امریکہ عمران خان سمیت اب تک تہتر (73) حکمرانوں کے تختے اُلٹ چکا ہے جن میں دو افریقی ممالک کے سربراہ ایسے تھے جن کی مقبولیت کی وجہ سے انہیں قتل بھی کروا دیا گیا۔ ان میں سے ایک کانگو (Congo) کا وزیر اعظم پیٹرس لوممبا (Patrice Lumumba) اور دوسرا تھامس سنکارا، جو بورکینا فاسو (Burkina Faso) کا صدر تھا۔ پیٹرس لوممبا نے تو اپنے ملک کو بیلجئم سے آزادی دلوائی تھی اور وہ جمہوری طریقے سے 24 جون 1960ء کو وزیر اعظم منتخب ہوا، لیکن 5 ستمبر کو اس کی حکومت کا ایک فوجی بغاوت کے ذریعے خاتمہ کر دیا گیا۔ لوممبا اپنی قوم میں اس قدر مقبول تھا کہ اسے برطرف کرنے کے فوراً بعد ہی پورے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ اسے گرفتار کر کے ایک فوجی کیمپ تھائی سیوالی (Thysville) میں رکھا گیا، جہاں اسے کئی دن بھوکا رکھا جاتا اور اس پر تشدد کیا جاتا۔ دُنیا اس سے اس لئے خوفزدہ تھی کیونکہ پورا ملک اس کی کسی ایک دن رہائی پر نظریں لگائے ہوئے مسلسل مظاہرے کر رہا تھا۔ لوممبا کو ایک دن ایک دُور دراز جنگل میں لے جایا گیا، جہاں بیلجئم کے فوجی کانگو کی فوج کے ہمراہ موجود تھے، پولیس کمشنر فرانز دریشورے (Frans Verscheure) کو اسے مارنے کا حکم دیا گیا، جس نے اپنے سپاہیوں کو لوممبا اور اس کے دو ساتھیوں کو درخت کے ساتھ باندھنے کے لئے کہا اور پھر ان پر فائرنگ کروا دی اور یوں 17 جنوری 1961ء رات گیارہ بج کر چالیس منٹ پر انہیں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ عوام کا خوف اس قدر تھا کہ اس کی موت کو چھپایا گیا اور تقریباً ایک ماہ بعد ریڈیو پر یہ خبر نشر کی گئی کہ لوممبا اور اس کے دو ساتھی کچھ عرصہ پہلے جیل سے فرار ہو گئے تھے اور ان بھٹکتے ہوئے راہ گیروں کو کچھ دیہاتیوں نے ڈاکو سمجھ کر قتل کر کے دفن کر دیا۔ لوممبا بیرونی دنیا میں بھی اس قدر مقبول تھا کہ اس کے قتل کے فوراً بعد ہر بڑے شہر میں مظاہرے ہوئے۔ لندن میں لوگ ٹریفلگر اسکوائر (Trafalgar Square) میں جمع ہوئے اور انہوں نے بیلجئم کی ایمبیسی تک جا کر احتجاج کیا جبکہ نیو یارک شہر کے مظاہرین اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے سامنے اکٹھے ہو کر نعرے لگاتے رہے۔ اس کی موت کے بعد اس کے اپنے ملک کانگو میں کئی سال تک امن قائم نہ رہ سکا۔ دوسری شخصیت تھامس سنکارا تھی جسے افریقہ کا ’’چی گویرا‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہ افریقہ کے براعظم کو مغربی طاقتوں کے چنگل سے چھڑانے کا نعرہ لے کر اُٹھا تھا۔ اگرچہ وہ ایک چھوٹے سے ملک کا سربراہ تھا، لیکن اس کی بات میں اس قدر اپیل اور جاذبیت تھی کہ وہ جلد ہی امریکی کارپوریٹ دُنیا کے لئے خطرہ بن گیا۔ اس نے اپنے ملک کے دروازے آئی ایم ایف پر بند کر دیئے اور خودانحصاری کے راستے پر چل نکلا۔ اس ملک میں ہر سال پچاس ہزار بچے خناّق اور زرد بخار سے مرتے تھے لیکن اس نے صحت کی سہولیات اس قدر بڑھائیںکہ ملک بھر میں تمام بیس لاکھ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگا کر انہیں موت سے محفوظ کر لیا۔ اس نے زرعی اصلاحات کیں اور ڈرامائی انداز میں تعلیمی ادارے بنائے جس سے شرح خواندگی بڑھنے لگی۔ اس نے بغیر کسی بیرونی امداد، اپنی زرعی پیداوار میں 75 فیصد اضافہ کر لیا، ایک کروڑ درخت لگا لئے، جابجا ڈیم بنائے، سو کلو میٹر ریلوے لائن بھی بچھائی اور یہ سب کچھ اس نے صرف 3 سال کے عرصہ میں 1983ء سے 1986ء تک مکمل کر لیا اور پھر اسے 15 اکتوبر 1987ء کو ایک فوجی بغاوت کے ذریعے قتل کر دیا گیا۔ افریقہ کے یہ دونوں لیڈر گزشتہ چند دہائیوں میں اُبھرے اور امریکی سی آئی اے کی ’’رجیم چینج‘‘ پالیسی کے تحت قتل کر دیئے گئے۔ ایسے عظیم لیڈروں کا خلا کبھی پُر نہیں ہو سکتا، لیکن وہ اپنی قربانی سے ایسی مشعل ضرور روشن کرتے ہیں جس سے جا بجا چراغ روشن ہونے لگتے ہیں۔ افریقہ میں بھی ایسا ہی ایک چراغ روشن ہوا ہے جس کی تقریریں اور مضامین عالمی استعماری دنیا کے ظلم کا پردہ چاک کرتی ہیں اور اس کی شعلہ بیانی جہاں کروڑوں افریقیوں کا لہو گرماتی ہے وہیں امریکی اور عالمی استعمار کو خوفزدہ بھی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شخص کو سیاسی اور سرکاری کیریئر سے ہمیشہ دُور رکھا گیا ہے۔ یہ شخص پیٹرک لوچ اوٹینو لوممبا (Patrich Loch Oteno Lummba) ہے جسے عرفِ عام میں پی ایل او لوممبا کہتے ہیں۔ اس شخص کا تعلق ایک سابقہ برطانوی کالونی کینیا سے ہے۔ یہ شخص خود کو پیٹرس لوممبا اور تھامس سنکارا سے متاثر قرار دیتا ہے اور ان دونوں کے نظریات پر دُھواں دار تقریریں کرتا ہے۔ بنیادی طور پر ایک قانون دان ہے، جس نے بیلجئم سے قانون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ کینیا کی حکومت نے اسے ستمبر 2010ء میں اینٹی کرپشن کمیشن کا ڈائریکٹر لگایا، لیکن جب اس نے اصل بددیانت اور کرپٹ لوگوں پر ہاتھ ڈالنا شروع کیا تو اسے گیارہ ماہ بعد ہی اگست 2017ء میں نکال دیا گیا۔ وہ اس وقت کینیا کے سکول آف لاء کا ڈائریکٹر ہے اور اپنی تقریروں سے عالمی طاقتوں کے ایوانوں میں زلزلہ پیدا کرتا ہے۔ اس کی اس تقریر کے اقتباسات پڑھئے اور سوچئے کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے کیا ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ بھی نہیں بیت رہا۔ لوممبا نے کہا : ’’سوال یہ ہے کہ آپ اپنے بچوں کو کس قسم کا ملک دینا چاہتے ہیں۔ یہ میرا آپ کا مسئلہ نہیں، یہ آنے والی نسل کا مسئلہ ہے۔ جیسے ہی ہم اپنے لیڈروں کو منتخب کرتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں ان سے ملنے کے لئے مغربی دُنیا کے بڑے بڑے لوگ آنا شروع ہو جائیں گے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ بل گیٹس آیا ہے اور آپ کے صدر سے ملا ہے، ٹونی بلیئر آیا، میکرون آیا، سب آئے اور انہوں نے ہمارے رہنمائوں سے ایک بات کہی کہ اگر تم اپنی زراعت یا ترقی کے لئے پیسے چاہتے ہو تو پھر اس ’’قسم‘‘ کا روّیہ اختیارکرو جو ہم چاہتے ہیں۔ وہ اس طرح کا مطالبہ چین سے نہیں کریں گے، بھارت ، ویت نام اور کوریا سے نہیں کرتے لیکن وہ افریقی ممالک سے ایسا مطالبہ ضرور کرتے ہیں۔ آج ہمارے ملک میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف واپس آ چکا ہے۔ وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ تم نے یونیورسٹیوں میں کس طرح کے اُستاد رکھنے ہیں، کیا چیز بیچنی ہے اور کیا نہیں بیچنی ہے۔ یہ ایک خوفناک صورتِ حال ہے۔ افریقہ پر نظر دوڑائو، یہاں چینی آ رہے ہیں، امریکی، فرانسیسی، عرب سب آ رہے ہیں۔ ہم ان کو پہچانتے تک نہیں لیکن یہ سب لوگ ہمیں کنٹرول کرتے ہیں۔ ہمیں ترقی کرنے کے لئے بہت کچھ کرنا ہے۔ اس براعظم نے ثابت کر کے دکھایا ہے کہ ہم ان عالمی طاقتوں کی مدد کے بغیر بھی ترقی کر سکتے ہیں، لیکن یہ ہمیں باہر سے آ کر بتاتے ہیں کہ ہمارے ہاں ان کی مدد کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی، جیسے انہوں نے روانڈا میں کیا اور پھر اسے برباد کر دیا۔ انہوں نے پورے افریقہ کو 55 فون کوڈز میں تقسیم کر رکھا ہے تاکہ وہ ہمیں ایک دوسرے سے علیحدہ کریں۔ اگر تمام افریقہ کے ممالک اپنا ایک ہی ٹیلی فون کوڈ اور سسٹم کرنے کا اعلان کر دیں تو اس چھوٹی سی بات پر بھی یہ لوگ ہم پر جنگ مسلّط کر دیں گے‘‘۔ لوممبا کی ایسی لاتعداد تقریریں ہیں جس میں وہ تنبیہہ کرتا ہے کہ اگر تم نے ترقی کرنی ہے تو اپنے ان مقبول لیڈروں کی زندگیوں کو بچائو جو تم سے مخلص بھی ہیں اور مغربی استعمار کے خلاف بھی ہیں اور جنہیں ان کی قومیں شدت سے پسند کرتی ہیں۔ عمران خان پر قاتلانہ حملے کا سوچتا ہوں تو لوممبا کی تقریریں یاد آتی ہیںاور ساتھ ہی سی آئی اے کی خوفناک مہم جوئی بھی ذہن میں آتی ہے۔ لیکن میرا اللہ ان سب سے بالاترہے جو ان کی تدبیروں کو ناکام بنا سکتا ہے۔