علمائے دین اپنی فطرت، سرشت اور مزاج میں سر تا سر انسان ہی ہوتے ہیں۔ ان میں بھی بیوقوف اور سمجھدار پائے جاتے ہیں۔ وہ غلطیاں بھی ایک چھابڑی والے کی طرح ہی کرتے ہیں۔ اور ایک عام آدمی کی طرح ہی ان سے گناہ بھی سرزد ہوتے ہیں۔ اگر کچھ اعلیٰ ہے تو وہ ان کی ذمہ داریاں ہیں۔ جب ان میں سے کوئی یہ ذمہ داریاں پوری دیانت سے سر انجام دیتا ہے تو جو اجر اسے ملتا ہے وہ بھی اعلیٰ ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنی ذمہ داریاں پوری دیانت سے سر انجام دیتا ہے اور ساتھ ہی اس سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے اور اسے اپنی غلطی کا احساس بھی ہو تو معاشرے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کی عالی خدمات کے سبب یہ سوچ کر اس کی غلطی کو در گزرکردے کہ ہے تو یہ بھی ہماری طرح خطاء کا ایک پتلا ہی لیکن اس کی خدمات دین کی نسبت سے گراں قدر ہیں۔ اگر کسی شخص نے ڈگری تو عالم کی لے رکھی ہے مگر اپنے کام میں سودا سلف میں ملاوٹ کرنے والے کی طرح دو نمبریاں کرتا ہے تو اس کی خدمات عالی نہیں۔ لہٰذا اسے کوئی رعایت بھی نہیں دی جا سکتی۔ اس کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہئے جو ملاوٹ کرنے والے دکاندار کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس کی ڈگری کی کوئی اہمیت نہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بھی اجر عمل اور خدمات پر رکھا ہے ڈگری پر نہیں اور ہم بھی انہیں مقام و منزلت خدمات کے نتیجے میں دیں گے، ڈگری کی بنیاد پر نہیں۔ ایک دیانتدار ترین عالم دین سے بھی غلطی، خطاء اور گناہ سرزد ہو سکتے ہیں۔ گناہ صرف مقدس ہستیوں سے سرزد نہیں ہوتے جو انبیاء اور فرشتے ہیں۔ مشکل تب پیش آتی ہے جب کوئی "طبقہِ علماء " کو بھی مقدس قرار دے دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ پھر ان کی غلطیوں کو اچھالتے پھرتے ہیں اور کہتے ہیں آپ نے یہ غلطی اور گناہ کر کیسے دیا آپ تو مقدس تھے ؟۔ بطور فرد اپنی تقدیس کا یہ تصور آگے بڑھ کر بطور مکتب فکر اپنی عظمت کے اعلان تک چلا جاتا ہے جس کے مہلک نتائج نکلتے ہیں۔ یہ نتائج اپنی عظمت منوانے کے لئے ہونے والے مناظروں، تذلیل اور تشدد کی صورت سامنے آتے ہیں۔مذہبی موضوعات پر مناظروں اور تشدد کی بنیاد معتزلہ نے ڈالی تھی۔ مامون الرشید کے دور میں شروع ہونے والا تشدد پھر کبھی رک نہ سکا۔ اس کی ابتدا معتزلہ اور اہل سنت و الجماعت کی کشمکش سے ہوئی۔ اگلے مرحلے میں یہ چیزیں مالکی، حنفی، شافعی و حنبلی فقہوں کے پیرو کاروں میں آئیں۔ اور آج کی تاریخ میں مامون الرشید کے دور سے شروع ہونے والا تشدد اب ایک ہی مکتبہ فکر کو باہم لڑانے کی قدرت حاصل کر چکا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایک دوسرے کو گمراہ کہنے والے دو کوئی بھی دو مکاتب فکر جب یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی نیا خیال مارکیٹ میں آگیا ہے تو دونوں ایک دوسرے کا گریبان چھوڑ کر ہاتھ میں ہاتھ میں ہاتھ ڈال لیتے ہیں اور کورس کی صورت اس نئے خیال کے خلاف یک زباں ہوجاتے ہیں۔ اب یہ نئی رائے پیش کرنے والے کے لئے وہی الفاظ اور وہی فتوے استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں جو ابھی کچھ ہی دیر قبل ایک دوسرے کے لئے کر رہے تھے اور پھر جوں ہی اس نئی رائے کے جملے کی تری ختم ہوتی ہے یہ ایک بار پھر بچوں کی طرح ایک دوسرے کی جانب متوجہ ہو جاتے ہیں اور گویا کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تشدد کا یہ جن بوتل سے باہر آتا کیسے ہے ؟ اس کی ابتدا اپنی عظمت کے خیال سے ہوتی ہے۔ عظمت اپنے وجود کے لئے ذلت کے وجود کی محتاج ہے۔ اگر ذلت نہ ہو تو "عظمت" ایک بے معنیٰ اجنبی لفظ ہو کر رہ جائے۔ جب ہم اپنی عظمت کے قائل ہوتے ہیں تو لازما اپنے قرب و جوار میں کسی کی تذلیل کے بھی قائل ہو رہے ہوتے ہیں اور جس کی تذلیل کے قائل ہوتے ہیں، پہلے اسے حقارت سے دیکھتے ہیں اور پھر اسی جذبے کے ساتھ اس سے پیش آنے لگتے ہیں۔ اس فتنے سے بچانے کے لئے ہمارے پاس ایک شاندار نسخہ ہے۔ "العظمت ا للہ" چیخ چیخ کر ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ عظمت صرف اللہ کی ہے لیکن کوئی بھی اس آواز پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ ہر ایک اپنی اپنی عظمت کا جھنڈا لئے مخالف پر پہلے لفظی، پھر دستی اور آخر میں بارودی حملہ کر ڈالتا ہے۔ اگر آپ "العظمت ا للہ" کے قائل ہوجائیں تو اپنے "احقر" ہونے کے احساس سے آپ کا وجود بھر جائے گا۔ اور یہ طاقتور احساس خود بخود آپ کو دوسروں کی تذلیل اور ان کے قتل سے روک دے گا۔ علمی بنیاد پر مختلف مکاتب فکر کا وجود میں آجانا غلط نہیں بلکہ عین فطری ہے۔ سائنس علم کی ایک اہم شاخ ہے۔ کیا اس میں کئی مکاتب فکر نہیں ہیں ؟ پھر سائنس کی بھی صرف طب والی شاخ میں چھ بڑے مکاتب فکر نہیں ہیں ؟ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ سائنس اور طب میں مختلف مکاتب فکر معیوب نہیں ہیں، لیکن مذہبی علوم میں یہ اس وقت معیوب ہی نہیں بلکہ شدید نفرت کی نگاہ سے دیکھے جا رہے ہیں، کیوں ؟ اس لئے کہ طب کے چھ مکاتب فکر ایک دوسرے کا گریبان نہیں پھاڑ رہے بلکہ ایلو پیتھی میں معدے کا ڈاکٹر مریض کے کان میں خاموشی سے سرگوشی کردیتا ہے کہ "صاحب ! کسی اچھے ہومیو ڈاکٹر یا حکیم سے رجوع کر لیجئے ورنہ ہمارے ہاں تو مستقل دوائیں کھانی پڑینگی" آپ جس مکتب فکر کے بھی ہیں، جب تک آپ کو اپنا وہاں ہونا درست لگتا ہے شوق سے رہئے۔ؒ یہ مکاتب فکر آپ نے اللہ کے لئے اختیار کئے ہیں تو ہم میں سے کوئی کون ہوتا ہوں اس پر اعتراض کرنے والا ؟ آپ درست تھے یا غلط اس کا فیصلہ اللہ ہی محشر میں فرما دینگے۔ یہاں ایک دوسرے کی بھلائی کے جذبے سے بس باہم علمی گفتگو ہونی چاہئے۔ ایسی گفتگو جسے سن کر گزرتا اجنبی کم از کم اس نتیجے پر تو پہنچے کہ آپ شریف آدمی ہیں۔ صورتحال تو یہ ہوگئی ہے کہ اپنی عظمت اور تقدیس کے قائل شرفا کی زبان تک ترک کر چکے، اور پھر پوچھتے ہیں لوگ دین بیزار کیوں ہو رہے ہیں ؟