کل شام ایک قریبی عزیز نے فون کیا اور رسمی خیر خیریت پوچھنے کے بعد بہت ہی مایوسانہ انداز میں بولے کہ بھائی آپ اخبار میں لکھتے ہیں ۔ اکثر قومی مسائل میں آپ کا انداز بے باکانہ ہوتا ہے اور آپ پاکستان کی بقا ‘ دفاع اور نظریہ وطن پر بات کرتے ہیں ۔ عرض کیا کہ آپ درست کہہ کر رہے ہیں۔ وہ بولے کہ کیا افرادِقوم کے مسائل میں اجتماعی مسائل سے جدا ہوتے ہیں اور کیا کسی لیڈر کو جیب تراشی کی اجازت بھی دی جا سکتی ہے۔ وہ مسلسل بول رہے تھے اور اپنی دل بیزار بات کو بڑھاتے بڑھاتے یکدم فون پٹخ دیا۔ مجھے کچھ حیرانی ہوئی کہ یہ دوست بہت ہی متحمل مزاج ہے گفتگو میں رکھ رکھائو اور دھیما پن اس کی شناخت ہے۔ ابھی اسی سوچ پر گھوم رہا تھا کہ دوبارہ فون آیا ذرا معذرتی انداز میں بولے کہ یار بس کیا کروں یہ سیاست کچھ خاندانی مجبوری ہے اور کچھ علاقے کے لوگ زیادہ ہی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں اور یہ خار دار راستے ہیں ۔کچھ دوست اس راہ پر دھکیلے بغیر سانس نہیں لیتے۔ مجھے مجبور کیا اور ذہنی طور پر تیار کیا کہ آپ نے تو سیاسی پارٹیاں اور ان کے بندوبست کا راز خود یا ازراہ مہربانی وجود میں آنے والے لیڈروں کی کارگزاریاں اور قلا بازیاں تو بہت قریب سے دیکھی ہیں اب کچھ نئی ہوائیں ہیں اور وعدے وعید کے انداز جدید بھی جان افزا نظر آتے ہیں۔ اس مرتبہ نئے لیڈر اور نئی پارٹی سے رابطہ کریں اور انتخابی میدان امتحان میں کمر کس کر اور بازو پر امام ضامن باندھ کر اتریں جملہ دوستان اور مشورہ احباب نے مجھے سرنگوں کیا اور میں کوچہ سیاست کی حکایت بے وفا کے باوجود ع میں کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل گیا نئی پارٹی کے ایک سمجھدار مگر سرمایہ کار لیڈر سے ملاقات ہوئی جو فصیل شہر پر بیٹھا چونگی محرر بنا ہوا نوٹ گنتا ہے اور ہر نووارد سے پوچھتا ہے کہ کیا لائے ہو۔ مجھ ایسے فقیر منش نے جواب دیا کہ کیا لانا ہے خود حاضر ہو گیا ہوں۔ ابھی تو یہ پارٹی اقتدار کے دروازے پر کھڑی منتظر فردا ہے لیکن اس کے کرتا دھرتا بزعم خویش اقتدار کی چھت پر اودھم مچا رہے ہیں۔ عمران خان صاحب مستقبل کے ایک ذمہ دار شخص نظر آ رہے ہیں ان تک رسائی شاید اب سادہ اطوار اور کسی بھی گمنام لیکن تجربہ کار کارکن کی نہ ہو۔ اس لیے سرمایہ دار حواریوں کے مشورے بہرحال قیمتی ہوتے ہیں ایک ایسے ناخدا مشیر مشورے کے علاوہ بھی کچھ خود تجویز کردہ اختیارات کا خاموش استعمال کرتے ہیں اور پھر اپنے لیے آسانی کے نسخہ جات کے علاوہ نامی آسودگی کے اسباب بھی فراہم کر لیتے ہیں تحریک انصاف کے لیڈر اور ان کے ساتھی سیاست میں ایمانداری اور سچی روش کی بات بہت زور دے کر کرتے ہیں اور ان کا یہ دعویٰ خوش کن ہے اعتراض فی الحال اس لیے وارد نہیں ہوتا کہ وہ ابھی تخت نشین نہیں ہوئے اور ان کے انداز سیاست و ریاست ابھی واضح نہیں ہوئے لیکن یہ لوگ خلوص سے ع سیاں بھئے کوتوال تو پرواہ کاہے کی کے مصداق سے امتحانات کے میدان میں اترنے والے متوسط طبقے کے امیدواران سے 50لاکھ روپیہ پاکستانی سکہ رائج الوقت مانگتے ہیں وہ کس مقام کے مشیر ہیں یا کس قطار میں شمار ہوتے ہیں۔ عمران خان صاحب نے اخبار میں بیان دیا کہ اگر کوئی ٹکٹ کے پیسے مانگتا ہے تو مجھے ٹیلیفونک اطلاع دیں۔ ان کی یہ بات اچھی ہے لیکن ہر کوئی فاروق بندیال تو نہیں کہ وہ لاہور کے متمول لیکن نذرانہ پسند پرانے لیڈر کو بھی پارٹی سے نکال دیں گے۔ یہ حلقہ سیاست اور میدان انتخاب تو کسی بھی مناسب وجہ کا سہارا لے کر کچھ زر معاونت طلب کر سکتا ہے کہ جواز فراہم کر دیا جائے گا لیکن ابھی تو کپاس اگی نہیں اور جولاہے سے لَٹھم لاٹھ کا جواز کہاں سے آ گیا۔ کئی معاصر قلمکار ٹھوڑی پہ انگشت فکر رکھے لفظ لفظ کی آبیاری پر خون جگر صرف کر رہے ہیں اور ایک پائیدار حقیقت کو طشت ازبام کرنے کے لیے اپنے اخلاص کی آواز کو بلند کیے جا رہے ہیں کہ اب کیا ہو گا ملک تو غریبوں کا ہے خزانہ عوام کا ہے سلطنت ایک نظریے کی پابند ہے لیکن اقتدار کے گھوڑے پر سوار بینا ہیں یا نابینا ‘ ان کی نیت میں کھوٹ کتنا ہے اور اخلاص کتنا ہے۔ راہبر کی آنکھوں کی چمک اور آواز ہی دھمک میں کفالت کرے گی یا رہبر میں تحمل اور مشورے کی پختہ عادت بھی موجود ہے یا نہیں۔ نئے پاکستان اور ایک پاکستان کے لیے تجدید نیت کی ضرورت بھی ہے یا نہیں ؟ قربانی ذات کی اور قربانی مفادات کی بھی ضروری ہے یا نہیں۔ اگر ابھی سے اپنا خزانہ مضبوط کرنے کے ارادے اور قوم کے خزانے کو بھوکا رکھنے کے عزائم ہیں تو ع باز آئے ایسی محبت سے اٹھا لو پاندان اپنا کافی ہے سیاسی پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے عزائم اور جدوجہد میں یکسانیت کی ضرورت ہے آج اخبار کی رپورٹ تھی کہ ٹکٹ ایسے لوگوں کو 85فیصد دے رہی ہیں پارٹیاں جو منتخب ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ منتخب ہونے Elactableکی صلاحیت کے لیے صادق و امین کی عملی صورت تو بہت کم نظر آتی ہے اور کچھ خاندانی سرمایہ دار‘ جاگیردار پھر نئی ترکیب ہیں ڈنڈا دار یعنی افسر شاہی کے روایتی اور منظور نظر افسران جو رات کو دن اور دن کو رات کہنے کے ماہر ہیں وہ بھی اس Elactableتکون میں نلکے کی ہتھی کی طرح ناگزیر ہیں گوشہ دھانی میں اور اس سے بہت پہلے کئی پولیس افسر حکمرانوں کے والد گرامی کی خدمت میں حاضری ایسے دیا کرتے تھے گویا یہ افسران اباجی کے پشتینی غلام ہیں۔ ایک صاحب تھے کہ بلندی اقتدار کی چوٹی تک پہنچے۔ ان کے فرائض حاضری میں سکھوں کے غلیظ لطیفے سنانا تھے۔ پاکستان کی کس کو فکر ہے ایک انقلابی لیڈر سے ملاقات ہوئی۔ ان کے نزدیک مذہب ریاست کا نہیں ذات کا معاملہ ہے۔ نماز پڑھ چکے تو ان کی پالتو کتیا نزدیک ہی منڈلا رہی تھی قریب بلا کر چمکارا اور اس کے منہ میں انگلی دیدی۔ ایک اور خود ساختہ نظریاتی لیڈر سے ملا تو چار گھنٹے ان کے خود فراموشی کے عالم میں نظریات سنا کئے تو اندازہ ہوا کہ یہ تو بادشاہت پسند ہیں اور کسی کی بادشاہت یا اختیارات کے قائل نہیں ہیں۔ کہتے تھے کہ کسی کو بادشاہ تسلیم کرنا بادشاہت کے تقاضوں کے منافی ہے۔ انہیں اب بھی اپنی بادشاہت پر اصرار ہے۔ اصغر خان کیس میں کتنے صالحین تھے۔ جو روپے کے ڈھیر پر غلیظ مکھی کی طرح گرے۔ اور کتنے خوشحال تھے۔ جنہیں اپنی مٹھی گرم رکھنے کے لیے حلوائی کی دکان سے پرائے حساب میں مٹھائی اچکنا تھی۔ پاکستان تو بہرحال پاکستان (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں) ہے ناپاک لوگ اپنے ناپاک ارادوں سے اور اپنی نجاست آلودہ تراکیب سے اس مقدس سرزمین کو ناپاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں کبھی برسربازار اور کبھی محراب و منبر کے مقدس مقام پر پاکستان کو کوستے ہیں اس کے نعرے کو غلط بتاتے ہیں اور سادہ عوام کو مذہبی تفریق کے سانچے میں جذبات کے تیز رو احساس کے ذریعے سے ڈھالتے ہیں لیکن اب الیکشن میں ہر طرز کا شیخ طرحدار دستارہ ٹوپی سجاتے۔ کندھے پر سادگی کا رومال ڈالے بلکہ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے مستی سے گارہا ہے کہ ہم ایک ہیں۔ لیکن یہ ایک کیسے ہیں؟ اپنے اپنے ڈیرے پر پہنچ کر ایک دوسرے کو کوستے ہیں۔ مشرک بتاتے ہیں کافر کہتے ہیں کتاب میں لکھتے ہیں اور اب کتاب کو اپنا نشان بنا کر عوام کو نجانے کیا بتاتے ہیں۔ سرحد میں ان کی حکومت تھی مرصح اور مرتب طرز کے صالحین نے ایک طرحدار صاحب دستار پر الزام دھرا تھا کہ انہیں اپنے گروہی مفادات سے پیار ہے پھر سارے اچانک جمع ہو گئے اور پرانے گلے شکوے نجانے کس اخلاقیات کے طاق نسیان کے سپرد کر کے بانہوں میں بانہیں ڈالے متحدہ مجلس عمل بنا ڈالی ایک ذمہ دار نے تو اپنے احساس کا اظہار کیا تھا کہ ہم کسی نہ کسی سے مل جائیں گے بہت ہی ڈھٹائی ہے کہ الیکشن کے بعد کسی کی اقتداری کرسی کے ساتھ لپٹنے کی خواہش دم نہیں لینے دیتی ہے تو روز اول ہی سے ان چہرہ دستان سیاست کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہیے کہ کسی دور میں ایک مولانا کوثر نیازی مرحوم بھی تو ایک سوشلسٹ پارٹی کے نفس ناطقہ گنے جاتے تھے۔ الیکشن بہرحال ہو جائیں گے لیکن اصل سیاست کا قبلہ نیت اور کعبہ ایمان کی کوئی راست سمت ابھی تک تو نظر نہیں آئی ہے۔ منشوری کاغذوں میں خوابوں کی جنت کے وعدوں پر کسی قانونی پابندی کا ضابطہ بھی میسر نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اور ان کے محب وطن اہل اخلاص معاونین نے صادق و امین کردار کی وضاحت کے لیے بہت زیادہ محنت کی ہے لیکن آئین کو محض ایک کاغذی ٹکڑا سمجھنے والے ان عوام الناس کو صاحب انصاف قرار دیتے ہیں جو امتحانات کے دن جھوٹی خوشامد اور ڈیڑھ سو روپے کے قیمے والے نان پر اپنی رائے میں ڈاکوئوں کو با اخلاق سمجھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے تیس سال سے ووٹرز کے حقوق کو قانون کی آڑ میں برباد کرنے والے حیا سوزی پر اتنے دلیرانہ آمادہ ہیں کہ عدالت میں بھی عامیانہ زبان سے اپنی بددیانتی کا تحفظ کرنے کی مشق قدیم کرتے ہیں اور آنے والے امتحانات کو بھی اپنی روایتی ہنر مندی کی خفیہ چابیوں سے چرانے کا شوق پورا کرنا چاہتے ہیں۔ دریائوں کا پانی مودی بدبخت ننگ انساینت نے بند کیا ہے اور شفاف پانی کی ترسیل پر انہوں نے اپنے معاشی مفاد کے بند باندھے ہیں۔ وقت قریب آ رہا ہے کہ جب آئینہ خانے میں دشمنان وطن کی تصویر کا ہر ظاہر باطن یہاں ہو گا عدالت اور فوج کے وقار پر اپنی سیاسی مشاقی پر ناز کرنے والے ذلت کے گڑھوں میں بے قدر ناکارہ وجود کی طرح آخری سانس لے رہے ہوں گے۔ پاکستان کے خفیہ اور ظاہری دشمن بے نام ہو کر رہیں گے۔ پاکستان زندہ باد ہے‘ پاکستان پائندہ باد رہے گا۔