو انہوں نے اپنی سوانح حیات میں لکھے ہیں۔ شیخ ایاز اصل میں شاہ لطیف کے بعد سندھ کے بہت بڑے شاعر ہیں مگر وہ پیشے کے حوالے سے ایک معروف وکیل بھی رہے اور چند سال انہوں نے سندھ یونیورسٹی میں بطور وائس چانسلر بھی خدمات انجام دیں تھیں۔ انہوں نے اپنی یونیورسٹی کی ملازمت کے بارے میں بہت ساری باتوں کے ساتھ ایک بات یہ بھی لکھی ہے کہ جب وہ اپنی مدت ملازمت مکمل کرچکے اور حکومت نے ان کے ملازمت میں توسیع نہیں کی تو انہوں نے دھرتی پر پاؤں مارکر کہا تھا کہ ’’اچھا ہوا کہ میری زنجیریں ٹوٹ گئیں‘‘ ملازمت کیسی بھی ہو وہ ایک آزاد ذہن کے انسان کے لیے قید ہوتی ہے۔ کوئی بھی آزاد پرندہ پنجرے سے محبت نہیں کر سکتا۔ مجھے محسوس ہوا کہ اصغر ندیم سید اپنی ریٹائرمنٹ کے سلسلے میں مطمئن نہیں ہیں۔ اور وہ خوشی جو ایک ادیب کو سرکاری مصروفیات سے فارغ ہونے کے بعد ملتی ہے وہ خوشی ان کے نوٹ کو پڑھتے ہوئے میں نے کہیں بھی نوٹ نہیں کی۔ حالانکہ ہمارے ملک میں ریٹائر ہونے کے بعد یونیورسٹی کے پروفیسر کو اتنی پنشن ملتی ہے جس سے وہ خوش رہ سکے۔ اصغر ندیم سید توصحتمند شخص ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو ریٹائر ہونے کے بعد وہ اپنا پورا وقت لکھنے اور پڑھنے کو دے سکتے ہیں۔ اصغر ندیم سید جیسے سوچنے اور سمجھنے والے افراد اچھی طرح جانتے ہیں کہ صرف وہ نہیں بلکہ اس ملک میں کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والا انسان آزادی سے وہ کچھ نہیں کر سکتا جو کچھ وہ کرنا چاہتا ہے۔ اس میں اصل قصور کسی ایک شخص یا ایک ادارے کا نہیں بلکہ پورے سسٹم کا ہے۔ سسٹم ایک بہت بڑی جیل کا نام ہے اور ہم سب اس میں قید ہیں۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں اصغر ندیم سید کے ساتھ بھٹو صاحب کا لکھا ہوا ایک اخباری مضمون شیئر کروں جس میں بھٹو صاحب نے لکھا ہے کہ ایک قلمکار حالات کا قیدی ہوتا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ اس قید کی چابی بھی اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہم وہ کچھ نہیں کر پاتے جو کچھ ہم کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہمیں ریٹائرمنٹ کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور اس کے بعد زندگی اس طرح گزارنی چاہیے، جس کے سلسلے میں ہم ہمیشہ حسرت محسوس کرتے رہے ہیں۔ اصغر ندیم صاحب کو افسوس کس بات کا ہے؟ انہیں تو شیخ ایاز کی طرح خوش ہونا چاہیے کہ وہ اب مکمل آزادی کے ساتھ اپنا تخلیقی کام کر پائیں گے۔ اب ان کے اوپر کسی قسم کی پابندی نہیں۔ اب وہ جو چاہیں لکھ سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کے ایک لکھنے والے شخص کے لیے ریٹائرمنٹ آزادی کی بہت ہی معمولی قیمت ہے۔ وہ یہ قیمت ادا کرنے کے بعد ایک نیا جنم لے سکتے ہیں ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انسان زندگی کی دوسری اننگ کھیلتا ہے۔ اس کھیل میں انسان کو جس آزادی اور تجربے کی نعمت عطا ہوتی ہے اس کا موازنہ ہم کسی اور چیز کے ساتھ ہرگز نہیں کرسکتے۔آزادی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ آزادی انمول ہوتی ہے۔ اور یہ ساری باتیں اصغر ندیم سید ہم سے بہتر طور پر جانتے ہیں۔یہ سب کچھ جاننے کے بعد ان کی تحریر میں اداسی اور درد کی کیفیت کیوں ہے؟ شاید اس کا سبب یہ ہے کہ ہم جس قید کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں اس قید کے ساتھ زندگی کا بہت بڑا عرصہ گزارنے کے بعد ہم اس قید کے ایک طرح سے عادی ہوجاتے ہیں۔ بالکل اس طرح جس طرح ایک شاعر نے لکھا ہے: ’’اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے اب رہائی ملی بھی تو مر جائیں گے‘‘ انسان اپنی عادات کا اسیر ہوتا ہے۔ انسان اپنے بنائے ہوئے قید میں احتجاج کرنے کے باوجود خوش رہتا ہے۔ انسان کو اصل آزادی اپنی ذات سے حاصل کرنی چاہیے۔ہمارے اچھے لکھنے والے ادیب اور ڈرامہ رائٹر جناب اصغر ندیم سید کو ریٹائرمنٹ کے بعد والی آزادی کے بارے سوچ کر خوش ہونا چاہیے۔ پہلے تو وہ ایک یونیورسٹی کے استاد تھے مگر اب وہ پورا وقت پورے ملک کے استاد ہیں۔ ادیب کیا ہوتا ہے؟ ایک ادیب قوم کا استاد ہی ہوتا ہے۔ کیا ضروری ہے کہ ہم انقلاب صرف اپنے کلاس میں لائیں؟ ہم پورے ملک میں انقلاب کیوں نہیں لا سکتے؟ وہ کلاس جس کے بارے میں اصغر ندیم سید نے شکوہ کیا ہے؛ وہ کلاس بھی تو اس ملک اور معاشرے کا حصہ ہے جس کو اب ایک ادیب استاد تبدیلی کی راہ دکھا سکتا ہے۔اصغر ندیم سید صاحب کو یہ افسوس رہا کہ انہوں نے اپنے طلباء کو وہ ادیب اور شاعر نہیں پڑھائے جو انہوں نے پڑھے ہیں اور جو وہ پڑھانا چاہتے ہیں۔ اب ان کے سامنے کسی پالیسی کی کوئی رکاوٹ نہیں۔ اب وہ آسانی کے ساتھ سعادت حسن منٹو کے بارے میں لکھ کر پڑھا سکتے ہیں اور سنا سکتے ہیں۔ وہ اب وہ حالات بیان کر سکتے ہیں جن حالات سے گزرتے ہوئے فیض احمد فیض نے لکھا تھا: ’’ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد‘‘ اب وہ ملک کی نوجوان نسل کو پورا عالمی ادب پڑھا سکتے ہیں۔ وہ انہیں سمجھا سکتے ہیں کہ معاشرے کس طرح تباہ ہوتے ہیں اور معاشرے کس طرح ترقی کرتے ہیں؟ ایک ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد اب ان کے حصے میں ایسا کام آیا ہے جس میں ریٹائرمنٹ کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ہر افسر کے پاس کسی نہ کسی گریڈ کا قلم ہوتا ہے۔ وہ افسر اس قلم کے ساتھ ایک دن ریٹائر ہوجاتا ہے۔ مگر ایک ادیب ؛ ایک قلمکار کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ کیا اصغر ندیم سید کے لیے یہ خوشی کی بات نہیں ہے؟