ملکی سیاست پہ کڑی اور ہر گھڑی نظر رکھنے والے حکیم جی کا فرمان ہے کہ: ’’محترم شہباز شریف نے ہیٹ پہننا ہالی وُوڈ سے، مکالمے بالی ووڈ سے، ڈراما لالی ووڈ سے، بیانات لا اُبالی ووڈ سے، مائیک توڑنے کی لت بھٹو سے، بھڑکیلی اور مترنم نظمیں پڑھنے کی ادا حبیب جالب سے، کہہ مکرنی کا طنطنہ مرزا غالب سے، سڑکوں پہ گھسیٹنے کی مت کرشن چندر کے افسانے ’لالہ گھسیٹا رام‘ سے، لندن میں سڑک پار کرنے کی ترکیب اسحاق ڈار سے، لوگوں کی معزز شخصیات کو اوقات میں رکھنے کے لیے نایاب تصاویر، کم یا ب وڈیوز اور مقبول خواتین کا اہتمام کرنے کی تحقیق گھر سے، اکاؤنٹ اکاؤنٹ کھیلنے کا ہنر بھائی جان سے، آگ لگا دینے کا فن تائیوان سے سیکھا ہے … کاش وقت سے بھی کچھ سیکھا ہوتا !! ‘‘ البتہ لانگ بوٹوں کی بابت ہمارا ذاتی ٹیوا ہے کہ ان کا استعمال وہ یقینا پاک فوج کی محبت میں کرتے ہوں گے لیکن ہم آج تک یہ نہیں جان پائے کہ اقتدار سے الگ ہوتے ہی ’’بوٹوں کی محبت کو دل سے نہ جدا کرنا‘ والی کافی بڑے میاں صاحب والی نصیحت کہاں غائب ہو جاتی ہے؟ ان کے دورِ حکومت میں تو یہ بات بھی ہماری معصوم سی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ شدید بارشوں کے موسم میں گوڈے گوڈے پانی میں بے خطر کود پڑنے کا سلیقہ انھوں نے کہاں سے اخذ کیا تھا؟ اور اس سلسلے میں بھی ہماری عقل کافی دیر تک محوِ تماشائے لبِ بام رہا کرتی تھی کہ آئے دن ٹی وی کیمروں کے جلو میں، واسا کا ہاسا بنا دینے اور سڑکوں، گلیوں، چوکوں، بازاروں، محلوںمیں کھڑے پانی کو دیکھ کے پانی پانی ہونے کے بجائے، کسی راج ہنس کی مانند اس سے چھپاک چھپاک کھیلنے سے سیلاب کی صحت پہ کیا فرق پڑتا تھا؟ ایک بات طے ہے کہ ان کے دورِ حکومت میں آگ اور پانی کا کھیل بہت رغبت سے کھیلا جاتا تھا۔ شاید اس لیے کہ انسان جن چار چیزوں سے وجود میں آ یا ہے، اُن میں اِن دو عناصر کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ البتہ باقی دو عناصر سے اقتدار کے بعد واسطہ پڑتا ہے، جب ہوا اُکھڑ چکی ہوتی ہے اور مٹی پلید ہو رہی ہوتی ہے۔ ہمیں تو اتنا یاد ہے کہ جب ایک طرف صوبہ بھر کے محکمانہ ریکارڈ ایک خاص ترتیب سے جل رہے تھے اور گلیوں بازاروں میں پانی کھڑا تھا لالہ بسمل کے ذہن میں میر کا یہ شعر نہ جانے کس نسبت سے ٹوٹ پڑا تھا: ؎ ایک سب آگ ، ایک سب پانی دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں اور طرح کے مناظر کو اور طرح کے تناظر میں فِٹ کرکے لوگوں کو بھونچکا کر دینے کے فن میں لالہ کو ویسے بھی یدِ طولیٰ حاصل ہے۔ آگ ہی سے یاد آیا کہ ایک روز حکیم جی کے ہاں اس بات پہ بحث ہو رہی تھی کہ اس ملک کی بنیادوں کو لرزہ بر اندام کرنے میں کچھ دامادوں کا بہت ہاتھ ہے۔ وہ اپنے اسلامی ذہن رکھنے والے کیپٹن صفدر ہوں، میاں شہباز شریف کے لاڈلے جمائی راجا، علی عمران ہوں یا پھر بھٹو فیملی کے موجودہ وارث اور وطنِ عزیز کے سب سے مقبول ترین داماد جناب آصف علی زرداری ہوں، ان سب نے اپنے اپنے سسرال کی دن دیہاڑے جو جو خدمت انجام دی ہے، وہ یقینا دوپہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ لالہ ایک دم اپنے ہی سر پہ دوہتڑ مار کے کہنے لگے: ع اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے ’دماد‘ سے جب ہمارے یہ محبوب میاں صاحب لندن سے ایک عدد وینٹی لیٹر اور درجن بھر ماسک لے کر پاکستان براجے تھے توان کی پارٹی کا بیانیہ تھا کہ وہ کورونا پہ کنٹرول کرنے کے لیے کمر باندھ کر آئے ہیں۔ اس بات میں خاصا وزن دکھائی دیتا ہے کیونکہ انھوں نے آتے ہی حکومت کو بڑا مفید مشورے دیئے تھے لیکن انتظامیہ کو لگتا ہے کرونا کے خاتمے سے کوئی خاص دلچسپی ہی نہیں۔ پھر انھوں نے اپنے لیپ ٹاپ پہ بیٹھ کے بھی کرونا کو تڑی لگائی تھی کہ ’مسٹر کرونا! بندے کے پُتر بن جاؤ، تمھیںمیرے غصے کا پتہ نہیں، مَیں وہی ڈینگی والا میاں ہوں!‘ لیکن سنا ہے کہ یہ ناخلف اور بد لحاظ کرونا ان کو لانگ بوٹوں کے بغیر دیکھ کے محض مسکرا کے رہ گیا۔ بعض حلقوں میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہمارے اس بھولے بھالے میاں صاحب کو پارٹی کی صدارت اور مس عظمیٰ والی وزارت جیسے کئی طرح کے لالچ دے کر لندن سے لاہور بھیجا گیا ہے لیکن اپنے لالہ اتنے سنجیدہ مسئلے پہ بھی بتیسی نکالنے سے باز نہیں آئے، اور بالکل منیر نیازی مرحوم والے لہجے میں کہنے لگے: ؎ کُجھ موسم وی برفیلا سی کُجھ سانوں ٹھرن دا شوق وی سی ایک بات تو سوشل اور غیر سوشل میڈیا پہ بہر طور عرصے سے گردش کر رہی ہے کہ ن لیگ نامی خاندانی پارٹی کہ جس کی پکی رجسٹری میاں نون کے نام تھی ، پھر حالات و واقعات کی مجبوری کی بنا پر اس کا مختار نامہ ’ش‘ کے نام کرنا پڑا لیکن جب نگران وزیر اعظم مقرر کرنے کی باری آئی تو خلائی مخلوق کا سہارا لیا گیا۔ اس کے بعد سے ذاتی اور ’جمہوری‘پارٹی کے اگلے موروثی وارث کی سرد جنگ ، جو کبھی کبھی گرما گرمی کی صورت اختیار کر لیتی ہے،دونوں بھائیوں میں ’م‘ اور ’ح‘کی بحث میں الجھی ہوئی ہے۔ حکیم جی فرماتے ہیں کہ اگر یہ حضرات اس ’م‘ اور ’ح‘ کے ساتھ بات چیت یا ’باری‘ کی ’ب‘ اور تعلق و تعاون کی ’ت‘ لگا لیتے تو محبت کی آڑ میں لوگوں کے ساتھ کچھ عرصہ مزید جمہوریت جمہوریت کھیلی جا سکتی تھی لیکن اندر کی بات نہ چھوٹے میاں بتاتے ہیں اور بڑے میاں تو لندن کی ہوا کھا کے مقامی سویوں کا مزہ ایسا بھولے ہیں کہ ان کی خاندانی سیاست یک پہیلی بن کے رہ گئی ہے۔ ؎ صاف لڑتے بھی نہیں ،’’ بات بتاتے‘‘ بھی نہیں خوب پردہ ہے کہ لندن میں چھپے بیٹھے ہیں موجودہ حالات میں ہمارے سیاسی سنیاسی، جناب حکیم جی کا چھوٹے میاں صاحب کے لیے یہی مشورہ ہے کہ بڑے میاں صاحب کی سوچ آپ سے زیادہ ڈونگھی ہے، اس لیے فی الحال آپ تاج پہننے کے جذبے پہ ذرا قابو پائیں۔ بار بار عدالت کو ’فیس معافی‘ کی درخواست بھجوانے سے بھی لوگوں کو چہ میگوئیوں کا موقع ملتا ہے ۔ نیب اور حکومت کے درمیان ڈکو ڈولے کھانے کی بجائے پھر سے ۱۹۹۷ء والے میاں شہباز شریف بن کے سامنے آئیں۔ جب آپ کے انگ انگ سے قومی خدمت چھلکتی تھی، جس کو آپ بھائیوں، بیٹوں، بھتیجوں کی کشمکش میں مجروح کر بیٹھے۔ اردو کے ایک بھولے بسرے شاعر شوق بہرائچی، جس کا آج ۱۳۶ واں جنم دن بھی ہے، کا یہ شعر گھُٹ کے پلّے باندھ لیں: ؎ وہی خادمانہ روش رہے یہ خیالِ رہبری چھوڑ دو اسے پی سکو گے نہ دوست تم یہ بہت ہی گاڑھا قوام ہے ٭٭٭٭٭