یہ کہا کہ حال دل زار اسے سنانے کو میں اپنے ساتھ رلاتا ہوں اک زمانے کو جو اس کی یاد نہ آئے تو جی ٹھہر جائے ہوا تو چاہیے بجھتا دیا جلانے کو دیا ہوا سے ڈگمگاتا ہے اور بجھنے کے اندیشے میں مبتلا ہوتا ہے مگر اس کی زندگی بھی ہوا سے منسلک ہے۔ وہی کہ ’’دیکھ کے میری بے خودی چلنے لگی ہوا کہ یوں‘‘۔ یہ سانس کی آمدورفت بھی تو دہری نعمت ہے کہ بقول سعدی فرحت و راحت ہے۔ یہ بلا نہ آئے تو الگ مصیبت اور آ کر نہ جائے تو الگ الجھن۔ یہ ہوا ہی تو ہے جو اپنی پشت پر بادلوں کو لاد کر لاتی ہے اور پھر مردہ زمینیں زندہ ہوتی ہیں۔ کیسی کیسی نشانیاں ہیں غور کرنے والوں کے لیے۔ یہ تو مظاہر فطرت ہیں ایک دنیا اس سے ورا بھی ہے جیسے لفظ کے ساتھ اس کے معنی ’’سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے‘‘: گنجیہ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے جو لفظ کے غالب مرے اشعار میں آوے یہ جادو گری یقینا شاعری میں ہے مگر نثر کے پیچھے بھی اگر جذبہ اور مقصد ہو تو کم از شعر نہیں۔ بعض اوقات یہ ضروری بھی ہے کہ خود غالب کو کہنا پڑا ’’کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے‘‘۔ اور اس نے غزل کو تنگنائے کہا۔ یہ اپنی جگہ درست کہ اختصار میں اعجاز ہے مگر زندگی بعض اوقات جذبات کا اظہار مانگتی ہے۔ یہ چیز ہم ناول میں دیکھتے ہیں کہ اس میں پورا عہد نظر آتا ہے۔ معاشرے کے کردار روبہ عمل آتے ہیں۔ مجھے یہ تمہید اس لیے باندھنا پڑی کہ ایک نہایت دلکش ارمغاں سہ ماہی لوح مجھے موصول ہوا۔ اس باکمال کام کے پیچھے ممتاز احمد شیخ کا ادب کے لیے خلوص اور پیار کارفرما ہے۔ ان کا یہ کارنامہ ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ یہ مجلد لوح اس قدر دیدہ زیب ہے کہ بندہ سوچتا ہے کہ اسے دیکھتا رہے یا کھول کر پڑھے۔فراق یاد آ گئے: تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو تم کو دیکھوں کہ تم سے بات کروں ممتاز احمد شیخ نے اب کے کمال یہ کیا ہے اولڈ راوینز کی جانب سے اسیران علم و ادب کے لیے توشہ خاص کو ناول نمبر بنا دیا ہے۔ اصل میں کچھ تعطل آیا اور یقینا اس کا باعث کورونا بنا کہ جس نے ہر میدان میں شیڈوز کی ایسی کی تیسی کردی۔ مگر شیخ صاحب اپنے کام کے ساتھ بہت پرخلوص ہیں اور وہ انتھک بھی ہیں۔ حالات کے بحال ہوتے ہی انہوں نے ناول کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کا آغاز و ارتقا پیش کردیا۔ دیکھا جائے تو یہ ضخیم دستاویز جو بڑے 800 صفحات پر مشتمل ہے ایک گل دستہ اور تاریخ بھی۔ ہمیں معلوم ہے کہ 2020ء کو ناول کا سال قرار دیا گیا ہے تو یوں لوح کے اس نمبر کی اہمیت دوچند ہو گئی ہے۔ زبردست بات یہ ہے کہ اس میں ناولوں کے ابواب شامل کردیئے گئے ہیں جن کے مطالعہ سے موضوعات و مضامین کی ندرت‘ جدت خیالی‘ زبان‘ تکنیک و بنت‘ سالیب‘ تراکیب‘ استعارات و تشبیہات کا تقابل سامنے آئے گا۔ گویا ناولز کا پینوراما ہے۔ ایک بو قلمونی ہے۔ ممتاز احمد شیخ کے دیباچے سے ایک نئی بات معلوم ہوئی کہ مولوی عبدالکریم کے ناول خط تقدیر کو اہمیت دی گئی اور آغاز اس سے کیا گیا کہ اس ناول کو بوجوہ اردو کا پہلا ناول قرا رنہیں دیا گیا مگر اس خط تقدیر نے دستان اور ناول کے درمیان پل کا کام کیا ہے۔ مزید مزے کی بات یہ کہ اس ناول خط تقدیر کا آغاز دو شعروں سے ہوتا ہے تو ایک شاعر کے لیے یہ کتنی خوشی کی بات ہے: قسمت میں ہے وہ زلف گرہ گیر دیکھتا اے شانہ بیں مرا خط تقدیر دیکھتا یوں ہی ہوا رہے گی جو فصیل بہار میں پائوں میں ہوشیار کے زنجیر دیکھتا رتن ناتھ سرشار کے فسانہ آزاد کے باب میں بھی ایک ایسا شعر نظر نواز ہوا کہ لطف آ گیا: صیاد نے تسلی بلبل کے واسطے کنج قفس میں حوض بھرا ہے گلاب کا ادب کا تذکرہ چلا ہے تو نصیر ترابی کا ذکر ہو جائے کہ وہ دنیائے ادب کوسوگوار چھوڑ گئے۔ بہت ہی باوقار شخصیت سے دل کا دورہ جاں لیوا ثابت ہوا۔ وہ اردو زبان کے نامور شاعر ہی نہیں‘ لسانیات کے ماہر اور نعت نویس تھے۔ نامور ذاکر اور خطیب علامہ رشید ترابی کے فرزند تھے۔ انہیں ایک ڈرامہ سانگ سے بھی شہرت ملی۔ وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی۔ وہ 15 جون 1945ء کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد پاکستان آ گئے۔ جامع کراچی سے تعلقات عامہ میں ماسٹر کیا۔ کہتے ہیں 16 دسمبر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے پس منظر میں انہوں نے عدیدہ آنکھوں سے مشہور غزل کہی تھی: وہ ہمسر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی کہ دھوپ چھائوں کا عالم رہا جدائی نہ تھی عداوتیں تھیں تغافل تھا رنجسیں تھیں مگر بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا بے وفائی نہ تھی ان کا اولین مجموعہ عکس فریادی 2000ء میں شائع ہوا۔ انہوں نے بھرپور زندگی گزاری۔ وہ افسر تعلقات عامہ رہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے انہیں علامہ اقبال ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی کتاب شعریات (شعر و شاعری‘ ساخت پر مشتمل ہے)۔ لاریب (نعت‘ منقبت اور سلام) میرا خیال ہے کہ ان کا اصل حوالہ شعر ہی تھا۔ بہتر ہوگا کہ ان کے کلام سے کچھ اشعار میں آپ کے لیے لکھ دوں۔ اور دعا ہے کہ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔ ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا دل اس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا یہ راہ تمنا ہے یہاں دیکھ کے چلنا اس راہ میں سر ملتے ہیں پتھر نہیں ملتا ٭٭٭ یہ ہے مجلس شہ عاشقاں کوئی نقد جاں ہو تو لے کے آ یہاں چشم تر کا رواج ہے دل خوں چکاں ہو تو لے کے آ نہ انیس ہوں نہ دبیر ہوں میں نصیر صرف نصیر ہوں میرے حرف ظرف کو جانچنے کوئی نکتہ داں ہو تو لے کے آ