یہ اس صدی کے شروع کی بات ہو گی کہ کراچی میں غالباً نجیب ہارون کے گھر اس وقت کے عمران خان سے بات ہو رہی تھی۔ میں نے ذرا بے تکلفی سے اپنے تئیں فلسفیانہ انداز میں عرض کیا کہ ہر سیاسی جماعت اپنی تشکیل کے وقت ایک ایسے مرکزے کا انتظام کرتی ہے جس کے گرد پارٹی کا سارا نظم و نسق گھومتا ہے۔ عام طور پر یہ ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو جم کر بیٹھ کر سارا ڈیسک ورک کرتا ہے۔ یہ لفظ چھوٹا ہے‘ مگر وہ کام بڑا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر بھٹو صاحب ایک بڑے جینئس تھے۔ ان کی پارٹی میں ایک سے ایک بڑا سیاست دان تھا‘ مگر سیکرٹری جنرل انہوں نے ایک ایسے بیورو کریٹ کو بنایا جس کے بارے میں انہیں اندازہ تھا کہ وہ جم کر وہ کام کر سکتا ہے جو عموماً سیاستدان نہیں کر پاتے۔ اس شخص کا نام جے اے رحیم تھا۔ اس طرح جب اصغر خان نے تحریک استقلال کی بنیاد رکھی تو اس کام کے لیے ایک سابق بیورو کریٹ ملک وزیر علی کا انتخاب کیا۔ ایسے شخص کی حیثیت طوفان کی موجوں سے لڑتے جہاز کے لنگر کی سی ہوتی ہے۔ پھر عرض کیا آپ کے ساتھ ایسا کوئی شخص تو نہیں ہے‘ مگر آپ نے ان کی جگہ امریکہ اور ولائت سے آئے ہوئے بعض ایم بی اے قسم کے نوجوان متعین کر رکھے ہیں جنہیں آپ ان بیورو کریٹ کا متبادل سمجھتے ہیں۔ مگر ان ولایتی ایم بی اے ٹائپ نوجوانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں نہ تنظیم سازی کی کلاسیکی روایات کا علم ہے نہ وہ اس دھرتی کے حالات سے واقف ہیں۔ میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ عمران خان نے بیساختہ کہا‘ آپ ٹھیک کہتے ہو۔ میں ابھی ابھی اندرون سندھ سے لوٹ رہا ہوں۔ وہاں کی دنیا ہی الگ ہے۔ میں نے یونہی ایک تقریر میں پوچھا کہ آپ ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہو یا نہیں۔ سب نے کہا‘ بالکل چاہتے ہیں۔ میں نے دوسرا سوال کیا‘ کون سا اسلام؟ کس کا اسلام؟ اس کا انہوں نے جو جواب دیا اس پر میں بھی بھونچکا رہ گیا۔ عمران خان تو حیران تھے ہی۔ کہنے لگے‘ میرے لوگوں کو اس زمینی حقیقت کی خبر ہی نہیں ہے۔ میں یہاں یہ نقل نہیں کر رہا کہ سندھ کے دیہاتیوں نے کس اور کس کے اسلام کی بات کی تھی کہ میں بھی حیران رہ گیا۔ ذکر میں اس لئے نہیں کروں گا کہ جب دو ایک سال بعد میں نے عمران کے سامنے یہ بات دہرائی تو وہ بات گول کر گئے۔ اس لئے کہ بدلے ہوئے حالات میں وہ اس بات کو مناسب نہیں سمجھتے ہونگے۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ مجھے شروع ہی سے اس بات کا اندیشہ تھا کہ عمران کی پارٹی میں وہ لنگر نہیں ہے جو اسے طوفانوں میں استقامت دے سکے یا جو پارٹی کی تنظیمی تشکیل کر سکے۔ ایک دو سال سے میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ یہ پارٹی این جی او ٹائپ سوچ‘ کارپوریٹ سیکٹر کے انداز اور باہر سے آئے ہوئے لبرل ٹیکنو کریٹ پر مشتمل ہے۔ اس کی کسی بات میں خرابی نہیں ہے‘ مگر اس میں وہ بنیادی مرکزیہ غائب ہے جو پارٹی کو استقامت بخشتا ہے یہ ایک خاص طرح کا لبرل ڈھیلا ڈھالا نظام ہوتا ہے جو کسی تنظیم یا مضبوط پالیسی کی بنیاد نہیں بنتا۔ اس میں جو بیورو کریٹ بھی شامل ہوئے ہیں وہ بھی اسی مزاج کے لوگ ہیں اس لئے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ عمران کو روز اپنی فکر میں اصلاح کرنا پڑتی ہے۔ آج تو انہوں نے حد کر دی جب انہوں نے یہ تک کہہ دیا کہ یوٹرن کیا کون سی ایسی بری بات ہے۔ اس سے مجھے زرداری کی وہ بات یاد آئی جب انہوں نے وہ شہرہ آفاق بیان دیا تھا کہ کوئی وعدہ یا معاہدہ قرآن اور حدیث نہیں ہوتا کہ بدلا نہ جا سکے۔ انہوں نے غالباً صرف حدیث کا لفظ استعمال کیا تھا۔ اس ایک لفظ نے زرداری کی ایک عرصے تک مٹی پلید کئے رکھی۔ میں نے اوپر تین طبقات کا ذکر کیا ہے۔ ان پر الگ الگ سے گفتگو ہو سکتی ہے۔ مگر ان کا مجموعہ بھی ایک جعلی سوچ کو جنم دینا ہے۔ این جی اوز کی مددسے حکومت چلانے کا تجربہ مشرف نے کیا تھا جو ناکام ہوا۔ان کی پہلی کابینہ میں پانچ چھ این جی او کے نمائندہ تھے۔ یہ بنیادی طور پر غیر سیاسی اور غیر انقلابی لوگ ہوتے ہیں یہی حال کارپوریٹ سیکٹر کا ہے۔ امریکہ وغیرہ میں یہ لوگ بزنس سے اٹھ کر سیاست میں آ جاتے ہیں۔ مگر وہاں کی سیاست کا پیراڈائم ہی مختلف ہے۔ عمومی طور پر یہ لوگ کاروباری سوجھ بوجھ تو رکھتے ہیں‘ مگر سیاست اتنی ہی جانتے ہیں جتنی کاروبار کے لیے ضروری ہے۔ ان لوگوں کو آگے لایا جاتا ہے تو آگے لانے والے پیچھے بیٹھ کر مہار سنبھالے رہتے ہیں۔ صرف یہ سمجھئے یہ کاروباری لوگ ہوتے ہیں‘ سیاسی نہیں۔ یہ نہیں کہ یہ سیاست نہیں کرتے۔ مگر کچھ کام جہانگیر ترین کرلیتے ہیں۔ دوسرے کاموں کے لیے آپ کو کوئی شاہ محمود قریشی درکار ہوتا ہے۔ پھر باہر سے آنے والے ٹیکنو کریٹ یا محب وطن افراد کا ایک گروہ ہے جو ہمیشہ ایک راگ الاپتا ہے کہ انہیں موقع دیا جائے تو وہ ملک کا مقدربدل سکتے ہیں۔ عملی طور پر آج تک یہ لوگ کچھ نہیں کر پائے۔ پاکستان کے تارکین وطن نے تو ابھی تک کوئی معرکہ سر نہیں کیا۔ قومیں جب ایک سطح تک پہنچتی ہیں تو ان تارکین وطن میں ایک کلاس پیدا ہوتی ہے جو ملک میں انقلاب لا سکتی ہے۔ ایسے سماجی حالات اور ہمارے ڈائسپورہ تارکین وطن کے حالات ابھی اس سطح تک نہیںپہنچے۔ مگر ہوا یہ ہے کہ یہ تینوں نرم نرم طبقات ایک ایسا منصوبہ بنا رہے ہیں جو ملک کی سیاست میں کوئی انقلاب لانے کا جوہر ہی نہیں رکھتے۔ اس لئے عمران کو ان لوگوں کی کمپنی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس نے بیورو کریسی چنی تو خیبر پختون خوا مارکہ۔ وہ وہاں کے تجربے کو اور شوکت خانم کے تجربے کو اہم سمجھ رہے ہیں۔ اس بات پر انہیں اعتبار ہے کہ اس کا انتخاب ہمیشہ درست ہوتا ہے۔ وہ جن کو چنتا ہے وہ انضمام اور وسیم اکرم بنتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ یہ دونوں لوگ عمران کا انتخاب نہ تھے ان کی عظمت عمران کی مرہون منت نہیں ہے۔ میں یہ باور دلانا چاہتا ہوں کہ ایک شخص غالباً منصوراختر بھی تھا‘ ایسا ہی نام تھا جسے عمران بار بارموقع دیتے تھے۔ اسے ویون رچرڈز کے مقابلے کا بیٹسمین سمجھتے تھے۔ ون ڈائون پر کھیلاتے تھے مگر اس نے کبھی کھیل کر نہ دیا۔ آج مجھے اس کا نام یاد کرتے ہوئے بھی دقت ہو رہی تھی۔ بات کو میں نے پھیلا دیا ۔کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ ملک چلانے کے لیے کچھ اور چیز کی ضرورت ہے کام کرنے کے لیے یہ تیاری موجود نہیں ہے۔ مثلاً حکومت بیورو کریسی کے بارے میں یک سو نہیں ہے۔ اگر 15دن میں ایک افسر کے چھ بار تبادلے ہوتے ہیں تو یہ ہیجانی کیفیت یقینا بنیادی کمزوری کی نشاندہی کرتی ہے۔ پہلے آپ نے اعلان کیا کہ ہم پولیس کو خود مختار کریں گے پھر یہ کہا کہ بیورو کریسی کو وزیروں کی بات ماننا پڑے گی۔ بعض مشیر قسم کے لوگ تو آتے ہی مستعفی ہو گئے۔ اب بات یہاں تک پہنچی ہے کہ کابینہ بمقابلہ سینٹ یا سینٹ چیئرمین آ کھڑی ہوئی ہے۔ اس طرح تو جمہوریت کی گاڑی نہیں چلتی۔ ایک ایس پی کے اغوا پر وفاق کا جو رویہ رہا ہے اور اس کے ترجمان نے غیر ملکی میڈیا کو جو بیان دیا ہے یہ پوری قوم کی ہنسی اڑانے کے لیے کافی ہے۔ میں یہاں کوئی چارج شیٹ مرتب نہیں کر رہا۔ میری دعا ہے یہ حکومت کامیاب ہو۔ میں تو صرف یہ نشاندہی کر رہا ہوں کہ خرابی کس وجہ سے پیدا ہو رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کائنات ابھی رقص میں ہے‘ اس میں ٹھہرائو نہیں آرہا۔ میں فہرست گنوا کر گناہوں کی تعداد بتاتا نہیں چاہتا۔ صرف یہ درخواست ہے کہ حکمرانی کے انداز کو استقامت دینے کا کچھ بندوبست کیجئے۔وگرنہ جہاز ڈوب سکتا ہے۔ جہاز چاہے ٹائی ٹینک ہی کیوں نہ ہو‘ موجوں کی زد میں اگر کسی چٹان سے ٹکڑا سکتا ہے۔ خدا نہ کرے ایسا ہو۔