بلوچستان کے 13 اضلاع میں 9 ہزار ٹیوب ویل غیرقانونی طور پر چلائے جانے کا انکشاف ہوا ہے جن میں سے سب سے زیادہ 1204 ٹیوب ویل صرف ضلع پشین میں چلائے جا رہے ہیں۔ یہ بات تو بہرحال قرین قیاس ہے کہ بلوچستان میں بہت سے ٹیوب ویلوں کو بجلی کی فراہمی نہ کی جا رہی ہو۔ تاہم اس عدم فراہمی کی کسر غیرقانونی طریقے سے بجلی لے کر پوری نہیں کی جا سکتی اور حیرت کی بات ہے کہ یہ سب کچھ وزارت توانائی کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے۔ اگر یہ غفلت ہے تو اس کی ذمہ دار متعلقہ وزارت ہے اور اگر یہ سب کچھ اس کے نوٹس میں لا کر کیا جا رہا ہے تو یہ جرم ہے جس کی حکومتی سطح پر بازپرس کی جانی چاہئے۔ ملک اس وقت بجلی کی طلب و رسد کے حوالے سے بے شمار مسائل کا شکار ہے۔ ان مسائل پر قابو پانے کیلئے ضروری ہے کہ غیرقانونی طور پر بجلی کے استعمال، بجلی چوری اور لائن لاسز کے ذریعے ہونے والے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس غیرقانونی دھندے کا فوری تدارک کیا جائے تاکہ جو لوگ قانونی طریقے سے ٹیوب ویل چلا رہے ہیں ان کو بجلی کی فراہمی متاثر نہ ہو۔ جو لوگ بجلی کا غیرقانونی استعمال کر رہے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے اور انہیں بجلی کے حصول کے لئے قانونی تقاضے پورے کرنے کا پابند بنایا جائے تاکہ مستقبل میں اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے ساتھ ساتھ بجلی کی رسد کو اس کی طلب کے مطابق کرنے کی کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکے ۔