تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر خان ترین نے لودھراں میں کہا ہے کہ ’’وزیراعلیٰ عثمان خان بزدار بلا تاخیر سب سول سیکرٹریٹ کا قیام عمل میں لائیں ۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ میں اور شاہ محمود قریشی ملتان کو سب سول سیکرٹریٹ کے حق میں ہیں ۔ مگر اس مسئلے کو ایک عرصہ سے لٹکا دیا گیا ہے جہاں بھی سیکرٹریٹ بنانا ہے فوری طور پر عثمان بزدار کو کہتا ہوں کہ سیکرٹریٹ بنائیں ۔ ‘‘ کچھ حلقے سمجھ رہے تھے کہ جہانگیر ترین صوبے اور سب سول سیکرٹریٹ کے قیام میں رکاوٹ ہیں ۔ جہانگیر ترین نے اچھا کیا کہ اپنی پوزیشن واضح کر دی کہ وہ قطعی طور پر رکاوٹ نہیں ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف اپنا وعدہ پورا کرے اور وسیب کے کروڑوں لوگوں کو ریلیف ملے ۔سب سول سیکرٹریٹ کے حوالے سے ہم بار بار کہتے آ رہے ہیں کہ سیکرٹریٹ کسی بھی لحاظ سے صوبے کا متبادل نہیں ۔ تحریک انصاف نے سرائیکی وسیب سے سب سول سیکرٹریٹ کا نہیں صوبے کا وعدہ کر رکھا ہے تو حکومت کو فوری طور پر اس بارے اقدامات کرنے ہونگے ۔ جہانگیر ترین اور وسیب کے دوسرے سیاستدان کی توجہ ایک اور مسئلے کی طرف مبذول کراؤں گا ۔ صوبے کی راہ میں مختلف فورم کی جانب سے غیر ضروری رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں ۔ ایک وقت تھا کہ چھوٹے صوبوں کی طرف سے سرائیکی صوبے کی حمایت کی جاتی تھی اور کہا جاتا تھا کہ سرائیکی صوبہ پاکستان کی ضرورت ہے ۔ اس سے وفاق پاکستان متوازن ہوگا ، چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی ختم ہوگا ۔ اس سلسلے میں 1998ء میں پونم بنائی گئی ۔ اس کے بانی پختون رہنما اجمل خٹک تھے ، پونم کا مرکزی مطالبہ سرائیکی صوبے کا قیام تھا ۔ پونم میں سندھ ، بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کی قوم پرست جماعتیں شامل تھیں ، پونم کے قائدین میں عطا اللہ مینگل ، محمود اچکزئی ، رسول بخش پلیجو، ڈاکٹر قادر مگسی ، جلال محمود شاہ ، بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ، عبدالمجید کانجو ، حمید اصغر شاہین اور بہت سے دیگر رہنما شامل تھے ۔ پونم نے کئی سالوں تک سیاسی کام کیا اور چھوٹے صوبوں اور مظلوم قوموں کے حقوق کے ساتھ ساتھ سرائیکی صوبے کی تحریک کو آگے بڑھایا ۔ کچھ عرصے سے بعض قوم پرست رہنماوں کی جانب سے وسیب کی حمایت کی بجائے ایسی باتیں سامنے آ رہی ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے کہ نہ جانے یہ کس کی بولی بول رہے ہیں ؟ یہ ٹھیک ہے کہ مخالفت کرنے والوں کی تعداد چند ایک ہے مگر حیرانی ہوتی ہے کہ بلوچستان میں سرائیکی مزدوروں کو قتل کیا گیا تو وہ لوگ جن کی ہر موقع پر سرائیکی وسیب کی طرف سے بھرپور حمایت کی گئی نے مذمت یا تعزیت کرنا تک گوارا نہ کیا ۔ جب سے موجودہ حکومت بر سر اقتدار آئی ہے اور عثمان بزدار پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے ہیں تو وسیب کے خلاف کاروائیاں تیز کر دی گئی ہیں ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کی طرف سے تونسہ میں جلسے کا اشتہار شائع ہوا ہے ، تاریخ 15 دسمبر 2019ء ہے ۔ جلسہ کا محض نام ہے ، ایک شوشہ چھوڑا گیا ہے جس میں لکھا گیا ہے ’’ راجن ، جیکب ،ڈی جی خان بلوچستان بلوچستان ‘‘۔ اس میں اختر مینگل کا مقولہ درج ہے کہ ’’ راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کی بلوچستان کیلئے وہی اہمیت ہے جو ہمارے جسم میں روح کی ہوتی ہے ۔ ‘‘ سینیٹر جہانزیب جمالدینی کا مقولہ بھی درج ہے کہ ’’ راجن پور، ڈیرہ غازی خان کے بغیر بلوچستان کی تصویر بن ہی نہیں سکتی ۔ ‘‘ ثنا بلوچ ایم پی اے بلوچستان کا مقولہ بھی ہے کہ ’’ کوہ سلیمان ،ڈیرہ غازی خان ہمارے لئے مقدس جگہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ‘‘ میرا سوال یہ ہے کہ مینگل صاحب پونم کے سربراہ رہے ، اس وقت ان کو یہ خیال کیوں نہ آیا کہ یہ علاقے بلوچستان کا حصہ ہیں ؟ کسی کے کہنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا ۔ سرائیکی وسیب کے پااس کھونے کو کچھ نہیں ، ان کے پاس اپنا صوبہ اور اپنا اختیار بھی چھینا ہوا ہے لیکن جو نئے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں اس سے محکوم قوموں کا اتحاد متاثر تو ہو سکتاہے ، مظلوم قوموں کی جدوجہد کو نقصان تو ہو سکتا ہے لیکن حقائق کبھی تبدیل نہیں ہو سکتے ۔ یہ حقیقت ہے کہ تمام بلوچ مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بلوچ عرب اور ایران سے آئے ، ان کا یہ وطن نہیں ہے ، جبکہ سرائیکی سندھی براہوی ، ہندکو قومیں ہزار ہا سالوں سے اس خطے میں بس رہی ہیں ۔ صدیوں سے بلوچستان کے سرداروں نے وہاں کے غریبوں کو کچل کر رکھ دیا ہے، یہ لوگ قدم قدم پر ان کا استحصال کرتے ہیں ، اکیسویں صدی میں بھی ان کو بنیادی انسانی حقوق مہیا نہیں، جبکہ یہی سردار غریبوں کے خون پسینے کی کمائی سے انگلینڈ تک کے عیش کدوں کو داد دیتے نظر آتے ہیں ۔ توسیع پسندی کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کو خود توسیع پسند نہیں بننا چاہئے اور اپنے صوبے کے غریبوں کے مسئلے حل کرنے چاہئیں ۔ سرائیکی وسیب کے خلاف جتنی سازشیں کی جائیں گی ، وسیب کی تحریک اتنی مضبوط ہوگی اور وسیب کے لوگ اتنے ہی ایک دوسرے کے قریب آئیں گے ۔ سرائیکی وسیب کو فخر ہے کہ انہوں نے ہر آنے والے کو اپنے سینے سے لگایا ، صرف پناہ ہی نہیں احترام بھی دیا ، جاگیریں بھی دیں اور وہ اس طرح وسیب کا حصہ ہوگئے کہ آج ہزار سازشوں ، ہزار کوششوں کے باوجود وسیب میں بسنے والے تمام لوگ ایک ہیں اور ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ۔ آج سرائیکی وسیب میں بسنے والے سرائیکی زبان ، ثقافت اور ادب کیلئے دن رات کام کر رہے ہیں ،اس میں سب سے زیادہ حصہ باہر سے آنے والوں کا ہے ۔ زبان کا تعلق زمین سے ہوتا ہے ، یہ عالمی اصول ہے کہ جو بندہ جس دھرتی پر جاتا ہے اسکا حصہ بن جاتا ہے ۔ یہ فطرت کا اصول ہے ، فطرت کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں بدل سکتی ۔ میں اتنا کہوں گا کہ تضادات پیدا کرنے کی بجائے محکوم اقوام کے حقوق کیلئے جدوجہد ہونے چاہئے ۔ ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومت نے بلوچستان میں اچھا کام کیا کہ بلوچستان میں دوسری زبانون کے ساتھ ساتھ سرائیکی بولنے والے اضلاع کو بھی ماں بولی میں تعلیم کا حق دیا ۔ اب جس طرح چند عاقبت نا اندیش سرائیکی وسیب میں کبھی محمد علی درانی کی شکل میں ، کبھی طارق بشیر چیمہ کی شکل میں اور کبھی مینگل کی شکل میں تضادات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو ان کو اسی طرح کا جواب دینا بہت چھوٹی بات ہے، البتہ میں ان کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ سرائیکی وسیب میں بسنے والے تمام لوگ ایک ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت ان کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتی ۔کہ خواجہ فرید نے فرمایا ہے : ہک ہے ہک ہے ہک ہے ہک دی دم دم سک ہے