لکھاری اور قاری کے درمیان ایک اٹوٹ انگ موجود ہے۔ ایک نہ ختم ہونے والا رشتہ۔ دونوں ایک دوسرے کے بنا مکمل نہیں۔! یہ رشتہ ایسا ہی ہے جیسے بارش کا تعلق خشک زمین سے۔ میگھ ملیار برستی ہے تو پانی کے قطروں کو جذب کرنے کے لئے زمین اپنی بانہیں وا کر دیتی ہے۔ لکھاری اور قاری کے درمیان بھی ایک ایسا ہی تعلق ہے۔ امریکی ناول نگار جان چیوّر نے بھی کیا خوب بات کہی کہ I can`t write without a reader it is precisely like a kiss. you cannot do it alone اگر میرے قارئین نہ ہوں تو میں لکھ نہیں سکتا لکھنا بھی بوسہ لینے جیسا کام ہے آپ اکیلے نہیں کر سکتے۔ بوسہ لینے کے لئے بھی کسی پیشانی کسی لب و رخسار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے ہی لکھاری کو قاری کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ صرف لکھاری کے لئے نہیں بلکہ کسی بھی تخلیق کار کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تخلیق کو سراہنے والے اور چاہنے والے۔ تعریف اور تنقید کرنے والے موجود ہوں۔ایک موسیقار کو اپنے تخلیقی عمل کو مکمل کرنے کے لئے سماعتوں کی ضرورت ہوتی ہے‘ ایک مصور‘ رنگوں سے کینوس پر تصویر بناتا ہے تو اس تصویر کے رنگ اس وقت تک پھیکے پڑے رہتے ہیں جب تک ان رنگوں کے رمز کو سمجھنے والی نگاہ اس پر نہیں پڑتی۔ یہ بھی حسن اور عشق کے تعلق والا معاملہ ہے۔ حسن بھی محبوب کی نگاہ کی آنچ سے دیکھتا ہے۔ عشق نہ ہو تو حسن بھی بے قدرو قیمت ہے۔ لکھنے والے کے لئے بھی قاری کی اہمیت ایسی ہی۔ خواہ وہ شاعر ہوا کہانی کار۔ ناول کے جہان آباد کرتا ہو۔ یا پھر ایک کالم نگار ہو۔ حرف و لفظ سے تصویریں بنانے والا ہر تخلیق کار خواہش رکھتا ہے کہ اسے ایسے قارئین کا ساتھ میسر آئے جو اس کے لکھے ہوئے فن پارے کو اسی کی فریکونسی پر آ کر پڑھیں اورلکھتے ہوئے وہ جس تجربے سے گزرا ہے۔ قاری بھی اس تجربے کی آنچ کو اپنے دل میں محسوس کریں۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی کہ پڑھنا یعنی ریڈنگ باقاعدہ ریڈنگ سکل(Reading Skill) کے طور پر پڑھایا جاتا ہے اور مجھے بھی اس کا پتہ اس وقت چلا جب ایم اے ٹیفل لنگوسٹکس کے پارٹ(2) میں ریڈنگ سکل یعنی پڑھنے کا ہنر پر مضمون نصاب کا حصہ تھا اس میں ہم نے وہ ریسرچ پڑھی جس کی ہمیں خبر ہی نہ تھی کہ پڑھنا بھی باقاعدہ ایک تخلیقی عمل ہے اور ایک قاری جب کوئی تحریر پڑھتا ہے تو اس تحریر کو اپنی سمجھ‘ اپنے پس منظر اور اپنے تجربات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے‘ ایک سطح پر یہ بھی ایک تخلیقی عمل ہے۔ اسی طرح ایک ہی تحریر کو جب مختلف پس منظر رکھنے والے قاری پڑھتے ہیں تو دونوں کا تجربہ اور اس تحریر کے متعلق ان کی پرسیپشن مختلف ہوتی ہے۔ کیونکہ دونوں اپنی اپنی زندگی اور تجربے کے آئینے سے اس تحریر کو پڑھتے ہیں۔ چونکہ پڑھنے کا عمل ایک ایسا ہنر ہے جس میں قاری تحریر پڑھتے ہوئے لکھاری کے تخلیقی عمل میں شریک ہو جاتا ہے اور جب دونوں کی فریکوینسی مل جاتی ہے تو پھر لکھاری اس قاری کو آسانی سے رلا سکتا ہے۔ ہنسا سکتا ہے اداس کر سکتا ہے۔ تحریک دے سکتا ہے۔ امید دلا سکتا ہے۔ اسے ہی تحریر کی طاقت کہتے ہیں۔ کبھی کوئی تحریر آپ پر ایسا جادو کر دیتی ہے کہ آپ تادیر کچھ اور پڑھ نہیں سکتے۔ یا پھر کہ اس تحریر کا طلسم آپ پر ایسے حاوی ہو جاتا ہے کہ آپ اس سے آسانی سے باہر نہیں نکل سکتے بعض تحریریں ایسی شاندار اور سحر انگیز ہوتی ہیں کہ تحریر پڑھنے کے بعد قاری لکھاری کے زاویہ نگاہ سے ہی زندگی کو دیکھنے لگتا ہے اور تحریر کچھ وقت کے لیے قاری کو اپنی بھول بھلیوں میں گم کر دیتی ہے۔ کچھ سال پیشتر تک جب میں ایک طالبہ اور صرف ایک قاری تھی تو نامور لکھاریوں کو پڑھتے ہوئے‘ اسی انداز میں سوچنے لگتی۔ اپنے آس پاس کی چیزوں کو اور زندگی کو اسی آئینے سے دیکھنے لگتی۔ مستنصر حسین تارڑ‘ بانو قدسیہ‘ افضل توصیف‘ امرتا پریتم‘ منو بھائی‘ اشفاق احمد‘ اے حمید‘ امجداسلام امجد‘ احمد ندیم قاسمی‘ افتخار عارف اور ایک لمبی فہرست ہے۔ ان عظیم لکھاریوں کو پڑھتے پڑھتے ایسے لگتا کہ ان سے ہمارا بہت قدیم‘ بہت گہرا تعلق ہے۔حرف و لفظ کے وسیلے سے ایک مقدس رشتہ ہے میرا بطورو قاری ان لکھاریوں کے ساتھ اور ایک ذہنی قربت کا تعلق ہے۔ پھر بعد کے برسوں میں جب میں صحافت میں آئی۔ بہت سے پسندیدہ لکھاریوں سے ملی۔ تو احساس ہوا قاری پسندیدہ لکھاری کو بہت اپنا محسوس ہے ایک اپنائیت کے رشتے میں بندھا ہوتا ہے اگرچہ لکھاری کے لئے وہ قاری ایک اجنبی ہی ہوتا ہے لیکن قاری بالکل مختلف انداز میں اپنے پسندیدہ مصنفین کے لئے محسوس کر رہا ہوتا ہے۔ میرا آج کا یہ کالم بھی میرے ان تمام محترم اور عزیز قارئین کے نام ہے جومیرے ساتھ میرے حرف و لفظ کے وسیلے سے بندھے ہیں۔ جو میری تحریر پڑھتے ہیں پسند کرتے ہیں۔ کچھ روز نہ لکھ پائوں تو میری غیر حاضری کو محسوس کرتے ہیں اور اس کا اندازہ مجھے ان دنوں میں ہواجب میں تین ہفتوں کے لئے امریکہ گئی تھی اور کالموں میں ناگزیر وجوہات کی بنا پر ایک لمبا وقفہ آیا تھا۔ مجھے میرے قاری ایل میل کرتے رہے کہ کالم کیوں نہیں آیا۔ گزشتہ دنوں میں نے ’’سعی لاحاصل‘‘ کے نام سے کالم لکھا جو اس خیال کی گرفت میں لکھا گیا کہ لکھنے سے کیا بدلتا ہے۔ سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ اس کالم کے جواب میں مجھے قارئین کی بہت سی ای میلز موصول ہوئیں جس نے مجھے بطور کالم نگار جہاں ایک نئی توانائی اور حوصلہ دیا وہیں میرے اندر ذمہ داری کے احساس کو اور بڑھا دیا کہ ہمارے لکھے ہوئے لفظ ہمارے قارئین کے دلوں کو کس کس انداز میں چھوتے ہیں۔ کبھی رلاتے ہیں‘ کبھی ہنساتے ہیں کبھی تاریکی میں دیا جلاتے ہیں۔ میں اپنے ایک قاری سجاد حسین شاہ کی ای میلز کا تذکرہ ضرورکروں جسے پڑھ کر میری آنکھیں بھر آئیں۔ ای میل طویل ہے صرف آخری دو لائنیں لکھوں گی۔‘‘آپ کی تحریر سے ہمارے بے پناہ جذبات کی تائید حاصل ہوتی ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ شاید ہماری طرف سے بھی واجب کفائی ادا ہو گیا۔ آپ نے تھکنا نہیں‘ رکنا نہیں اور مایوس نہیں ہونا آپ ہمارے جذبات کی بہترین اور قابل قدر ترجمان ہیں‘‘ سچ کہتے ہیں کہ لکھاری اور قاری کے درمیان حرف و لفظ کے وسیلے سے ایک مضبوط رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ میرے لئے میرے قاری میرا قابل قدر اثاثہ ہیں!