تحریک اور افراد کے لئے نظرئیے کی پختگی اور عقیدے کی گہرائی سب سے مضبوط ہتھیار ہوتا ہے ۔ اگر کسی جدوجہد کا ہدف نظرئیے سے عاری ہو تو وہ جدوجہد ہر گز عدل پر قائم نہیں رہ سکتی۔ کوئی شخص خواہ کتنا ذہین کیوں نہ وہ اس شعور سے نا بلد ہو تو وہ خود اپنی ہی ذہانت کے جال میں پھنس کر تباہ ہو جاتا ہے،13 جولائی 1931کو سنٹرل جیل سری نگر کے احاطے میں قربان ہونیو الے کشمیر یوںکے پاک نفوس نے اپنے لہو سے واضح طور لوح ایام پر یہ باب رقم کر دیا تھا کہ کشمیر کی تحریک آزادی اپنی فطرت کے اعتبار سے خالصتا ایک نظریاتی تحریک ہے یہ محض ظلم سے نجات یا ایک خطہ زمین کی آزادی کی ہی نہیں بلکہ یہ سچ مچ میں اسلامی فکر و فلسفے کو غالب اور بالادست بنانے کی تحریک ہے ۔ظلم ، جبر اور غصب کی تیرگی میں ان شہدائے کرام نے اپنے لہو سے جو مشعل روشن کی رواں تحریک اسی مشعل کو ہاتھ میں لئے ہوئے اپنے ہدف کو پانے اور اپنی منزل مراد کی جانب گامزن ہے۔ جموںو کشمیر کے قریہ قریہ میں شہداکی جو بستیاں آباد ہو رہی ہیں وہ اسی شہادت و سعادت کاتسلسل ہے ۔مداخلت فی الدین کے خلاف13 جولائی1931کا خونین واقعہ کشمیر کے مسلمانوں کی طویل تحریک آزادی میں فکر و نظر کے اعتبار سے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ فرزندانِ ملت کشمیرنے اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر نہ صرف یہ کہ کشمیرکی جدوجہد کو نیا شعور اور رخ عطا کیا تھا بلکہ آزادی کے اسلامی خدوو خال کو بھی نمایاں کر دیا تھا۔ بیسویں صدی دنیا بھر میں آزادی اور حقِ خود ارادیت کی تحریکوں کے لئے نصرت اور کامرانی کا پیغام اور سامراج کے لئے سندیسہ زوال ثابت ہوئی چین سے الجزائر تک برِصغیر سے افریقی ممالک تک جہاں بہت سے ملک آزادی سے ہمکنار ہوئے وہیں اس دور کی دو عالمی طاقتیں برطانیہ اور روس بھی زوال کا شکار ہو کر سمٹ گئیں اور دنیا بھر میں بیداری کی ان لہروں کے اثرات سے ریاست جموںو کشمیر کا خطہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ کشمیر میں اس وقت ڈوگرہ خاندان کا راج تھا۔ جنہوں نے ریاست جموںو کشمیر کو انگریز سامراج سے چند نانک شاہی ٹکوں کے عوض خرید لیا تھااور یوں ڈوگرہ خاندان ریاست کے عوام کو ذاتی غلام اور کشمیر کے چپے چپے پر اپنی حکمرانی کو ذاتی ملکیت سمجھ رہا تھا۔ چونکہ ریاست جموںو کشمیر کے عوام کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے۔جبکہ حکمران خاندان ہندو تھا۔ جب گردوپیش میں تبدیلیاں آنے لگیں اور ہندوستان میں بھی آزادی کی تحریکیں زور پکڑنے لگیں تو اسلامیانِ کشمیر نے بھی ڈوگرہ حکمرانوں سے زیادہ سے زیادہ سیاسی اور مذہبی حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کی ۔ لیکن متعصب ڈوگرہ حکمران اور ان کے متعصب اہلکار حیلوں بہانوں سے مسلم اکثریت کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی نا پاک جسارت کرتے رہے ۔ اسی دوران ایسی ہی نوعیت کا ایک واقعہ توہین قرآن اور خطبہ عید کی بندش پیش آیا جب نمازِ عید کے موقع پر جموں کے امامِ مسجد فرعون اور موسیٰ کا واقعہ بیان کر رہا تھا تو ڈوگرہ حکومت کے ایک اہلکار نے اس پر احتجاج کیا ۔ڈوگرہ حکمرانوں کی مداخلت فی الدین کیخلاف بڑے پیمانے پرایک عوامی جلسہ خانقاہ معلی سری نگر میں منعقد ہو رہا تھا جس میں تحریک کے کئی اہم راہنما شامل تھے ،کہ اچانک اسٹیج پر ایک نوجوان نمودار ہوا اس نے روایت سے یکسر ہٹ کر تقریر کی اس کے لفظوں میں جوش ولولہ اور عزمِ بغاوت بدرجہ اتم موجود تھا۔وہ کہہ رہا تھا کہ یہ حکمران لاتوں کے بھوت ہیں یہ باتوں سے مسلمانوں کو حقوق نہیں دیں گے ۔ مسلمانو!اٹھو اور ان سے اپنا حق چھین کر حاصل کرو اور اس کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی۔ اس ساحرانہ ، بصیرت آمیز اور فکر انگیز تقریر پر اس نوجوان کو گرفتار کر لیا گیا اور یہ نوجوان عبدالقدیر کے نام سے شناخت ہوا۔اس نوجوان کی شعلہ بیانی سے کشمیرکے عوام میں زبردست جوش و خروش پیداہوا اور ڈوگرہ استبداد کا خوف ان کے دلوں سے نکل رہا تھا ۔ کشمیر میں بیداری کی یہ نئی لہر دیکھ کر ڈوگرہ انتظامیہ نے عبد القدیر کوبغاوت کے مقدمے میں سینٹرل جیل سری نگر پہنچا دیا۔ عبد القدیر کے ساتھ اسلامیانِ کشمیر کی جذباتی وابستگی سے خوف زدہ ہو کر ڈوگرہ حکومت نے عبد القدیر کے مقدمہ بغاوت کی سماعت عدالت کی بجائے سنٹرل جیل سری نگر میں ہی کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس مقدمہ سے اسلامیانِ کشمیر کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ سارا سری نگر شہر سینٹرل جیل کے ارد گرد امنڈآیا۔ اس دوران نمازِ ظہر کا وقت ہوا ۔ عوام کے اندر ایک شخص نے اذان دی اور ہجوم بارگاہ الہی میں سجدہ ریز ہو گیا۔ اس دوران متعصب ڈوگرہ اہلکاروں نے ہجوم پر فائز کھول دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بائیس مسلمان شہید ہو گئے اس ظلم و جبر کے واقعے سے کشمیر کے مسلمانوں میں زبردست اشتعال پھیل گیااور دوسرے روز ہزاروں افراد نے شہداکی تدفین میں شرکت کی ۔ بس یہی کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد کا ٹرننگ پوائنٹ تھا کہ جب ان کی قیادت نے یہ فیصلہ کیا ۔ اب انہیں بہتر روزگار ، ترقی اور خوشحالی جیسے کھوکھلے نعروں سے باہر آکر اور مراعات کی بجائے آزادی کشمیر اور شخصی راج کے خاتمے کے لئے جدوجہد کا آغاز کرنا چاہیے ۔ 13 جولائی 1931ء سے آج تک کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد ابھی جاری ہے ۔ کیونکہ ڈوگرہ استبداد سے نکل کر وہ بھارت کے چنگل میں پھنس گئے۔ شہدائے کشمیر کے 22 رکنی کارواں کی تعداد اس طویل عرصے میںلاکھوں تک پہنچ چکی ہے ۔ کشمیر کی اس عظیم قربانی کو دیکھ کر یہ صاف واضح ہو رہا ہے کہ13جولائی 1931ء میں کشمیر کے ان فرزندانِ ملت نے شہادت کا جام پی کر اس جدوجہد کو کشمیر کی اگلی نسل تک منتقل کر نے کا سامان فراہم کیا تھا ۔ 13 جولائی کو اسلامیانِ کشمیر کیلئے یوم تجدید عہد بھی ہے کہ اسلامیانِ کشمیر اس روز اپنے اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ حالات بدل جائیں، دنیا بدل جائے۔ عدل و انصاف کے اوزان بھی بدل جائیں اورپشت بان پیٹھ پھیر کر بھاگ بھی جائے، اس کے باوجود وہ اللہ تعالی سے کیا ہوا اپنا عہداور اپنا ایمان و ایقان ہر گز بدل نہیں سکتے۔ اپنے پیدائشی حق کے حصول تک وہ آخری دم تک مصروف جدوجہد رہیں گے ،ہر مرحلے پر استقامت کا مظاہرہ کریں گے اور اپنا حوصلہ بلند رکھیں گے۔13جولائی کو شہداکے مرقدوں سے یہ آواز سنائی دیتی ہے کہ فتح بالآخر اس قوم کی ہو گی جو قربانیاں پیش کرنے سے دریغ نہیں کرتی۔ دنیاکی مجرمانہ خاموشی کے باوجودہرسال 13جولائی کواسلامیان کشمیراپنے عزم بالجزم اور پختہ عہد کا اعادہ کرتے ہوئے نہایت کی دبنگ آوازمیں یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ1931ء کے شہدا کے مقدس مشن کی تکمیل کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے اسے اس کے حتمی انجام تک پہنچاکر ہی دم لیں گے۔