گزشتہ پندرہ دنوں سے پاکستان کے سیکولر لبرل دانشور طبقے کا ایک بڑا حصہ انگاروں پر لوٹ رہا ہے۔ایسے لگتا ہے کہ انہوں نے نفرت کے جس تناور درخت کو جھوٹ اور من گھڑت کہانیوں کے پانی سے سیراب کرکے پالا تھا،بنگلہ دیش میں بلند ہونے والے غزوۂ ہند کے نعروں نے اسے جڑ سے اکھاڑ دیا ہو۔ستر سالوں کی محنت پر پانی پھر جائے تو حالت دیدنی ہوتی ہے۔25مارچ کے دن کو پاکستان اور بنگلہ دیش کے سیکولر طبقات نے مشترکہ طور پر ایک علامت کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ بنگلہ دیش کی سیکولر سرکار نے اس دن کی تقریبات کے لیے نریندر مودی کومہمان بلایا تھا،جبکہ پاکستان کے شہرِ لاہور کے ڈیفنس میں واقع ایک مشہور پرائیویٹ یونیورسٹی نے بھی اسی دن کی مناسبت سے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا تھا جسے دباؤ پر منسوخ کرنا پڑا۔ پچاس سال سے سقوطِ مشرقی پاکستان کے حوالے سے 16 دسمبر کے دن کو پاکستان میںیاد رکھا جاتا ہے۔ ایک وہ لوگ ہیں جو اس دن کو اپنے لیے وجۂ ندامت سمجھتے ہیں، اپنے اعمال کا حساب لیتے ہیں۔وہ اپنا یقین مستحکم کرتے ہیں کہ شکست کسی بھی قوم کو دوبارہ زندہ کر دیتی ہے اگر وہ اپنا محاسبہ کرے۔ جبکہ دوسرے وہ لوگ ہیں جو اس لیئے اسے مناتے تھے کہ اس دن ان کے سینوں میں دبی ہوئی آرزؤں کی تکمیل ہوئی تھی۔ پاکستان وہ بدنصیب ملک ہے کہ جس کے دانشوروں کا ایک مخصوص طبقہ چودہ اگست 1947ء سے ہی اپنے تجزیوں میں ایسی پیش گوئیاں کرنا شروع ہو گیا تھا، کہ اس نوزائیدہ ملک کا کوئی مستقبل نہیں، مذہب کے نام پر کوئی ملک زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ 1947ء سے 1971ء تک چوبیس سال جو نفرت تحریروں کے ذریعے بوئی گئی اس کا لب لباب یہ مفروضہ تھا کہ مغربی پاکستان کا خطہ مشرقی پاکستان کے وسائل پر قابض ہے، لوٹ مار اور استحصال کر رہا ہے۔اس نفرت انگیز پراپیگنڈے کے کبھی مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوتے، اگر ان چوبیس سالوں میں بھارت مشرقی پاکستان کے علیحدگی پسند سیاست دانوں کی مسلسل مالی اور عسکری مدد نہ کرتا۔دوسری اہم بات یہ کہ 16دسمبر 1971ء کو سانحہ مشرقی پاکستان بھی وقوع پذیر نہ ہوتا اگر بھارت کی افواج پاکستان پر حملہ آور نہ ہوتیں۔ چوبیس سال پاکستان کا یہ سیکولر لبرل طبقہ یہ ثابت کرتا رہا کہ بنگلہ دیش بنانے کی تحریک بنگالیوں کی اپنی تحریک ہے، کیونکہ اسلام کے نام پر نئے بننے والے پاکستان نے انکی صدیوں پرانی بنگالی تہذیب، زبان اور ثقافت کو برباد کیاہے اور اب بنگالی اسلام کا یہ ’’نام نہاد کلاوہ‘‘ گلے سے اتار کر آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ آج ان مفروضوں کی حقیقت یوں کھلی کہ اگر تلہ سازش کیس میں بھارت کی مدد کی ساری تفصیلات اسکے اہم ملزم شوکت علی نے 22فروری 2011کو پارلیمنٹ میں بتا دیں اورنریندر مودی تو گزشتہ کئی سالوں سے اپنے سینے پر یہ تمغہ سجائے اعلان کرتا پھر رہا ہے کہ اس کے ’’دیش ‘‘نے کیسے جارحیت کی اور اس نے خود کس طرح خود اس میں حصہ لیا۔ مودی نے یہ اعتراف اس سال بھی 25مارچ والی تقریب میں کیا تھا۔ لیکن اس کی تقریر کا یہ رنگ نہ جم سکا کیونکہ اس دوران، بنگلہ دیش کی سڑکیں بھارت کے خلاف نعروں سے گونج رہی تھیں۔ بھارت کے خلاف آج بھی ہنگامے جاری ہیں اور وہ بنگالی جنہیں 50سال پہلے ایک تہذیب و ثقافت کے پر فریب نعرے پر مغربی پاکستان کے خلاف اکسایا گیا تھا، وہ آج ’’غزوۂ ہند‘‘ کے پرچم بردار بنے ہوئے ہیں۔ جس طرح بھارت کی ستر سالہ محنت ڈھاکہ کے بازاروں میں تباہ وبرباد ہوئی اور بھارت میں صفِ ماتم بچھی ہے، ویسے ہی لاہور کی اس یونیورسٹی میں 25مارچ کو منعقد ہونے والی ’’بنگلہ دیش کانفرنس‘‘ منسوخ ہونے پر بھی ویسا ہی ماتم برپا ہے۔ اس یونیورسٹی نے تو یومِ پاکستان کا تمسخر اڑاتے ہوئے اس کانفرنس کو عین 23مارچ کے دن رکھا تھا ،جب قرار داد پاکستان پیش ہوئی تھی ۔ 25مارچ 1971ء دراصل وہ دن ہے جب شیخ مجیب الرحمن نے آزادی کے ڈیکلریشن پر دستخط کر کے اسے جاری کیا تھا۔کانفرنس کے سیکولر منتظمین کہتے ہیں کہ پچاس سال بعد کیا ہم اپنی تاریخ پر گفتگو نہیں کر سکتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آکسفورڈ یا کیمرج کی یونیورسٹیوں میں کبھی 23مارچ 1940ء پر کانفرنس ہوئی کہ برطانیہ کی غلامی سے آزادی کی وجوہات کیا تھیں۔ کیا کبھی فرانس کی کسی یونیورسٹی میں الجزائر کے اعلان ِ آزادی کی یاد میں 5جولائی کو کانفرنس ہوئی ہو جس میں فرانس کے مظالم زیر بحث آئے ہوں۔کیا امریکہ میں 29مارچ 1973ء کا دن کسی بڑی یونیورسٹی میں اس لیے کبھی منایا گیاکہ اس دن ویت نام سے آخری امریکی سپاہی ہیلی کاپٹر کا پہیہ پکڑ کر نکلا تھا۔کوئی یہ ظلم کی داستانیں بیان نہیں کرتا۔ اس لیے کہ یہ تمام جنگیں سیکولر ،قومی اور نسلی جنگیں اور تمام آزادی کی تحریکیں بھی قوم پرستانہ تھیں۔ ایسے معرکوں کو یاد کرنے میں کچھ نہیں ملتا۔ خوشی تو ان طبقات کو اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان کی شکست پر ہوتی ہے، کیونکہ یہ صرف ایک ملک کی شکست نہیں بلکہ ایک نظریے کی شکست ہے۔ پاکستان کے نظریے اور اس کی اساس کے خلاف قیام پاکستان کے بعد پہلے دن سے جو کام شروع ہوا وہ تعلیمی اداروں میں ہوا اور دانشوری کے نام پر ہوا۔ مغربی پاکستان کے خلاف نفرت کا بیج ڈھاکہ یونیورسٹی میں بویا گیا تھا۔ ڈھاکہ اور راج شاہی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر سید سجاد حسین کی کتاب ’’شکستِ آرزو‘‘ وہ ساری کہانی بیان کرتی ہے اور پاکستان سے 25مارچ 1971ء کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے وفد کو لے کر ڈٖھاکہ جانے والے پروفیسر وارث میر کے اس دور کے کالم پڑھ لیںتو آپ کو یونیورسٹی میں مغربی پاکستان کے خلاف نام نہاد پراپیگنڈے کے شواہد بھی ملیں گے اور بھارتی مکتی باہنی کے غیر بنگالیوں اور بہاریوں پر وحشیانہ تشدد کی دردناک کہانیاں بھی نظر آئیں گی۔ پاکستان کی درس گاہیں ہمیشہ سے پاکستان مخالف ایجنڈے کی ترویج کے لیئے منتخب کی جاتی رہی ہیں۔ ان اداروں پر بذریعہ اساتذہ و طلبہ قبضہ کر کے مخالف آوازوں کا گلا گھونٹا جاتا رہا ہے۔ مجھے اس بات کا اندازہ اس وقت ہوا جب میں نے 18مارچ 1980ء کو بلوچستان یونیورسٹی میں بحیثیت استاد نوکری کا آغاز کیا۔ میں اس وقت کی یونیورسٹی کی فضا کو محسوس کر رہا تھا اور مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ ڈھاکہ یونیورسٹی 1971ء سے پہلے ایسی ہی ہوتی ہوگی۔آواز کو دبانا ، مخالفین کو یونیورسٹی بدر کرنا، ان سیکولر لبرل اساتذہ اور طلبہ کے خاص حربے رہے ہیں۔ لاہور کی جس یونیورسٹی نے اپنی 25مارچ والی بنگلہ دیش کانفرنس کو مجبوراً منسوخ کیا اور جس کی منسوخی پر بھارت میں بہت غم و غصہ ہے، اس یونیورسٹی کے کچھ طالب علم دو سال قبل مجھے 25دسمبر کو قائد اعظمؒ کے یومِ پیدائش پر ہونیوالے ایک سیمینار میں بلانے آئے ، میں نے آنے کا وعدہ کر لیا ، لیکن وہ چند دن بعد منہ لٹکائے ہوئے واپس آئے کہ تقریب کے کمپیئر ’’فیض احمد فیض کے نواسے‘‘ نے آپ کی موجودگی میں کمپیئرنگ کرنے سے انکار کر دیا ہے، اس لیئے یونیورسٹی انتظامیہ نے کہا ہے کہ ہم آپ سے معذرت کر لیں۔میں نے انہیں بتایا کہ مجھے اس بات کا پہلے سے اندازہ تھا، اس لیے کہ چند سال پہلے لاہور کی نہر پر واقع ایک ایسی ہی بڑی پرائیویٹ یونیورسٹی نے مجھے بلوچستان کے موضوع پر بلایا۔ سوال و جواب کیلئے تمام ’’جغادری‘‘ اساتذہ تک کو سامنے لاکر بٹھایا گیا۔ہر طرح کے منفی پراپیگنڈے پر مبنی سوال مجھے سے پوچھے گئے۔ میں نے چونکہ بلوچستان میں چوبیس سال گذارے تھے، اسکے چپے چپے سے واقف تھا اس لیئے میرے جواب ان کی مرضی کے برعکس تھے اور ان کے گھڑے ہوئے جھوٹ بے نقاب ہوئے تھے، اس لیئے دن کے بعد اب تک میں لاہور کی اکثر سیکولر لبرل یونیورسٹیوں میں ایک شجر ممنوعہ ہوں۔ میرے داخلے پر پابندی ہے۔جو لوگ اپنے خلاف میرے جیسے کمزور جسم شخص کی گفتگو تک سننے کی بھی تاب نہ رکھتے ہوں، وہ آج اس بات پر احتجاج کررہے ہیں کہ انہیں ایک ایسی کانفرنس سے روکا گیا جس کا مقصد ہی پاکستان کی رسوائی تھی۔ سیکولر لبرل دانشور خواہ ڈھاکہ یونیورسٹی کا ہو یا لاہور کی کسی جدید پرائیویٹ یونیورسٹی کا ، اس کے اینٹی پاکستان بیانیے کو ڈھاکہ کی سڑکوں پر ’’غزوہ ٔہند‘‘ کے نعروں نے دفن کر دیاہے