اندلس میں‘ قرطبہ میں‘ مسجد قرطبہ میں‘ پاکستانی عمر رسیدہ سیاح خواتین اور ان میں کچھ کے ہاتھوں میں ’’اندلس میں اجنبی‘‘ جس کے ورق پلٹ پلٹ کر پڑھتی تھیں کہ اس تارڑ نے مسجد قرطبہ کے ستونوں کے بارے میں کیا لکھا ہے۔ جب ان میں سے ایک نے میری بیگم سے دریافت کیا جبکہ وہ نہ جانتی تھی کہ وہ میری بیگم ہے۔ پوچھا کہ کیا آپ نے تارڑ کی یہ کتاب پڑھی ہے تو میمونہ بیگم نے ناک چڑھا کر کہا تھا۔ یہ تارڑ میرا خاوند ہے اور اس نے زبردستی مجھے یہ پوری کتاب پڑھ کر سنائی تھی یہاں تک کہ میرے کانوں کے پردوں کے پانی سوکھ گئے اور میں بہری ہو گئی۔ در اصل میں یہ کالم اندلس کے مشہور شاعر فریڈریکو گارسیا لورکا کی یاد میں لکھ رہا ہوں۔ میں نے ’’اندلس میں اجنبی‘‘ لکھتے ہوئے لورکا کو سرسری طور پر پڑھا تھا اس کی شاعری میں سے صرف قرطبہ اور اشبیلیہ کے حوالے نقل کر کے اپنی تحریر کو پروقار کرنے کے لیے شامل کرلیے تھے۔ پچھلے دنوں یہ محض اتفاق ہے کہ لورکا کی مکمل شاعری اور اس کے ڈرامے ’’دے بلڈ ویڈنگ‘‘ کا تا زہ ترین ترجمہ میرے نصیب میں آ گیا او ریہ باکمال ترجمہ سارہ آرویو کی برسوں کی تحقیق اور عرق ریزی کا نتیجہ تھا۔ یقین مانئے پچھلے تین ہفتے میں نے لورکا کی شاعری کے ساتھ بسر کئے۔ میں ایک مرتبہ پھر قرطبہ‘ غرناطہ اور اشبیلیہ میں پہنچ گیا۔ جہاں انگور کی بیلوں میں پوشیدہ فوارے ابلتے تھے۔ چاندنی راتوں میں غرناطہ کے گرد سیرا نوادر کی برفیں مدھم مدھم لو دیتی تھیں۔ الحمرا کے ایوانوں کے اجاڑ پن میں بڑی بڑی پگڑیوں والے‘ شاہانہ لبادوں والے سلطان آہیں بھرتے تھے۔ پورے تین ہفتے میں لورکا کی شعری سلطنت کا غلام رہا۔ ’’اندلس میں اجنبی‘‘ کے ایک باب کا عنوان لورکا کی ایک نظم سے مستعار لیا گیا۔ ’’قرطبہ دور افتادہ اور تنہا‘‘ جن دنوں غرناطہ کی شامیں موسیقار فالد کی دلنواز دھنوں سے گونجتی تھیں‘ ایک نوجوان شاعر دوستوں کی محفل میں اپنی ابتدائی نظمیں سنایا کرتا تھا۔ لورکا کے لیے ایک خانہ بدوش‘ ایک خنجر اور ایک گھڑ سوار میں اتنا ہی شمری رومان نظر آتا تھا جتنا کہ عوام کو کچل دینے والی فرانکو کی پولیس گارڈیا سول میں دکھائی دیتا تھا۔ اس کی نظریں اگرچہ نرم مزاج اور رومانوی ہیں لیکن ان کے بطن سے خون کے فوارے یوں چھوٹتے ہیں جیسے اس کے خانہ بدوش کردار انتونیو کے بدن میں گھونپے خنجر سے پانچ فوارے۔ قرطبہ دور افتادہ اور تنہا میں ایک سیاہ خچر پر سوار ہوں میرے تھیلے میں چند زیتون ہیں اور آسمان پر پورا چاند اگرچہ یہ راستے میرے دیکھے بھالے ہیں لیکن میں کبھی قرطبہ نہیں پہنچ پائوں گا میدانوں میں سے‘ ہوائوں کو چیرتا سیاہ خچر اور سرخ چاند موت مجھے اپنی نگاہ میں رکھے ہوئے ہے مجھے دیکھ رہی ہے قرطبہ کے میناروں سے آہ یہ طویل راستے‘ آہ یہ میرا بہادر خچر آہ! انجام یہ کہ موت میری منتظر ہو اس سے پیشتر کہ میں قرطبہ پہنچوں قرطبہ… دور افتادہ اور تنہا لورکا کی المناک پیش گوئی درست ثابت ہوئی‘ وہ قرطبہ نہ پہنچ سکا‘ موت اس پر نظریں جمائے دیکھ رہی تھی‘ آدھی رات کی دستک‘ فرانکوکے گارڈیا سول اسے گرفتار کر کے لے جاتے ہیں‘ اس پر الزام ہے ایک کمیونسٹ ہونے کا‘ ریاست سے بغاوت کا‘ ایک ہم جنس پرست ہونے کا اور اندلس کے مسلمان عہد پر نہ صرف فخر کرنے کا بلکہ حافظ شیرازی کے تتبع میں ’’غزلیں اور قصیدے‘‘ کہنے کا اور اپنے شعری مجموعے کا نام ’’تماریت دیوان‘‘ رکھنے کا۔ اسے اس تاریک شب میں غرناطہ کے باہر ایک ویرانے میں لے جا کر ہلاک کردیا گیا اور ایک گڑھا کھود کر اس کی لاش اس میں لڑھکا کر مٹی برابر کردی گئی۔ اس کا مدفن گمنام رہا۔ بہت عرصہ بعد ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ میں جانتا ہوں کہ لورکا کہاں دفن ہے۔ اس مقام کی کھدائی کی گئی تو کچھ بھی برآمد نہ ہوا۔ لورکا کی قبر نے روپوش رہنے کا ارادہ کرلیا۔ اس کے قتل کے بعد جن لوگوں نے اور وہ بہت لوگ تھے‘ پورا اندلس تھا جنہوں نے اس کا سوگ منایا اور کہا ’’لورکا مر گیا…غرناطہ اب بغیر دل کے ہے‘‘ صرف غرناطہ ہی نہیں لورکا کی موت سے قرطبہ اور اشبیلیہ بھی بغیر دل کے ہو گئے۔ ان کی عظمت رفتہ کے گیت گانے والا مر گیا تھا۔ اے درخت‘ اے درخت اگرچہ سوکھے ہوئے پھر بھی اتنے سرسبز ایک لڑکی سوہنے چہرے والی‘ زیتون جمع کر رہی ہے اور ہوا اس کی کمر سے لپٹتی جاتی ہے چار گھڑ سوار اس کے قریب سے گزرتے ہیں اندلس کے چمکیلے گھوڑوں پر نیلے اور سبز رنگوں کے پیراہن میں اور سیاہ ٹوپیوں میں لڑکی‘ قرطبہ چلی آئو اور لڑکی سنتی ہی نہیں لڑکی‘ اشبیلیہ چلی آئی اورلڑکی سنتی ہی نہیں اور جب شام ایک نرم گلاب رنگ میں اتری تو ایک نوجوان گلاب اور چاند کی بیل لیے وہاں سے گزرا لڑکی‘ غرناطہ چلی آئو اور لڑکی سنتی ہی نہیں سوہنے چہرے والی لڑکی زیتون جمع کرتی جاتی ہے اور ہوا کے سلیٹی ہاتھ اسکی کمر کے گرد لپٹتے چلے جاتے ہیں اے درخت‘ اے درخت اگرچہ سوکھے ہوئے‘ پھر بھی اتنے سرسبز لورکا اس نظم میں عہد موجود کے اندلس کے بارے میں کہتا ہے‘ اسے ایک سوکھ چکے درخت سے تشبیہہ دیتا ہے اور پھر مسلمان عہد کو یاد کرتا ہے جب یہ درخت سرسبز ہوا کرتا تھا۔ دراصل لورکا ہسپانیہ کی اس نسل کا ایک نمائندہ شاعر ہے جس نے اپنے ماضی کو مسلمان اور عیسائی خانوں میں تقسیم نہ کیا۔ وہ نسل اپنے مذہبی اور پرتعصب قومی کنویں میں سے باہر آ گئی۔ انہوں نے اپنے ماضی کوتنگ نظری کی قینچی سے قطع برید کر کے مختصر نہ کیا۔ اسے‘ اپنے ماضی کو مکمل طور پر اپنایا۔ اندلس کے زریں عہد کو بے شک وہ غیر ملکی موروں کی دین تھا‘ قبول کیا اور اس پر فخر کیا‘ بہت کم لوگ آگاہ ہیں کہ مسجد قرطبہ کی تعمیر نو اور تزئین کرنے والے سب کے سب عیسائی تھے۔ قصرالحمرا کو بحال کرنے والے آج کے ہسپانوی تھے کہ وہ اپنے تعصب اور تنگ نظری کے کنویں سے باہر آ گئے تھے۔ انہوں نے ابن رشد اور ابن طفیل اور ابن عربی کے مجسمے اپنے شہروں میں ایستادہ کئے کہ یہ بھی اسی دھرتی کے فرزند تھے اور یہ بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ ایک ہندو وکیل تھا جس نے اپنی زندگی تاج محل کو آلودگی سے بچانے کی خاطر وقف کردی۔ اس کے نواح میں جتنے بھی اینٹوں کے بھٹے دھواں اگلتے تھے ان سب کے خلاف عدالتوں میں مقدمے کئے‘ اس پر قاتلانہ حملے ہوئے‘ تب بھی وہ تاج محل کی حفاظت سے دستبردار نہ ہوا اور آج تاج محل کے گرد جتنے بھی اینٹوں کے بھٹے ہوا کرتے تھے وہ سب نابود ہو چکے ہیں اور جب اس ہندو وکیل سے پوچھا گیا کہ تاج محل تو مسلمانوں نے تعمیر کیا تھا تو تم نے اپنی زندگی اسے محفوظ کرنے کے لیے کیوں وقف کردی تو اس نے کہا تھا کہ مذہب سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ عمارت ہندوستان کے ایک شہنشاہ نے تعمیر کی اور اسے تعمیر کرنے والے بھی ہندوستانی تھے تو یوں یہ میرا ورثہ ہے جس کی حفاظت میرا فرض تھا۔ ہم موازنہ کاہے کو کریں‘ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ کیوں ڈالیں کہ اپنی سرزمین پر ننگر ہار کے جو جین مندر ہیں‘ کٹاس راج کے جتنے بھی تاریخی مندر ہیں اور تالاب ہیں‘ جتنے بھی شہروں شہروں گورد وارے اور اجڑ چکی عبادت گاہیں ہیں‘ حویلیاں اور رہائش گاہیں قدیم ہیں وہ سب بدھ عہد کے آثار ہمارے اپنے ہیں۔ وہ پورس ہو‘ چانکیہ یا پانینی ہو‘ پورن بھگت ہو یا بھرتری ہری اس دھرتی کے بیٹے تھے۔ کیا ہم کبھی انہیں اپنے ماضی کی نشانیاں قرار دے کر انہیں اپنا لیں گے۔ دور کیا جانا‘ ڈاکٹر عبدالسلام کے تذکرے سے ہی ہماری باچھوں سے نفرت کی جھاگ بہنے لگتی ہے۔ ہم سیخ پا ہو جاتے ہیں‘ ہمارے ایمان خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ اندلس والوں نے‘ لورکا نے بھی اگر ابن رشد اور ابن طفیل کو قبول کرلیا‘ ان کے مجسمے شاہراہوں میں نصب کئے تو وہ یقینا کٹڑ عیسائی نہیں ورنہ وہ کہاں مسلمان ’’کفار‘‘ کو اپنی تاریخ کا ایک حصہ قرار دیتے۔ لاہور‘ دور افتادہ اور تنہا۔