لاہور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ باغوں، باغیوں، پھولوں، کالجوں، جلسے، جلوسوں اور رنگا رنگ بلکہ دنگا دنگ تقاریب کا شہر ہے۔ ہر روز اس نگری میںتقاریب کی صورت ایسا گھمسان کا رن پڑتا ہے کہ بہت بچ بچا کے بھی چلیں تو ہفتے میں ایک دو مقامات پہ حاضری ہو ہی جاتی ہے۔ ٓان تقریبات کی بھی کئی قسمیں ہیں: بعض تقاریب بہرِ ملاقات ہوتی ہیں، بعض بہرِ مفادات اور بعض بہرِ مکافات۔ گزشتہ دنوں جیسے ہی مسٹر کرونا کی جانب سے زندگی کو کچھ رعایت ملی، تقاریب کی تو جیسے جھڑی لگ گئی۔ چند دنوں میں متنوع تقاریب کا تقرب حاصل ہوا،جس سے ایک توزندگی پہ دو سالوںسے مسلط یبوست دُور ہوئی اور دوسرے مشاہدے، تجربے اور تخیل کو مہمیز لگی۔ ان میں پہلی تقریب تو ایف سی یونیورسٹی میں منعقدہ ’’اُردو غزل اکیسویں صدی میں (نئے رجحانات و تجربات) عالمی کانفرنس تھی، جس کا ڈاکٹر الطاف اللہ (ڈین ہیومینٹیز) اور ڈاکٹر اختر شمار (صدر شعبہ) کی رہنمائی میں ڈاکٹرنجیب جمال، ڈاکٹر غفور شاہ قاسم، ڈاکٹر طاہر شہیر، ڈاکٹر نورین کھوکھر، ڈاکٹر عتیق انور اور ڈاکٹر شاہد اشرف نے نہایت سلیقے سے انعقاد کیا۔ تقریب دو سیشنوں پر مشمل تھی، جس کی خاص بات اس میں دنیا بھر کے اساتذہ و ناقدین و ادبا کی شمولیت تھی۔ تقریب ذہنوں پر کرونا کے اب تک باقی اثرات کی بنا پر بلینڈڈ تھی، یعنی شرکا آن کیمپس اور آن لائن دونوں طرح موجود رہے۔ تقریب کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں افتخار عارف، ڈاکٹر سعادت سعید،ڈاکٹر اصغر ندیم سید، ڈاکٹر شیبا عالم، پروفیسرجلیل عالی،ڈاکٹر نجیبہ عارف، ڈاکٹر مرغوب حسین طاہر (جاپان) ڈاکٹر ضیاء الحسن، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم (مصر) ڈاکٹر علی بیات (ایران) رانا اعجاز حسین (کویت) ڈاکٹر حمیرا اشفاق، ڈاکٹر عابد سیال، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد، نوید صادق، ڈاکٹر راشدہ قاضی، ڈاکٹر وحید الرحمان خان، فہیم شناس کاظمی، ڈاکٹر شبیر احمد قادری، ڈاکٹر صنم شاکر، ڈاکٹر یاسمین کوثر نے بھرپور شرکت کی۔شرکا نے اکیسویں صدی کی غزل میں در آنے والے نئے نئے رُجحانات اور رویوں پر سیر حاصل گفتگو کی۔ معزز شرکا کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ جدید اُردو غزل، کلاسیکی شاعری کے تقاضے پورے کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عہد سے بھی مکمل طور ہم آہنگ ہے اور گزشتہ ربع صدی کی غزل میں وطنِ عزیز اوردنیا بھر میں ہونے والے اہم واقعات و حادثات کے تلخ و شیریں ذائقے محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ دوسری تقریب لاہور ٹیکنیکل بورڈکے سیکرٹری پروفیسر فقیر محمد کیفی کی ریٹائرمنٹ کی تھی، جس کے مہمانِ خاص ڈاکٹر علی محمد خاں اور کیفی صاحب کے اہلِ خانہ تھے۔ تقریب پاک عرب سوسائٹی میں واقع قاضی اپیکس کے خوبصورت ہال میں منعقد ہوئی۔ اس ادارے کے سربراہ قاضی محمد نعیم انجم کی خوبصورت میزبانی دیکھ کے ایک بار پھر نہ صرف رشک آیا بلکہ دل میں یہ خیال بھی جاگزیں ہوا کہ ہر معقول بندے کو ملازمت سے ریٹائر ہونے سے پہلے قاضی صاحب سے رابطہ ضرور کرنا چاہیے ۔ تقریب کیا تھی، محکمہ تعلیم کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران کا میلہ پیر بہار شاہ اور لاہور کے گرلز کالجز کی بیش بہا پرنسپلز کا مینا بازار تھا۔ جن میں اسلام پورہ کالج کی پرنسپل ڈاکٹر نگہت اعجاز، وحدت روڈ گرلز کالج کی فرح ملہی، چونا منڈی کالج کی بشریٰ ثمینہ اور پروگرم کی میزبان سبزہ زار کالج کی پرنسپل پروفیسر روبینہ کمال، جس نے میرا جانے کس کے لیے کہا ہوا یہ شعر جانے اپنی کس دوست کو سٹیج پہ بلانے کے لیے پڑھا: یہ تبسم ، یہ تکلم ، یہ نفاست ، یہ ادا جی میں آتا ہے تِرا نام مَیں اُردو رکھ دوں کیفی صاحب جن کی زیادہ تر سروس پنجاب کے مختلف تعلیمی بورڈز میں مختلف حیثیات سے خدمات انجام دیتے گزری۔ وہ انھی بورڈز کی سروس سے نمبروں کی لُوٹ سیل لگنے سے پہلے پہلے سبک دوش ہو گئے۔ اس لیے اس انجام کو ہم انجام بخیر کہہ سکتے ہیں۔ تیسری تقریب اکادمی ادبیات پاکستان کے زیرِ اہتمام نہایت سلجھی ہوئی، باسلیقہ اور با تمکین ادیبہ ڈاکٹر تابندہ سراج کی کتاب ’’ اُردو میں راشد شناسی‘‘ کی پذیرائی کی صورت جناب ڈاکٹر ضیاء الحسن کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ ڈاکٹر ضیا جو میرے تقریباً کلاس فیلو اور یقیناً دوست واقع ہوئے ہیں۔ بہت بڑے نقاد، معروف شاعر اور پنجاب یونیورسٹی شعبہ اُردو کے ہر دل عزیز استاد ہیں۔لاہور کی ہر تقریب کی طرح یہاں بھی بعض مزے دار اور تلمیذالنفس قسم کے لوگ موجود تھے، جو کسی بھی موضوع کو خاطر میں لائے بغیر دھواں دار تقریر کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ ہم ایسے مقررین کی باتوں سے بہت مزہ لیتے ہیں لیکن بعض لوگ تقریب میں پہلو بدلتے پائے جاتے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ ان کا آف کا بٹن عرصے سے خراب ہو چکا ہے۔ افکار کے اظہار کی اس قدر آزادی ہونے کے باوجود ڈاکٹر امجد طفیل، ڈاکٹر ضیاء الحسن، ڈاکٹر عنبرین منیر نے محض کام کی باتیں کیں۔ طاہرہ امین کی نظم بھی خوب تھی۔ مجموعی طور پر ڈاکٹر تابندہ سراج کی اس کتاب کو راشد شناسی کی اہم کڑی قرار دیا گیا۔ ڈاکٹر اجمل نیازی مرحوم کی نمازِ جنازہ کے علاوہ ان کے حوالے سے منعقدہ کسی تقریب میں تو ہم شرکت نہیں کر سکے البتہ ماضی کی ایک تقریب میں ان کے لیے لکھی گئی تحریر سے ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے: ایک سیانے کا قول ہے کہ نیازی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ نمبر ایک:الف نیازی نمبر دو:بے نیازی ویسے تو ’ج‘سے جنرل نیازی ’ع‘ سے عمران خان اور عطا اللہ نیازی ’م‘ سے منیر نیازی اور ’ن‘ سے ناہید نیازی بھی ہوتے ہیں بلکہ مختلف شعبوں میں مختلف حروف سے آغاز پانے والے اتنے نیازی مل جائیں گے کہ اس قبیلے کی اپنی الگ سے الف ، ب تیار ہو سکتی ہے لیکن فی الوقت ایک ایسے نیازی کا ذکر مقصود ہے جو اکیلا ہی’الف‘ سے شروع ہو کے ’ی‘ پہ جا ختم ہوتا ہے۔