ویک اینڈ تھا اور رات کے تقریباً گیارہ بجے دروازے کی اطلاعی گھنٹی زور زور سے بجنے لگی۔ باپ دروازے پر دیکھنے کے لئے اٹھا تو 9سالہ بیٹا بھی ساتھ گیٹ کی طرف ساتھ چل دیا۔ سردیوں کی یخ بستہ رات باہر ایک پیزا کمپنی کا ڈیلیوری بوائے سردی سے سکڑا ہوا کھڑا تھا۔ سر آپ کا پیزا آرڈر تھا۔ ’’بابا پیزا‘‘ بچہ خوشی سے چلایا لیکن ہم نے پیزا کا آرڈر نہیں دیا ،باپ نے بچے کے خوشی سے بھر پور نعرے کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا غالباً تم ساتھ والوں کے گھر پیزا ڈیلیور کرنے آئے ہو۔ فلاں فلاں نمبر، باپ نے ڈیلیوری بوائے کی اصل گھر تک رہنمائی کر دی۔ وہ شکریہ کہہ کر ساتھ والے گھر کی طرف بڑھ گیا۔بابا مجھے پیزا کی خوشبو آ رہی تھی پیزا کھانے کو دل کر رہا ہے۔ بچے نے آنکھیں بند کر کے شرارت سے خوشبو کو سانس کے ساتھ اندر کھینچنے کی اداکاری کی۔ ہفتے میں تین دن گھر کا بنا ہوا پیزا کھاتے ہو ابھی دل نہیں بھرا۔ آئی لو پیزا۔ بابا آئی لو پیزا۔ بچہ اپنی دھن میں رہا ،بابا ڈیلیوری بوائے کو بھی تو پیزا کی خوشبو آتی ہو گی۔ ابراہیم بھائی اسے بھی پیزا دیں گے نا۔ وہ تو ان کی ڈیلیوری لے کر آیا ہے، وہ اس سے پیزا لے کر اس کی قیمت ادا کر دیں گے۔ باپ نے سمجھایا لیکن بابا یہ بات تو اچھی نہیں ہے۔ ایک سلائس پیزا تو ڈیلیوری بوائے کو ضرور دینا چاہیے میں ایسا ہی کروں گا جب میں آرڈر کروں گا تو ڈیلیوری بوائے کو بھی پیزا کھلائوں گا کیونکہ اسے بھی خوشبو آتی ہے نا۔ بچے نے معصومیت سے کہا۔بچے نے یہ بات اس لئے کی کہ اس نے والدین کو ایسا کرتے دیکھا تھا ،اسی گرمیوں میں کورونا کے لاک ڈائون کی وجہ سے گھروں میں آنا جانا بند تھا ان کے عزیزوں کی طرف سے آموں کی پیٹی رائڈر کے ذریعے بھجوائی گئی۔ رائڈر کے پہنچنے سے پہلے انہوں نے گھر کے فریج میں رکھے ٹھنڈے آم ایک شاپر میں ڈال دیے۔ ڈیلیوری بوائے سے آموں کی پیٹی لے کر اسے شربت کا گلاس دیا ،مطلوبہ رقم دی اور ساتھ ہی آموں کا شاپر اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ موٹر سائیکل پر سوار لڑکے کی نگاہیں حیرت سے سوال بنی تو دھیرے سے کہا کہ یہ آموں کا آپ کا حصہ ہے گھر لے جائیے گا۔ ابھی نومبر میں حمزہ بھائی کی سالگرہ پر بچے کے بابا نے سالگرہ کا کیک بحریہ ٹائون بھجوانا تھا۔ رائڈر کی خدمات لی گئیں، بیکری سے سالگرہ کے کیک کے ساتھ پیسٹریوں کے دو ڈبے الگ الگ پیک کروائے گئے۔ایک بچے کے لئے اور ایک ڈیلیوری بوائے کے لئے کیونکہ کیک کی خوشبو بھی اسے بھی آتی ہے نا!عزیز قارئین!بہت دنوں سے ایک ایسا منظر دیکھا کہ سوچا اپنے پڑھنے والوں کے ساتھ یہ سب باتیں کی جائیں تاکہ ان الفاظ کے ذریعے نہ جانے کس کے دل پر دستک ہو جائے میں اردگرد دیکھتی ہوں تو ہمارے سماج میں سخت دلی ‘ مفاد پرستی اور بے حسی کے خار دار منظر بڑھتے چلے جاتے ہیں، ہم معاشی خوشحالی کی جس بھی سطح پر ہوں ،زندگی کی شاہراہ پر ہمارے راستے میں آنے والے جو بھی معاشی طور پر کم تر ہیں(Less (privilegedان کا خیال کرنا ان کے لئے اپنے احساس کا دروازہ کھولنا بے حد ضروری ہے۔ وہ آپ کے گھر کے ملازم ضرور ہوں‘ بنکوں شاپنگ مالز‘ سٹوروں ہوٹلوں کے سکیورٹی گارڈز ہوں یا پھر ذائقے دار کھانے آپ کی دہلیز پر پہنچانے والے ڈیلیوری بوائے یا پھر شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سامان پہنچاتے ہوئے۔موٹر سائیکل سوار ہوں جنہیں آج کل رائڈر کہا جاتا ہے ان کی خدمات کے عوض جو بھی معاوضہ بنتا ہے اس میں اضافہ کر کے ہمیشہ ان کو دیں۔ گرمی ہو تو ٹھنڈا پانی شربت ان کو پیش کریں سردیوں کا موسم ہو تو چائے کا پوچھ لیں ،فوڈ ڈیلیوری دینے والوں کو کھانے کی پیشکش ضرور کریں وہ یقینا آپ کی پیشکش قبول نہیں کریں گے تو انہیں کچھ اضافی پیسے ان کے ہاتھ میں تھما دیں۔ سٹورز اور شاپنگ مالز سے ہزاروں کی شاپنگ کر کے نکلیں تو اسی حساب سے کچھ پیسے دروازہ کھولتے اور بند کرتے سکیورٹی گارڈ کے ہاتھ میں تھما دیں۔کچھ سال پہلے کی بات ہے اپنی ایک دوست کے ساتھ مارکیٹ میں تھی ا،یک سفید پوش خاتون کو دیکھا کہ دکان سے کچھ خریدنا چا رہی لیکن بھائو نہیں بن رہا تھا۔ میں نے اپنی دوست سے کہا کہ اس خاتون کی کچھ مدد نہ کر دی جائے تو میری دوست نے مجھے سختی سے روک دیا ایسے سفید پوش اور تہی کیسہ افراد قدم قدم پر ہیں وہ جو غالب نے کہا کہ کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند‘کس کی حاجت روا کرے کوئی۔ بے شک سب کی مدد کرنا ناممکن ہے مگر کسی ایک کے لئے ہم ہمدردی اور احساس کا یہ دروازہ ضرور کھول سکتے ہیں تو اس ایک کے لئے مہربانی کا یہ دروازہ بند نہیں ہونا چاہیے۔ اس روز کے پچھتاوے کے بعد سے میں نے یہی عہد کر لیا کہ اب مدد کی آفر کرتے ہوئے میں یہ نہیں سوچوں گی اگر اس نے برا مان لیا تو۔؟پھر عملی طور پر بھی دیکھا‘میرے محترم غریب وطن حیران ضرور ہوتے ہیں برا نہیں مانتے ‘ بس ان کے خدود خال پر حیرانی چھا جاتی ہے کہ اللہ نے ان کی مدد کا وسیلہ کس جگہ کیسے کسی اجنبی کو بنا دیا اور ان کے چہرے پر چھائی یہ حیرت آمیز خوشی میرے دل کو لازوال مسرت سے ہمکنار کر دیتی ہے۔ میں کچھ عرصے سے اس موضوع پر لکھنا چاہتی تھی جو کچھ میرے تجربے میں آیا وہ اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہتی تھی مگر خیال آتا کہ یہ خود نمائی نہ ہو۔ خود نمائی کسی صورت گوارا نہیں تھی کہ ہم تو فطرتاً ہی خوشبو کی روایت سے الگ لوگ ہیں۔خود پہ ظاہر نہ ہوئے تجھ کو چھپانے کے لئے۔ پھر یوں ہوا میں جب بھی کسی دوسرے موضوع پر کالم لکھنے لگتی اسی کالم کا خیال میرے ذہن پر چھایا رہتا پھر کچھ سخت دلی کے ایسے وا قعا ت میرے اردگرد ہوئے کہ سوچا اس موضوع پر ضرور لکھنا ہے، لوگوں کو ترغیب دینی ہے کہ اپنے پورے دن میں ہر روز احساس ہمدردی اور مہربانی کے چھوٹے چھوٹے کام بغیر پلاننگ کے (Randam act)کرتے رہیں۔ کسی غریب دکاندار سے بلا ضرورت بھی کچھ خرید لیں۔ قیمت کے نام پر پیسے زیادہ دیں، کسی سکیورٹی گارڈ کو کچھ رقم تھما دیں۔ کسی اجنبی بھوکے کو کھانا کھلا دیں اور ہاں پیزا کی ڈیلیوری آئے تو ڈیلیوری بوائے کو بھی کھانے کی آفر کریں کیونکہ پیزا کی خوشبو تو ڈیلیوری بوائے کو بھی آتی ہے نا!