انسانی فہم ارتقا کی منازل طے کرتا ہوا یہ تو جان لیتا ہے کہ خود شناسی ، یعنی self actualisation ، انسانی زندگی کا اہم ترین جزوہے، پر اس مقام سے آگے کا سفر اس کے علمی دائرہ کار اور اس کی سمجھ سے بالا تر ہی رہتا ہے۔ چنانچہ ایسے وقت میں جب انسان کا فہم اور اس کا ادراک اس کی راہنمائی سے قاصر ہوجاتا ہے ،پھر وہیں سے کتابِ حق اس کا ہاتھ تھامتی اور اسے یہ درس دیتی ہے کہ دیارِ خود ی سے ہوتا ہوا، انسان عشقِ حقیقی کی بارگاہ میں جا کھڑا ہوتا ہے۔ گویا اگلی منزل تلاشِ رضا ئے الہی ٹھہرتی ہے۔ تاریخ ِ لاہور اٹھا کر دیکھ لیجیے آپ کو ایسی کئی ہستیاں ملیں گی،جن کی شخصیت انہیں راہوں کی خوشبو سے سیراب تھی، اور جنہوں نے اپنی ساری حیات زندگی کے مفاہیم کی تلاش میں بسر کی اوراُس پیغام کو عام کیا جو حق اور سچ کی بالا دستی پرقائم تھا ۔ پچھلے کچھ عرصہ سے ایک پراجیکٹ پر کام جاری تھا۔ لاہور کو ہم سب اس کی تاریخی اور ثقافتی حیثیت سے تو خوب جانتے ہیں،لیکن ہمیں لاہور اور تصوف کے درمیان وابستگی پر کچھ خاص علم نہیں۔ سرکاری ٹی وی نے ارادہ کیا کہ کچھ ایسی دستاویزی سیریز پر کام کیا جائے،جو اس شہر سے وابستہ روحانی شخصیات اور ان کی حیات و تعلیمات پر روشنی ڈالے۔ جب تحقیق کا آغاز کیا تو جہاں ایک طرف تصوف کو سمجھنے کا موقع میسر آیا، وہیں دوسری جانب یہ جان کر بھی افسوس ہوا کہ کس طرح تصوف کو ـ’’modernise‘‘ کرکے نئی نسل کے گوش گزار کیا جارہا ہے۔ ہمارے ہاں پہلا بنیادی فکری مسئلہ یہ ہے کہ ہم روحانیت (Spiritualism) ہی کو تصوف سمجھ بیٹھتے ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ روحایت، تصوف کا ایک جزو ضرور ہے لیکن صرف روحانیت ہی کو تصوف سمجھ بیٹھنا مناسب نہیں۔ ہر مذہب میں کسی نہ کسی شکل و صورت میں روحانیت ضرور پائی جاتی ہے ، لیکن تصوف خالصتا دینِ اسلام سے منسوب ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے اگر آپ بارگاہِ حضرت میاں میرؒ میں حاضر ہوں، تو آپ ؒ اپنی تعلیمات سے ہمیں بہر ہ مند کرتے ہوئے تصوف کو تین مراحل میں تقسیم کرتے ہوئے فرماتے ہیں، کہ پہلامرحلہ ’’شریعت‘‘ ہے۔ شریعت وہ code of conduct ہے جو ہر مسلمان پر لازم ہے۔ مومن کے نفس کی اصلاح کے لیے سب سے اہم ضابطہ یہی ہے۔ دوسرا مرحلہ طریقت ، یعنی mysticism ہے ، جو آپ کے دل کی اصلاح کا ذریعہ بنتا ہے۔ان دونوں مراحل کو عبور کرنے، یعنی اپنے نفس پر قابو پالینے اور دل کو صاف کرلینے کے بعد، انسان خودی کے اُس بلند مقام کو حاصل کر لیتا ہے کہ پھر حق کی روشنی اس پر عیاں ہوجاتی ہے اور وہ حق آشنا ہوجاتا ہے۔ یہ آخری مرحلہ انسان کی روح سے تعلق رکھتا ہے۔ مختصراََیہ کہ شریعت کا پہلے ہی مرحلہ میں موجود ہونا روحانیت اور تصوف میں تفریق واضح کر دیتا ہے۔ دوسرا فکری مسئلہ جسے میں نے محسوس کیا وہ صوفی ازم(sufism) کے متعلق مغرب کی خود ساختہ تعریف ہے۔ تصوف پر مغربی ادب پڑھتا ہوں تو دل آزردہ ہوتا ہے۔ ان کے ہاں عشقِ مجازی سے آگے کچھ نہیں۔ آپ ان کی ترجمہ کردہ مولا نارومؒ کی شاعری پڑھیے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپؒ کی ساری شاعری جس عشق کی طرف اشارہ کرتی ہے وہ مجازی ہے، حقیقی نہیں۔ عشق ِ مجازی کہیں ، کسی طور ، خواہ انسان کے سمجھانے ہی کے لیے ہو ، حقیقت کے سفر کی جانب گامزن کرنے کا ایک tool تو ہو سکتا ہے۔ البتہ سراسر سب کچھ مجاز ہی کی تصویر میں ڈھال دیا جانا ، کسی طورحق نہیں۔ ہمارے ہاں بابوں نے عشقِ حقیقی کو جس پیرائے میں پیش کیا ،اس کے لیے اپنے کلام میں کئی جگہوں پرتمثیلات استعمال کیں۔ مثلا حضرت شاہ حسینؒ کہتے ہیں: ندیوں پار رانجھن دا ٹھانہ کیتا قول ضروری جانڑ منتاں کراں ملاّح دے نال کہے حسین فقیر نمانڑا سچے صاحب نوں میں جانڑا اوڑھک کام اللہ دے نال اب یہ آپؒ کا ایک خاص اسلوب ہے ، جس کے ذریعے آپؒ یہاں عشق مجاز کو محور نہیں بنا رہے، بلکہ سوہنی اور ماہیال کی داستان کو بطور تمثیل استعمال کرتے ہوئے عشقِ حقیقی کا پر چار کر رہے ہیں۔آپؒ فرما رہے ہیں کہ ندی کے اس پار محبوب کا ٹھکانا ہے اور کہہ جو دیا ہے ، اب ضد ہے، اس طرف ضرور جانا ہے۔ میں ملاح کی منتیں کر رہا ہوں۔ یہاں ندی سے مراد فانی اور حقیقی زندگی کے درمیان کا سفر ہے۔ اور ملاح موت کا فرشتہ ہے، جو رب سے ملاقات کا سبب بنے گا۔ پھر فرماتے ہیں کہ فقیر حسینؒ کہتا ہے کہ ایک دن یہ دنیا چھوڑ کر اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ اسی طرح مغربی تہذیب میں مرشد اور مرید کے تعلق کا وہ concept موجودنہیں جو ہمار ے ہاں تصوف میں پایا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ مغربی شیشہ گروں کے ہاتھوں بنے آئینہ میں ،اِس وابستگی کو دیکھتے ہیںتویہ تعلق غیر اخلاقی پیرائے میں نظر آنے لگتا ہے۔ جدت پسندی اور روشن خیالی کے نام پر اس زاویہ کا پرچار کرنے والے ازل سے وہی ہیں جو تصوف میں سے شریعت نکال کر اسے spiritualism کی حد تک محدود کرنے کی کوشش میں جٹے رہے ۔ کیوں کہ یہ غلامانہ سوچ کے علمبردار ہیں۔ ان کی فرسٹریشن نے آج تک انہیں اپنی تہذیب اور علمی روایات صحیح سے پڑھنے نہیںدی، بلکہ یہ مغرب ہی کا چابی والا طوطا بن کر ، انہیں کا رٹایاہوا سبق ، انہیں کے عطا کردہ اشاروںکی طرف، سناتے آئے ہیں۔ اقبال ؒ فرماتے ہیں حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا پتھر شیشہ کو توڑتا ہے،لیکن اگر شیشہ ہی پتھر سا مضبوط ہو، تو پتھر وہاں کیا کرے گا۔لاہور کے جتنے صوفی مقامات کو اس سب عرصہ میں دیکھا ، وہاں سے یہی سمجھ میں آیا کہ ِاس سب سے پرے، اس جہان سے الگ اور بھی کچھ ہے۔ بہت کچھ ہے۔ مال و زر، خوف و خطر ، حرص و ہوس، یہ سب اسی جہان کی بنائی ہوئی جمبشیں ہیں۔ اس سب سے اوپربھی مقام ہے۔جسے حاصل کرنے والے وہ ہنر مند ہوتے ہیں جن کے شیشے جیسے شفاف دل، دنیا والوں کے پتھرنہیں توڑ سکتے ۔ کیوں کہ انہیں غرض ہی باقی نہیں رہتی۔ نہ دنیا والوں سے۔ نہ دنیا والوں کی دنیا داری سے۔