جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا گیا،کرونا وائرس قریباً پوری دنیا کو لپیٹ میں لے چکا ہے اور186ممالک میں اس سے ہلاکتوں کی تعدادبارہ ہزار کے قریب ہوچکی ہے۔پاکستان میں بھی تین اموات سمیت چھ سو سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔بدقسمتی سے اس موذی مرض کے مقابلے اور احتیاطی تدابیر کے حوالے سے عوام پوری طر ح یکسو نہیں ہو سکے اور لیڈر شپ کا بھی فقدان نظر آتا ہے۔سندھ میں لاک ڈاؤن کا عندیہ دیتے ہوئے تین روز کے لیے صوبے میں تمام سرگرمیاں بند کردی گئی ہیں اور لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کی ہد ایت کی گئی ہے لیکن دوسری طرف ہمارے وزیراعظم مصر ہیں کہ لاک ڈاؤن کیا گیا تو غریب فاقوں پر آجائے گا،معیشت اور عوام اس کے متحمل نہیں ہو سکتے لیکن جب اٹلی، سپین، فرانس، امریکہ اور برطانیہ کی طرح پھیل گیاتب بھی برق بیچارے غریب پر ہی گرے گی۔یورپی یونین کے تحت جن تمام ملکوں نے اپنے بارڈرکھول دیئے تھے وہ بھی اپنے بارڈر بندکرچکے ہیں لیکن ہم افغانستان کے ساتھ چمن سرحد کھول رہے ہیں۔ امریکہ اورآسٹریلیاسمیت کئی ممالک کی ائرلائنزنے بین الاقوامی پروازیں بند کر دی ہیں اور اب پی آئی اے نے بھی انٹرنیشنل فلائٹ آپریشن بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے جو امریکہ کی ایک اعلیٰ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیںسیاست میں بھی اپنا لوہا منوالیا ہے۔ انہوں نے قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے سندھ میں کرونا وائرس کے حوالے سے فیصلہ کن اقدامات کئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے چندروز قبل برملا کہا کہ اس بحرانی صورتحال میں ہم وزیر اعظم عمران خان اورحکومت پر تنقید نہیں کریں گے اور امید کا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت اس چیلنج سے نبٹنے کے لیے اپنی پوری کاوشیں اور وسائل بروئے کا ر لاتے ہوئے Covid19کے خلاف جنگ لڑے گی۔یہ بات انہوں نے جس پریس کانفرنس میں کی مرادعلی شاہ بھی ان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ بلاول بھٹو کا مزید کہنا تھا کہ اپنی توانائیاں ایک دوسرے پر ام تراشی اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ پر صرف کرنے کے بجائے پاکستانی شہریوں کو اس آفت کے خلاف متحد ہوجانا چاہیے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو وزیراعظم عمران خان کو کرنی چاہئیں۔ پہلے پہل تو وفاقی حکومت اس سنگین وبا کے مضمرات سے صرف نظر برتتی رہی لیکن بعدازاں جب معاملات کی پیچیدگی اور سنجیدگی کا احساس ہوا تو خان صاحب نے قوم سے خطاب بھی کیا لیکن جس یونٹی کی کال اور لیڈرشپ کا مظاہرہ انہیں کرنا چاہیے تھا وہ ان کی تقریر سے عنقا تھی۔ جمعرات کو سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ(ن) کے نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے 92نیوز پر میرے پروگرام ’ہوکیا رہا ہے‘ میں انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی اور سینیٹ اجلاس کے لیے ریکوزیشن دی ہے اور ساتھ ہی حکومت کی طرف اپنی جماعت کا دست تعاون بڑھایا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے اپوزیشن اور حکومت پر مشتمل مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنا رہے ہیں۔ یہ ایک اچھی خبر ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم خود اپوزیشن جماعتوں کو مدعو کرکے اس قومی بحران کے حوالے سے انہیں آن بورڈ لیں۔ ظاہر ہے انہیں ایسا کرنے کے لیے اپنے تئیں مونچھ نیچی کرنا پڑے گی لیکن قومی معاملات پر اتفاق رائے پید اکرنا ان کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ وہ صرف تحریک انصاف، وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزیراعظم نہیں بلکہ پوری قوم کے وزیر اعظم ہیں،جس میں تمام صوبے اور اپوزیشن کی تمام جماعتیں بھی شامل ہیں۔ مقام شکر ہے اس وقت ایک دوسرے کے خلاف گالی گلوچ اورلعن طعن کر نے کا رجحان معطل ہے۔ معاون خصوصی برائے اطلاعات محترمہ فردوس عاشق اعوان، پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان حتیٰ کہ وزیر ریلویز شیخ رشید اپنے مخصوص انداز سے فقرے بازی نہیں کر رہے۔وزیر اعظم نے بھی اپنے خطاب میں اپوزیشن پر براہ راست حملہ نہیں کیا۔یہ مثبت طرز عمل ہے لیکن یہ وقت دیگر محاذوں پر بھی سیزفائر کا ہے۔ کئی ممالک میں قیدیوں کو رہا کردیا گیا ہے۔ اس موقع پریہ توقع کرنا کہ نیب اپنے ہتھکنڈے موخر کر دے گا عبث ہے، تاہم ٹمپریچر کو معمول پر لانے کے لیے جن لوگوں نے ضمانت کی درخواستیں دے رکھی ہیں، نیب یا حکومت کی طرف سے عدالتوں میں ان کی مخالفت نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح میڈیا کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ بھی روک دینا چاہیے۔ میر شکیل الرحمن کے خلاف اگر نیب تحقیقات کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے گرفتاری ضروری نہیں تھی۔ امریکہ اور برطانیہ بڑے جمہوری ملک ہیں ان ممالک میں جوابدہی کا معیار اتنا سخت ہے کہ صدر ٹرمپ جو ویسے تو پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتے ہر روز اپنی کابینہ کے متعلق ارکان اور افسروں کے ساتھ کرونا وائرس کے بارے میں میڈیا کو بریفنگ اور سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔ یہی حال برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کا ہے وہ بھی روزانہ اسی انداز سے میڈ یا کو بریف کر رہے ہیں۔ اس موقع پر کوئی خصوصی پروٹوکول نظر نہیں آتا بلکہ ہمارے حکمرانوں کے وتیرے کے برعکس یہ لیڈر میڈیا کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور کرونا وائرس سے احتیاطی تدابیر کی بنا پر نسبتاً کم میڈیا پرسنز سامنے بیٹھ کر سوال کر رہے ہوتے ہیں، نہ ہی یہ کوشش نظر آتی ہے کہ منظورنظر صحافیوں کو ہی دعوت دی جائے جس کا بین ثبوت ٹرمپ کی جانب سے ایک صحافی کے سوال پر اظہار ناراضی تھا۔ یہی رویہ خان صاحب کو بھی اپنانا چاہیے، ان کے بیسیوں ترجمان اگر موثر ثابت ہو رہے ہوتے تو انھیں اور ان کے حواریوں کو یہ شکایت کرنے کا موقع نہ ملتا کہ میڈیا ہمارے خلاف ہے۔ اسی لیے وزیراعظم کو خواہ محدود پیمانے پر ہی سہی میڈیا سے تواتر کے ساتھ انٹر ایکشن کرنا چاہیے۔ اس وقت قوم یہ بھی توقع کر رہی ہے کہ کرونا وباکی بنا پر کاروبار تباہ ہورہے ہیں اور بیروزگاروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اس لئے اہل اقتدار کوئی امدادی یا رعایتی پیکیج کا اعلان کریں گے ۔ حکومت نے اس بارے میں ہنوز کسی بیل آؤٹ پیکیج یا رعایت دینے کا اعلان نہیں کیا۔ آ ئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے درآمد شد ہ اقتصادی ٹیم پاکستان سمیت دنیا بھر میں آنے والے بھونچال سے یکسر بے نیاز نظر آتی ہے اور اپنے دفتروں میں بیٹھ کر معمول کے مطابق بجٹ تیار کر رہی ہے جس میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے آگے کورنش بجا لاتے ہوئے مبینہ طور پر ریکارڈ ٹیکسیشن کا پروگرام بنایا جا رہا ہے۔ اس وقت خان صاحب کو اپنے ان مشیروں کو ویٹو کرتے ہوئے لیڈ ر شپ کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اس حوالے سے جو ضروری اقداما ت کرنے چاہئیں ان کافی الفور اعلان کرنا چاہیے۔ خو شامدی ٹولہ لاکھ کہتا رہے کہ عمران خان کا شمار صدر ٹرمپ،چین کے صدر شی چنگ پنگ اورترکی کے صدر طیب اردوان جیسے مقبول ترین عالمی لیڈروں میں ہوتا ہے لیکن اصل امتحان یہ ہے کہ وہ اس بحران سے نکل کر پاکستانی قوم میں اپنی لیڈ رشپ کا سکہ کیسے منواتے ہیں۔ بالآخر چار ماہ لندن میں قیام کے بعد مسلم لیگ کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف وطن واپس آگئے ہیں۔انھوں نے بھی یہ بیان دے کر کہ لاک ڈاؤن کرنے میں دیر نہ کی جائے پیپلز پارٹی کے مطالبے کی تائید کر دی ہے۔ حالات جس تیزی سے بگڑ رہے ہیں شاید ایسا کرنا ہی پڑے۔وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کوکینیڈا کی مسحور کن ہواؤں میں پاکستان میں صورتحال کی نزاکت کا احساس ہی نہیں ہو رہا۔ اس وقت جبکہ حکومت کی طرف سے اپوزیشن پر گولہ باری نہیں کی جا رہی بلکہ سیزفائر کی سی کیفیت ہے،شہباز شریف کی وطن واپسی کے اعلان پر فواد چوہد ری نے یہ بیان داغ دیا ’’جونہی فلائیٹ اپریشن بند ہوا شہبازشریف نے وطن واپسی کا اعلان کردیا یہ پاکستان کے لوگوں کو اتنا بے وقوف کیوں سمجھتے ہیں‘‘؟۔ یعنی وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھے کہ فلائٹ اپریشن بند ہونے کی وجہ سے شہبازشریف واپس آ رہے ہی حالانکہ اپوزیشن لیڈر اس وقت جہازمیں سوار ہو چکے تھے۔ان کا یہ ٹویٹ بے وقت کی راگنی ہی کہا جا سکتا ہے جس میں انھوں نے وزیراعظم کو اپیل کی ہے کہ شہباز شریف کو خصوصی اجازت دی جانی چاہیے اور 14دن تک میوہسپتال کے قرنطینہ میں رکھنا چا ہیے تاکہ انھیں احساس ہو ہسپتال کی اہمیت کیا ہوتی ہے۔فواد چوہدری کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ شہبازشریف ان سے بہتر نہیں تو پاکستان کے شہری ہیںالبتہ یہ فرق ضرورہے کہ اس وقت فواد چوہد ری حکومت میں ہیں اور شہباز شریف اپوزیشن میں۔