اقبال نے سچ کہا تھا: ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتاہے کیا یہ تو طے ہو چکا کہ حالات اب جوں کے توں نہیں رہیں گے۔ مستقل طور پر یہ وعدہ فروش ہماری گردنوں پہ مسلط نہ رہ سکیں گے۔ عدالتی حکم کے باوجود محترمہ مریم نواز کاارشاد یہ ہے کہ نواز شریف صحت یاب ہوں گے تو واپس آئیں گے۔ادھر جناب چیف جسٹس کا فرمان یہ ہے کہ یہ حکومت کچھ بھی کر دکھانے کی اہل نہیں۔ اگر سرکارکے باب میں ایسا سخت رویہ عدلیہ اختیار کر سکتی ہے تو اپوزیشن کیونکر اسے بلیک میل کر سکتی ہے۔ خاندان اور اس کے فدائین کی توجیہہ یہ ہے کہ کرونا کے باعث نواز شریف علاج نہ کرا سکے۔ کرونا تو فروری میں پھیلنا شروع ہوا۔نومبر 2019ء میں عالی جناب تشریف لے گئے تھے۔ اس وقت تک کسی ہسپتال میں کیوں داخل نہ ہوئے۔بے شک وہ دل کے مریض ہیں۔ گردوں اور بلڈ پریشر کے بھی۔ دل سے دماغ کو جانے والی ایک رگ میں بھی خرابی ہے۔ اب مگر وہ بھلے چنگے گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔بظاہر اس کا مطلب یہ ہے کہ جسمانی بیماریوں سے زیادہ وہ ذہنی دباؤ یعنی ڈپریشن کا شکار تھے۔ لندن کی کھلی فضا میں داخل ہوتے ہی ان کی بیماری دھیمی پڑنے لگی۔ علالت نے درماندہ نہ کیا تھا، ہمت ٹوٹ گئی تھی۔ 1999ء میں جنرل مشرف سے مفاہمت کے بعد آنجناب جدہ میں تھے، مرحوم مجید نظامی جب ان سے ملنے گئے۔ کہا کہ سیاست کی بقا چاہئیے تو واپس جانا ہوگا۔ عالی جناب کا جواب یہ تھا کہ وہ جیل نہیں بھگت سکتے۔ نہیں بھگت سکتے تو قیادت کا حق کیا ہے؟ یہاں تو طوفان پہ طوفان آتے ہیں۔ داخلی انتشار ہے اور سرحدوں کے باہر سے خطرات کی یلغار مستقل رہتی ہے۔ اس سہولت پسندی کے ساتھ، جس کے وہ عادی ہو چکے،فقط ذاتی زندگی تو بسر کی جا سکتی ہے،قوم کی قیادت نہیں۔ شہباز شریف اب کیا کریں گے۔و ہ ان کے ضامن تھے۔ انہی کا پیمان تھا کہ چند ہفتوں بعد برادرِ اکبر لوٹ آئیں گے۔ وہ ذمہ دار ٹھہرائے جائیں گے۔ مدتوں سے وہ دو کشتیوں میں سوار ہیں اور بچتے چلے آئے ہیں۔ اب آخر کار ان کی قسمت کا فیصلہ ہو کر رہے گا۔ شریف خاندان کے معاملات اس قدر پیچیدہ ہیں کہ آسانی سے حکم لگایا نہیں جا سکتا۔ رزم گاہ میں علم لہراتے ہوئے اترتے ہیں۔ ایسا لگتاہے کہ حریف کو روندکے رکھ دیں گے۔ پھر اچانک مفاہمت کا ڈول ڈالتے ہیں۔ سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں۔ جنرل مشرف کے عہد میں اپنے ساتھیوں کو زندانوں میں چھوڑا، درجنوں سوٹ کیس اور ملازم اٹھائے۔جدہ کے ایک محل میں جا براجے۔ برسوں خاموش پڑے رہے۔پھر ڈرامہ رچایا۔گویا عصرِ حاضر کے امیر تیمور ہیں لیکن اسلام آباد کے ہوائی اڈے سے ہانک کر واپس لے جائے گئے تو ایک بار پھر ساکن و ساکت ہو گئے۔ اتفاق سے اس دن جماعتِ اسلامی کے ایک رہنما جدہ میں تھے۔ شام ڈھلے ان سے ملنے گئے تو طرح طرح کے کیک ان کی خدمت میں پیش کیے گئے اور چکھنے پر اصرار کرتے رہے۔ ان صاحب نے کہا کہ خفت کی ایک رمق بھی ان کے چہرے پر نہیں تھی۔ سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ پاکستان پہنچے۔ اخبار نویسوں کو بتایا کہ معاہدہ پانچ نہیں دس برس کا تھا۔غلط بیانی پاکستانی سیاستدانوں کے نزدیک کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ مدتوں کہتے رہے کہ کوئی معاہدہ ہوا ہی نہیں۔ گویا جبراً جلاوطن کر دیے گئے۔ پھر پانچ سال کا راگ الاپتے رہے لیکن سعودی حکومت نے واضح کر دیا کہ سمجھوتہ دس برس کے لیے طے ہوا تھا۔ عمران خان کا انکشاف یہ ہے کہ اب کی بار بھی ایک شاہی خاندان سے مدد مانگی۔کہا جاتاہے کہ اشرف غنی کے توسط سے واشنگٹن کی بھی۔ جسارت کی حد محترمہ مریم نواز کا یہ دعویٰ تھا کہ لندن تو کیا، پاکستان میں بھی ان کی کوئی جائیداد نہیں۔ چند ماہ بعد اسی رسان سے فرمایا کہ اٹھاسی کروڑ روپے کے اثاثے رکھتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زرداری اینڈ کمپنی کی طرح عشروں تک دونوں ہاتھوں سے ملک کو انہوں نے لوٹا ہے۔کچھ جائیداد یں اور کچھ کاروبار منظرِ عام پر آگئے لیکن بہت کچھ ابھی مخفی ہے۔ کئی باخبر لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ صرف لندن میں جائیدادوں کی تعداد تین سو کے لگ بھگ ہے۔ جعلی کھاتوں پہ آدمی دنگ رہ جاتاہے۔زرداری ٹولے کی طرح اربوں روپے ایک سے دوسرے اکاؤنٹ میں منتقل ہوتے رہے۔ عدالتی نظام اگر فعال اور موثر ہو تا تو کب سے دونوں شاہی خاندانوں کا ایک ایک فرد جیل میں سڑ رہا ہوتا۔ زیادہ حیرت شہباز شریف پہ ہوتی ہے، جو سینے پہ ہاتھ مار مار کر دعویٰ کرتے رہے کہ عمر بھر انہوں نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی۔ پھرلوٹے گئے اربوں روپے سرِ بازار اچھلتے اور ان کے خلاف شہادت دیتے رہے۔ جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا۔ نواز شریف کو واپس آنا ہوگا۔ نہیں آئیں گے تو عدالت فیصلہ صادر کرے گی۔ ایک بزدل لیڈر کے طور پر ان کا تاثر گہرا ہوتا جائے گا۔سیاست بجھتی جائے گی، دھار کند ہو تی جائے گی۔ اخباری اور سیاسی، جو درباری یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ دربارایک بار پھر سجے گا۔ ایک بار پھر درہم و دینار کی بارش کی جائے گی، وہ احمقوں کی جنت میں بستے ہیں۔ لنکا میں سبھی باون گزکے ہیں۔ وفاقی حکومت کے بارے میں کے الیکٹرک کے حوالے سے جناب چیف جسٹس نے یہ کہا:حکومت اپنے فرائض ادا کرنے کی اہل ہے اور نہ اس کی استعداد رکھتی ہے۔کے الیکٹرک پر پیش کی جانے والی سرکاری رپورٹ عدالت نے مسترد کر دی۔ صاف الفاظ میں کہا کہ یہ رپورٹ کمپنی سے روپیہ لے کر بنائی گئی۔انہوں نے سوال کیا کہ کیوں نہ بجلی کی وزارت کے جوائنٹ سیکرٹری کو برطرف کر دیا جائے۔ کہا کہ رپورٹ ہم نے صورتِ حال کے بارے میں مانگی تھی، یہ آنے والے کل کی بات کر رہے ہیں۔ یہ المناک انکشاف بھی ہوا کہ پانچ برس سے کے الیکٹرک نے حکومت کے واجبات ادا نہیں کیے۔ ایک دھیلا تک نہیں۔ وہ کراچی کو بجلی مہیا کرتی ہے اور نہ ادائیگی۔ سمندر پار پڑے بینکوں کے کھاتے پھولتے جا رہے ہیں۔ اربوں روپے لوٹے جا چکے۔ نا اہلوں اور بدعنوانوں کے ٹولے ہیں۔ تازہ ترین سروے یہ کہتاہے کہ دونوں بڑی پارٹیوں کے بیس فیصد حامی آئندہ الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے۔ پی ٹی آئی کی ناکامی، شریف اور زرداری خاندان کی کرپشن نے ایک بہت بڑا سیاسی خلا پیدا کر دیا ہے۔ کوئی دن جاتاہے کہ فیصلہ ہو رہے گا۔ اقبال نے سچ کہا تھا: ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتاہے کیا یہ تو طے ہو چکا کہ حالات اب جوں کے توں نہیں رہیں گے۔ مستقل طور پر یہ وعدہ فروش ہماری گردنوں پہ مسلط نہ رہ سکیں گے۔