کشمیری تو سات دہائیوں سے قسمت کے الٹے توے پر پڑے سلگ رہے ہیں اور ہمارے ان بہن بھائیوں کی زندگی مسلسل سلگتی چلی جا رہی ہے۔ ظلم کی اس الائو میں کبھی بھڑکائو پیدا ہوتا ہے تو کبھی ہلکے ہلکے یہ سلگتا رہتا ہے۔ بجھتا کبھی نہیں۔ امن کے پانیوں کے چھینٹوں کو ترستے ہوئے کشمیری زندگی کو اسی ڈھنگ میں جیتے رہے ہیں۔ ہم اور آپ زندگی کے اس بھیانک رخ کا تصور بھی ذہن میں نہیں لاسکتے اور اگر ہم تصور کرنے کی کوشش کریں کہ ایک ایسی زندگی کہ جو مسلسل موت ‘ عدم تحفظ‘ عصمت دری پیلٹ گن حملوں‘ کلٹسر بموں کی بو چھاڑ میں گزر رہی ہو، سات لاکھ انڈین فوجی درندوں کے پائوں کے نیچے سانس سانس گزرتی ہوئی زندگی جسے زندگی کہنا بھی ناانصافی ہے، تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ زندگی تو امن سے عبارت ہے امن کی فضا میں نمو پاتی ہوئی زندگی ہی گھر کی چار دیواری سے لے کر چوکوں چوراہوں اور وادیوں اور سبزہ زاروں میں محفوظ ہوتی ہے۔ تبھی زندگی کا چہرہ مسکراتا ہے۔ مگر یہاں اس جنت نظیر وادی میں‘ سبزہ زاروں کی ہریاول لہو سے سرخ ہو چکی ہے۔ ڈل جھیل کے حسن سے لے کر چناروں کے جمال تک ایک بیوہ کے چہرے جیسا حزن ملال یہاں ہمہ وقت سایہ کیے رہتا ہے۔یہاں بچوں کے حسین چہروں کو غور سے دیکھو گے تو ڈر جائو گے سرخ خوبانی کے رخساروں جیسے چہروں پر لہولہان آنکھیں ہیں۔ ان ستارہ آنکھوں کو پیلٹ گن کے وار نے لہولہان کر دیا یہاں انسانیت کا چہرہ زخموں سے ادھڑا پڑا ہے۔ یہ بدقسمت لوگوں کی سرزمین ہے جن کے بنیادی حقوق‘ جن کا الگ تشخص جن کے خواب ،جن کی خواہشیں، جن کا انسان ہونا اور انسان ہونے کی حیثیت سے زندگی کے تحفظ کا حق امن کی فضا میں جینے کا حق مسلسل سات دہائیوں سے بھارتی فوج کے بوٹوں تلے روندا جا رہا ہے۔ مسلم اکثریتی آبادی والی ریاست جموں وکشمیر کی قسمت کا فیصلہ اصول کے مطابق نہ کر کے ایک طرف تو اس خطے میں بدامنی کے الائو کو بڑھکایا گیا اور دوسری طرف 1947ء کے بعد سے کشمیریوں کی زندگی کی صورت یہ کر دی گئی کہ گویا ایک مہین ریشمی دوپٹہ کانٹوں سے بھری ہوئی جھاڑیوں میں اٹک گیا ہو اور اسے مسلسل کھینچ کر لیرو لیر کر دیا جائے۔ کشمیر میں زندگی کا چہرہ لیرو لیر ہے۔ ایک طرف کشمیر بھارتی ظلم و ستم کا شکار ہے تو دوسری طرف انہوں نے پاکستان کی کمزوریوں ‘ خامیوں‘ کوتاہیوں اور عالمی برادری کے سامنے معذرت خواہانہ رویوں کا خمیازہ بھی بھگتا ہم وقت قیام سجدوں میں گرنے کی روایت کے امین ہیں اور تاحال وہی صورت حال ہے۔ بھارت تو اس خطے میں ایک بدمعاش غنڈے جیسا کردار ہمیشہ سے ادا کرتا آیا ہے کون سا عالمی امن کا قانون ہے جس کی پاسداری اس نے کبھی کی۔! اس نے امن کے ہر قانون کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھا کشمیر کے معاملے کو سلامتی کونسل میں بھی خود لے کر گیا اور اس کی شقوں کی دن رات خلاف ورزی کی۔ تازہ ترین کلسٹر بموں سے لائن آف کنٹرول کی سویلین آباد پر حملے اور جنیوا کنونشن کی دھجیاں اڑائیں۔ جس کی رو سے کلسٹر بموں کا بنانا‘ سٹاک کرنا اور استعمال کرنا قانونا ًجرم ہے۔ کلسٹر بموں سے جموں کشمیر کی نہتی‘ سویلین آبادی کو نشانہ بنانے پر ریڈ کراس نے آواز اٹھائی کہ کلسٹر بم کا استعمال جرم ہے۔ لیکن خطے کا یہ غنڈہ کب کسی کی سنتا ہے یا پھر کون سی عالمی امن کی طاقت اور تنظیم ہے جو اس پر قانونی اور اخلاقی دبائو ڈال کر اسے ایسے ظلم سے باز رکھ سکے۔ ہمیشہ قانون کی دھجیاں اڑانے والے غنڈے نے 5اگست 2019ء بروز سوموار ایک صدارتی فرمان کے ذریعے اپنے آئین کے آرٹیکل 370اور 35اے کا گلا گھونٹ کر وادی کی خود مختار حیثیت پر شب خون مارا۔ قلم کی ایک ذرا سی جنبش سے مودی سرکار نے وادی کی آبادیاتی حیثیت کو بدل کر رکھ دیا۔آرٹیکل 370اور 35اے کو گوگل کریں اور تفصیل سے پڑھیں تو بھارتی آئین کے یہ آرٹیکل آپ کے سامنے ایک بڑی مثالی تصویر پیش کرتے ہیں کہ یہ آرٹیکلز کشمیریوں کے تشخص اور خود مختاری کے محافظ تھے۔ آئین کی لکھت پڑھت کے مطابق۔ لیکن صاحبو حقیقت حال کیا ہے اس طرف تو نظر کیجیے۔ یہ تشخص کیا ہوتا ہے اور خود مختاری کس بلا کا نام ہے۔ کیا حقیقت میں بھارتی فوج کے بوٹوں تلے روندے ہوئے کچلے ہوئے۔ لیرولیر ہوئے زخم زخم کشمیریوں کو خود مختاری کا کون سا تحفظ حاصل تھا۔ ان کے تو جنازے تک گولیوں کی بوچھاڑ میں ادا ہوتے ہیں۔ آرٹیکل 370سن1949ء میں اور 35اے 1954ء میں لاگو ہوئے اور ان قانونی تحفظ کے بعد کیا کشمیری عورتوں کی عصمت دری نہیں ہوئی‘ کیا کشمیری بچوں کی اور نوجوانوں کو سیدھی پیلٹ گنوں سے وار کر کے ان کی آنکھیں لہولہان نہیں کی گئیں۔ کیا وہاں چادر اور چار دیواری میں کشمیری خاندان محفوظ ہیں۔ ہر گز نہیں ہر نئے دن کا سورج کشمیریوں کے لئے ظلم و ستم کے بھیانک باب کھولتا ہے۔ آرٹیکل 35اے کے مطابق غیر کشمیریوں کی وادی میں جائیداد خریدنے پر پابندی تھی۔اب ہندو بنیے کے راستے کی رکاوٹ یہ آرٹیکل ختم ہو چکا ہے۔ بھارت کا گھنائونا منصوبہ یہ ہے کہ ہندو آباد کاروں کے ذریعے وادی کے ڈیمو گرافک حقائق کو بدلا جا سکے۔اپنے طور پر مودی سرکار نے ایک کاری وار کیا ہے لیکن اس بار صیاد اپنے دام میں خود ہی آ گیا ہے۔اس حرکت سے پوری دنیا کی توجہ کشمیر پر مبذول ہو گئی ہے۔ کشمیریوں کا مقدمہ پوری شدت کے ساتھ دنیا کے سامنے موجود ہے کشمیر کی تحریک آزادی اب ایک نئے اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔اس وقت پاکستان پربھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کشمیر کے مقدمے کو دنیا کے سامنے رکھنا امن کی عالمی تنظیموں کا کشمیر کے حق میں رائے ہموار کرنا اور سلامتی کونسل میں انڈیا کی اس کھلی ناانصافی کو اٹھانا بہت ضروری ہے۔ سوچ سمجھ کر جارحانہ سفارتی سرگرمیوں کی ضرورت ہے معذرت خواہانہ رویے کو ترک کر کے پورے وقار اور بہادری کے ساتھ عالمی طاقتوں سے کشمیریوں کے لئے حمایت حاصل کرنے کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ریلیاں ‘جلوس تقریریں یہ سب اپنی جگہ اہم ہے لیکن خدا کرے کہ پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس وقت وہ کچھ کر سکے جو کشمیریوں کی تحریک آزادی کے اس فیصلہ کن مرحلے پر ان کے حق میں ثمر آور ثابت ہو۔