ایک عہد ہے کہ تیزی سے اوجھل ہو رہا ہے۔ گویا مٹھیوں سے خشک ریت پھسل رہی ہے۔ قدیمی چہرے ،آثار،شعائر،نشانات ایک ایک کرکے منہدم اور مٹتے چلے جارہے ہیں۔ایسے میں جب ہاتھ ساز کے کسی تار کے ساتھ چٹختے ہیں تو نغمہ ان دیکھے خلا میں کھو جاتا ہے۔ 1947ء میں تقسیم برصغیرکی اٹھا پٹخ کے دوران ہندوستان کے جومسلمان پاکستان بنانے کے لئے مہاجرت اختیار کرگئے کامیاب ہوگئے اورجنہوں نے اس وقت پاکستان کی دشمن مسلم قیادت کے جھانسے میں آکراپنے لئے ہندوستان کوہی مستقرٹھرایاتووہ خوارہوگئے اوروہ 73برس گزرجانے کے طویل عرصے کے بعد بھی رستاخیز صورتحال سے دوچار ہیں۔ ہندئووں کی نظروں میںوہ کبھی بھی ابنائے وطن نہیں ٹھرے،ان کی آشفتگی کا رنگ ہرنئے دن کے ساتھ گہراہوتاچلاجارہا ہے۔وہ مسلسل ہندئووں کی گرفت اوران کے حصارمیں ہیں۔ شریر ہندئووںکے غوغائے بے معنی کے بہکاوے میں آ کروہ پہلے ہی گائے کاگوشت کھاناترک کرچکے تھے کہ شائدوہ ان کے اس عمل سے خوش اوران سے راضی ہوجائیں گے لیکن انکے قسمت بدل نہ سکی اورانکی تاریخ کے وہی سخت ترین دن ان پرچکر کاٹ رہے ہیں کہ جوآج سے تین دہائیاں قبل شروع ہوئے تھے۔ ہندئووں کی سیاسی قیادت مقامی جذبات کی للو پتو میں اس قدر آگے نکل گئی ہے کہ مسلم قوم کے مفادات مجروح ہوتے چلے گئے ۔مگر عالمی پذیرائی سے وہ محروم ہیں ۔دلی میں مسلمانوں کی بے شمار مساجد مقفل اورویران پڑی ہیں جنہیں دیکھ کردل سہ پارہ ہوجاتاہے ۔ دہلی میں سیکڑوں مسجدیں ایسی ہیں جن کا نام و نشان اب باقی نہیں رہا لیکن کچھ عظیم الشان تاریخی مساجد اب بھی موجود ہیں جو اپنی تباہی اور بربادی کی داستان خود بیاں کر رہی ہیں ۔وہ مساجد جو عبادت گاہ تھیں وہ آج وہ شرابیوں کی آماجگاہ میں تبدیل ہو چکی ہیں ۔ ان مساجد میں غیراخلاقی حرکات کی اجازت ہے لیکن فرزندان توحید کو سجدہ کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔چلئے آج ہم اپنے قارئین کودلی کی انہی مساجدکااحوال بتاتے ہیں۔ دہلی کی قدیم تاریخی مساجدمیںایک مسجد خیر المنازل جودہلی کے چڑیا گھرسے مغرب میں واقع ہے۔اس مسجد میں صرف تین وقت: ظہر، عصر اور مغرب کی نماز ادا کرنے کی اجازت ہے۔ عشا اور فجر میں تالا لگادیا جاتا ہے۔ رمضان میں تراویح پڑھنے کی اجازت نہیں، اس مسجد کو بجلی کنکشن کی اجازت نہیں ہے، جس کے نتیجے میں گرمی اور اندھیرے میں ہی نماز ادا کرنی پڑتی ہے۔پانی کے انتظام کے لیے ایک قدیم کنواں ہے ، جس سے پانی نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ، پانی کی موٹر لگانے کی اجازت نہیں ہے، جس کے باعث پانی کے لیے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔قدیم زمانے کا ایک حوض ہے ، لیکن نہ تو اس میں پانی بھرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی اس کی صاف صفائی کرنے دی جاتی ہے ، نتیجہ بارش وغیرہ کا پانی جمع ہونے کی وجہ سے ایک جوہڑبن گیاہے اور گندگی پھیل رہی ہے۔یہاں استنجا کا انتظام نہیں ہے، جس سے نمازیوں ، گیٹ کیپر اور سیاح افراد کو بھی بہت دقت ہوتی ہے اور یہ افراد اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے آس پاس کی جگہوں پر جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مسجدکی عمارت کافی بڑی ہے ، لیکن کافی بوسیدہ ہوچکی ہے۔اس مسجدکے پچاس سے زائد کمرے تھے، لیکن اب ٹوٹ کر بیس سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے کونوں اور کنارے کنارے بنے کمروں میں نئی نسل کے جوڑے بیٹھے رہتے ہیں۔ جواری اور جرائم پیشہ افراد بھی اپنے مشاغل انجام دیتے ہیں۔ اور حیرت کی انتہا تو یہ ہے کہ ان کمروں میں بول و براز بھی کردیتے ہیں۔ایک کمرہ کے کنارے تو باقاعدہ بول کے لیے قدمچہ بناہوا پایا گیا ، جس سے اس کے آس پاس کے حصے کافی متعفن ہوچکے ہیں۔سیاح جوتے اور چپل پہن کر ہی مسجد میں گھس آتے ہیں اور اس کی بے حرمتی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ دہلی کی دوسری مسجدمسجد قلع کہنہ ہے اوریہ پرانا قلعہ مسجدکہلاتی ہے ۔ یہ مسجد دلی کے پرانے قلعہ کے اندر شیر منڈل کے شمال پرگتی میدان کی جانب واقع ہے ۔گھومنے پھرنے والے لوگ بلا روک ٹوک جوتے چپل پہن کر بے حرمتی میں مصروف ہیں۔ یہاں نہ نماز کی اجازت ہے اور نہ ہی بیٹھنے کی ۔یہاں پہنچ کراگرکوئی مسلمان کہے کہ ہم دو رکعت نماز ادا کرسکتے ہیں ، تو اسے سختی سے منع کرتے ہوئے کہا جاتاہے مسجد کے اندر کی گندگی کے ڈھیرپڑے ہوئے ہیں ۔سیکورٹی کے افراد بھی تعصب پسند ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھیں اوپر سے خاموش ہدایت ہے کہ کسی بھی صورت میں نماز پڑھنے نہیں دینا ہے۔ظلم تو یہ ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے اس میں نماز پر سخت پابندی ہے ، اس میں کوئی مسلم سیاح بھی نماز نہیں پڑھ سکتا ہے لیکن غیر شرعی اور غیر اخلاقی حرکت کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔مسجد کی عمارتیں رفتہ رفتہ مخدوش ہوتی جارہی ہیں۔ دلی کی تیسری مسجد،’’محمدی مسجد‘‘ یہ مسجد لودھی دور 1451-1526کی تعمیر ہے، جو ایک لمبی دیوار کے باہری حصے میں واقع ہے۔ دیوار کے تعمیری ڈھانچے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جگہ قلعے کا باہری حصہ ہوگا ۔یہ مسجد انتہائی خوب صورت ہے اور ابھی صحیح سالم موجود ہے۔ مسجد ہذامیں نمازکی ادائیگی کی اجازت نہیں ،چندسال قبل اس مسجد جمعہ کی نماز شروع کی تھی، لیکن اس پر شرپسندوں نے تالا لگادیا اور نماز سے روک دیا ۔ غیور مسلمانوں نے تالا توڑ کر دوبارہ نماز شروع کردی، اس پر شرپسندوں نے مقدمہ قائم کردیا اور سیاسی اثرورسوخ کا استعمال کرکے پولیس اور فورس کا سہارا لے کر دوبارہ مسجد کو بند کروادیا۔مسجد لگائے گئے کتبے میں تین مساجد کا تذکرہ ہے ، جن کے نام تحفہ والا گنبد، مخدوم صاحب مسجد اور محمد والی مسجد ہیں، لیکن ابھی صرف محمدوالی مسجد ہی موجود ہے ، جس کا نام سرکاری دستاویزوں میں محمدی مسجد ہے۔ مسجد کے احاطہ میں نہ پانی ہے اور نہ ہی بجلی۔ دلی کی تیسری مسجد درویش شاہ کی مسجد، گل مہر پارک ہے۔یہ مسجد لودھی دور کی یاد گار ہے ۔مسجد کافی پرانی ہوچکی ہے ، جگہ جگہ سے دیواریں مخدوش ہوچکی ہیں۔محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے مسجدکو چوبیس گھنٹے بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کسی بھی ٹوپی کرتے والے شخص کو مسجدہذاکے سایے میں بھی کھڑا نہیں ہونے دیا جاتا۔جب کہ آتش عشق کے شکار جوڑے کی مسجد کے بنے حجرے نما جگہوں میں حرام کاری پر اف بھی نہیں کرتے۔(جاری ہے)