مبارک باشد کہ قاسم سوری کی ڈپٹی سپیکری بحال ہو گئی۔ اس کالم میں نوید اطلاع پچھلے ہفتے ہی دے دی گئی تھی کہ اپوزیشن کو خوش ہونے کی ضرورت نہیں، یہ معطلی عارضی ہے۔ ڈپٹی سپیکر کی فارغ خطی کا نوٹیفکیشن جب آیا تھا تو قانوناً سپیکر کو اسی روز اس عہدے کا الیکشن کرانا تھا، وہ اس کے پابند تھے لیکن انہوں نے الیکشن نہیں کرایا اور یہ ٹھیک ہی کیا۔ آخر ہفتے دو ہفتے کے لیے کسی عہدے کا الیکشن کرانا کون سی دانشمندی ہے۔ انہیں بھی پتہ تھا اور اس کالم نویس کو بھی۔ اب اس بحث میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ اتنے ہزار ووٹ ایسے تھے اور اتنے ہزار ویسے تھے۔ اپوزیشن کو جس دوسرے معاملے پر ’’عارضی‘‘ خوشی ہے، وہ پی ٹی آئی کا فارن فنڈنگ کیس ہے۔ جلد یا پھر بہت جلد یہ خوشی بھی جاں بحق ہونے والی ہے۔ کیس کے مدعی اکبر ایس احمد کہتے ہیں کہ باہر سے آنے والے پارٹی فنڈ سے احباب انصاف نے پراپرٹی اور رئیل سٹیٹ کا بزنس کیا، پوش کالونیاں بنائی گئیں، خان صاحب اور بڑے ڈاکٹر صاحب سمیت متعدد ایمانداروں کو ان میں پلاٹ الاٹ ہوئے۔ کئی ایماندار جو کیری ڈبے پر سامان ڈھوتے تھے، اس فنڈ کی برکت سے آج اربوں پتی اور پلازوں کے مالک ہیں۔ ملاحظہ کیجئے، اس فنڈنگ میں کتنی برکت تھی۔ ایں خیال و جنونِ خوش فہماں است۔ خدا کا کتنا شکر کریں اس بات پر کہ ہمیں ایسے سرتاپا ایمانداروں کی حکومت ملی۔ ٭٭٭٭٭ مزید مبارک باشد کہ ملک بھر میں لنگر کھلیں گے خود امیر الامارۃ نے اعلان فرمایا ہے۔ یوں انہوں نے ملک کے معاشی مستقبل کی سمت اور عوام کی قسمت دونوں کا تعین کر دیا ہے۔ فرمایا ہے، یہ لنگر خانے کھلتے جائیں گے۔ لنگر سے بڑھ کر باعزت ’’رزق‘‘ اور کہاں مل سکتا ہے۔ ایک کارخانہ بند ہو گا، ایک لنگر کھلے گا۔ ہر گاہ لنگر گاہ کا منظر ہو گا۔ گھروں میں بچے نغمہ بار ہوں گے ؎ بھول نہ جانا پھر پپا لنگر لے کر گھر آنا ملک ہی نہیں، عوام بھی خود کفیل ہوں گے۔ خود کفالت سے یاد آیا، تازہ رپورٹ ٹی وی پر یوں چلی ہے کہ قرضے لینے میں پی ٹی آئی نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اسے غیر ملکی ’’لنگر‘‘ کہہ لیجئے، بہرحال، ٹی وی والے اپنی عبارت بدل دیں، یوں چلائیں کہ خود کفالت میں پی ٹی آئی نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا، خود کفالت میں تقریباً 36کھرب کا اضافہ، ہر روز خود کفالت میں…الخ۔خیر، وہ دن دور نہیں جب دوسرے ملکوں سے لوگ لنگر کھانے پاکستان آیا کریں گے۔ ٭٭٭٭٭ لنگر خانوں سے یاد آیا کہ حکومت میں آتے ہی بے گھروں کے لیے فٹ پاتھوں پر چند ایک خیمہ بستیاں بسائی گئی تھیں۔ روحانی تحریر و تقریر کنندگان نے اسے ریاست مدینہ کی طرف تاریخی قدم قرار دے کر فی البدیہہ قصیدے لکھے اور پڑھے تھے۔ وہ بستیاں کہاں گئیں؟ سنا ہے، طناب کا بھی نشان تک کسی کو نہیں مل رہا۔ مکان تو لاپتہ ہو گئے، مکینوں کا بھی کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ چلئے، کوئی بات نہیں۔ سی بی آر نے فرمایا ہے کہ باہر جانے والی رقم ایک سو ارب ڈالر نہیں ہے۔ پچھلے بیس برسوں میں صرف چھ ارب ڈالر باہر گئے اور وہ بھی قانونی طریقے سے۔ لیجئے جناب! مراد سعید والے دو سو ارب ڈالروں کے بعد یہ ایک سو ارب ڈالر بھی گئے۔ خواب تھا جو کچھ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا۔ 200ارب ڈالر کی بات صرف مراد سعید ہی نہیں، خود عمران خان نے بھی کی تھی اور یاد آیا، عمران خان نے منی لانڈرنگ کے بارے میں کیا فرمایا تھا؟ کوٹ ان کوٹ، حرف بہ حرف ملاحظہ فرمائیے: دس ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہر سال ہو رہی ہے۔ یہ نواز شریف اور شہباز شریف منی لانڈرنگ کرتے ہیں۔ میں حکومت میں آتے ہی اسے روک دوں گا، ہم اسے روک کر دکھائیں گے۔ اس منی لانڈرنگ کا پچھلے تیرہ ماہ سے کوئی سراغ ہی نہیں مل رہا اور یہ تو محض دو تین افسانے ہی ہیں، پچھلے چند برسوں میں لکھے جانے والے شاہکار افسانوں کی گنتی اتنی ہے کہ ہر رات ایک افسانہ پڑھا جائے تو ایک ہزار ایک تک بات پہنچے، یعنی الف لیلہٰ و لیلیٰ جدید۔ اس افسانہ نگار کو ابن سخی کا نام دینا چاہئے جس نے اتنی سخاوت سے اتنے افسانے لکھے اور کوئی بھی افسانہ کروڑوں کا نہیں لکھا یا تو اربوں کا لکھا یا کھربوں کا ۔لیکن کیا ہے لوگ اس مصنف کو بھی بھول جائیں گے۔ جس قوم نے ابن صفی کو بھلا دیا، وہ ابن سخی کو کیا یاد رکھے گی۔ ٭٭٭٭٭ سنا ہے حکومت نے مولانا کا توڑ کرنے کے لیے ایک عظیم مبلغ کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔ یہ عظیم مبلغ اڑھائی تین کروڑ روپے سے کم مالیت والی گاڑی پر سفر نہیں کرتے۔ وجہ یارانِ طریقت کی زبانی یہ پتہ چلی ہے کہ زیر تشریف گاڑی کی مالیت اڑھائی تین کروڑ سے کم ہو تو دل میں گداز، لہجے میں سوز، زبان میں اثر اور طبیعت میں خشیت نہیں پیدا ہوتی۔ ظاہر ہے، تبلیغ کے لیے درکار یہ عناصر اربعہ میسر نہ ہوں تو تبلیغ کا فریضہ کیسے ادا ہو گا۔ سنا ہے، مولانا میدان میں آ چکے ہیں۔ دو تین خطابات تو ٹوئٹر پر دستیاب ہیں۔ مولانا کو ایسی گاڑیاں مناسب تعداد میں درکار ہوں گی، کوئی مسئلہ نہیں، فارن فنڈنگ والے اکائونٹ سے یہ خدمت بھی سہی۔ ٭٭٭٭٭ لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا حل بندوق ہے۔انہوں نے شاید سنا نہیں کہ ریاستی پالیسی بدل کر اس ایک فقرے میں سمٹ گئی ہے کہ جنگ کوئی آپشن نہیں۔ ہاں، جنگ کے سوا باقی آپشن تمام کے تمام کھلے ہیں۔ جلسے کریں، تقریریں فرمائیں، بیانات صادر کریں، ٹوئٹر پر انگلیاں چلائیں۔ حیرت ہے بلوچ صاحب نے ریاستی بیانیہ نہیں سنا حالانکہ حکومت اور اس کے وزیر مشیر سفیر اب تک یہ بات نو ہزار آٹھ سو ترپن بار دہرا چکے ہیں کہ جنگ کوئی آپشن نہیں، ہم جنگ نہیں چاہتے، ہم جنگ نہیں لڑیں گے۔