گذشتہ روز ہندو بھائیوں نے ہولی کا تہوار منایاملتان سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں تقریبات ہوئیںہولی کا دن‘ خوشی اور عید کا تہوار ہے ، بحیثیت پاکستانی ہم ان کی خوشیوں میں شریک ہیں ، جس طرح ہندو مذہب بہت قدیم ہے اسی طرح ہولی کا تہوار بھی قدیم ہے۔ ہندو یہ تہوارملتان کے پرہلاد کی یاد میں مناتے ہیں۔ہولی کا آغاز ملتان سے کیسے ہوا ؟ اس بارے ملتان کے رام پرشاد بتاتے ہیں کہ ’’ ہزاروں سال پہلے ملتان کا متکبر حکمران ہرنایک سپو خود خدا بن بیٹھا، اس کے گھر پرہلاد پیدا ہوا، کچھ بڑا ہوا تو باپ کی طرف سے’’ وشنو ‘‘ (خدا) کا انکار اسے کو پسند نہ آیا، ایک دن اپنے استاد کے ساتھ پرہلاد باپ کے دربار میں حاضر ہوا، وہ شراب کے نشے میں تھا، پرہلاد نے جھک کر سلام کیا تو اس نے پوچھا تم نے کیا پڑھا ہے، پرہلاد نے کہا میںنے اس ہستی کی حمد پڑھی ہے جس کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا جو کل کائنات کا مالک ہے،یہ سن کر پرہلاد کاباپ سخت غصے میںآ کر بولا میں تین بادشا ہتوں کا خدا ہوں ، میرا بیٹا میرا منکر ہے ،اسی غصے کی حالت میں ہرنا نے حکم دیا کہ پرہلاد کو آگ میں زندہ جلا دو ، کہا جاتا ہے کہ آگ کے لاؤ میں اسے ڈالا گیا ، مگر آگ گلزار بن گئی ، اس خوشی میںخدا پرستوں نے جشن منایا اور خوشی میں ایک دوسرے پر رنگ ڈالے گئے، اور خوشی سے رقص کیا گیا ، خوشی کے اس رقص کو ہولی کا نام دیا گیا۔ ‘‘ تاریخ کو جدید اور سائینٹفک نظروں سے دیکھنے والے حفیظ خان اپنی کتاب مآثر ملتان میں لکھتے ہیں کہ ملتان کے تاریخی قلعہ پر عہد عتیق کی اگر کوئی حقیقی اور یقینی تصویر موجود ہے تو اس دور کے اہم فرمانروا پرہلاد کے نام سے موسوم ’’ پرہلاد مندر ‘‘ ہے ، پرہلاد مندر کو اگر وادی سندھ کی پہلی باقاعدہ یونیورسٹی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔، کہا جاتا ہے کہ پرہلاد مدرسہ کی تاریخ پانچ ہزار قبل مسیح ہے ، آثار قدیمہ کے حوالے سے یہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی ورثہ بھی تھا ، جسے شدت پسندوں نے مسمار کر دیا ، ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کے اس قدیم ورثے کو بحال اور محفوظ کر کے قوموں کی برادری میں پاکستان کا نام سر بلند کیا جائے ۔ ہولی کے دن ہندئو کے گھروں میں طعام پکائے جاتے ہیں ۔ بچے ، بوڑھے ، جوان ، مرد اور عورتیں ایک دوسرے پر رنگ چھڑکتے ہیں ، جس طرح ہر خوشی کے تہوار پر مقامی رنگ اور مقامی پسند نمایاں ہوتی ہے، جیسا کہ عید کے موقع پر عربی اپنا لباس اور اپنی پسند کا طعام پکاتے ہیں اور دوسرے ملکوں کے مسلمان اپنی اپنی پسند کے، اسی طرح تقسیم سے پہلے جب سرائیکی وسیب میں ہندو بہت زیادہ تھے تو وہ مقامی سرائیکی ثقافت کے رنگوں میں ڈھل کر اپنی خوشی کا تہوار مناتے تھے، ایک دوسرے پر چھڑکنے کیلئے سبز ،سرخ اور پیلے رنگ کا استعمال کرتے ، خوشی کے موقع پر ہندو عورتیں اور مرد جھمر کے ’’پِڑ ‘‘ پر سرائیکی دعائیہ گیت ’’ کھڑی ڈیندی آں سنہیڑا انہاں لوکاں کوں ، اللہ آن وساوے ساڈیا جھوکاں کوں ‘‘ یا پھر ’’ ماہی دا رومال ، سب ساوا، پیلا ، لال ‘‘ جیسے لوک گیت گائے جاتے اور ہندوؤں کی ان خوشیوں میں مسلمان بھی اسی طرح شریک ہوتے ، جس طرح ہندو مسلمانوں کی عید پر خوشی میں شریک ہوتے ۔ ہمارے صوفیا ء نے انسانوں کے درمیان رواداری کے جس جذبے کو فروغ دیا اس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔سرائیکی زبان کے عظیم شاعر خواجہ فرید ؒ نے اپنی تین کافیوں میں ’’ ہولی ‘‘ کا ذکر نہایت ہی دلپذیر انداز میں کیا، خواجہ فرید کی ہندی کافی ’’ بندرا بن میں کھیلے ہوری ، شام دوارے میرو لال ‘‘ ہندی اور سرائیکی ادب ایک کی ایسی شاہکار کافی ہے جس کا ایک ایک لفظ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے، اسی طرح کافی نمبر 85 کے ایک شعر میں خواجہ فرید ؒ کہتے ہیں کہ سندر ( کرشن کا ایک نام ) کے ساتھ کونج گلی میں خوشی سے ہولی کھیلوں ، اسی کافی کے مقطع میں خواجہ صاحب ’’ من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ ‘‘ کے فلسفے کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ اور سے کام فرید نہ میرو ، آتم دیو مناؤں ‘‘۔ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے صوفیا کرام نے لوگوں کو انسان دوستی اور رواداری کا درس دیا ہے، دوسرے بزرگ صوفیا کی طرح خواجہ فریدؒ نے ہندو اوتار اور دیوی دیوتاؤں کا ذکر اپنے کلام میں جگہ جگہ کیا ہے، معروف محقق قیس فریدی کی تحقیق کے مطابق آپ کی کافیوں میں آتم دیو ، آنند ، روم ، برہما، بشن ، جگوان ، بلدیو ، جسودا، یشومتی ، دسرتھ ، رام چندر جی ، سیتا جی ، کالکی ، کرشن ، کینہا ، کان ، شام ، گروجی ، ست گرو ، گنیش جی ، لچھمن جی ، مہادیو، مہیش ، نارائن ، ہر اور ہری کا ذکر اکثر کافیوں میں ملتا ہے، اسی طرح بہت سے ہندو شاعروں نے حمد ، نعت ، منقبت اور قصیدے بھی لکھے ہیں ۔ یہ سب مذہبی روادری کے مظاہر ہیں ، آج کے عدم برداشت ، انتہا پسندانہ اور دہشتگردانہ دور میں ہمارے صوفیا کرام کی صوفیانہ تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے ۔کہنے کو کو تو اقلیتوں کو ملک میں برابر نمائندگی حاصل ہے ‘ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا بھی فرمان ہے کہ پاکستان میں رہنے والے تمام لوگوں کو بلا رنگ ، نسل و مذہب برابر حقوق حاصل ہوں گے ، آئین پاکستان میں بھی یہی الفاظ درج ہیں مگر آگے جا کر یہ شق درج کر دی گئی کہ کوئی غیر مسلم ملک کا صدر نہیں بن سکتا ، اس سے آئین میں درج ’’ سب کو برابر حقوق ‘‘ والی بات میں تضاد پیدا ہوا اور پہلے والی بات کی نفی ہو گئی ، لہٰذا تضادات کو ختم کیا جائے ۔ بھارت میں ہندوں کی جانب سے مسلسل مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہے‘ مختلف بہانے بنا کر بھارت میں مسلمانوں کو تنگ کیا جاتا ہے اورمودی کے برسراقتدار آنے کے بعد بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر میں مظالم بڑھا دیئے گئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت پاکستان کی طرف سے امن کی خواہش کو نظر انداز نہ کرے اور امن کی طرف آئے تاکہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے لوگ امن سے رہ سکیں اور ہندؤ ہولی اور مسلمان عید کا دن خوش ہو کر منا سکیں اور ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں ۔ ہولی کے دن کے موقع اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ حکومت پاکستان جس طرح عید پر مسلمانوں کیلئے عام تعطیل کرتی ہے، تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کرتی ہے، ریڈیو ٹیلی ویژن پر خصوصی پروگرام نشر ہوتے ہیں ، پاکستان میں ’’ کرسمس ‘‘ کے موقع پر بھی روائت موجود ہے ،لازم ہے کہ آج ہندوں کیلئے بھی حکومت اس طرح کے اقدامات کا اعلان کرے تاکہ ہولی کی خوشیاں دوبالا ہو سکیں۔