کم و بیش چار ہفتے قبل فون آیا‘روایتی پرجوش علیک سلیک کے بعد پوچھا‘’’کورونا کا کیا حال ہے‘‘ عرض کیا اللہ تعالیٰ نے اب تک محفوظ رکھا‘ دعا کریں آئندہ بھی خیر کا معاملہ ہو۔ قہقہہ لگایا‘دعائیں دیں اور فون بند کر دیا‘ یہ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ سے آخری بالمشافہ رابطہ تھا‘ منگل کی دوپہر کوپتہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب کورونا کے موذی مرض میں مبتلا ہسپتال میں ہیں‘ فون کیا تو بند ملا‘ اِدھر اُدھر سے عزیزم علی طاہر شیخ کا نمبر تلاش کیا‘ رابطہ ہوا تو صاحبزادے نے اطلاع دی کہ انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا‘ دل دھڑکا‘ الفاظ دم توڑ گئے‘ ہسپتال آنے اور ڈاکٹر صاحب سے ملنے کی اجازت طلب کی تو علی طاہر نے روک دیا کہ آئسولیشن وارڈ میں داخلہ ممنوع ‘ آپ کی عمر کے لوگوں کے لئے خطرناک بھی ہے‘ سو خود آنے کے بجائے دعا کریں‘ دعائیں مگر ہمیشہ کب قبول ہوتی ہیں؟دفتر جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ ٹی وی کے ذریعے عزیز دوست کے انتقال کی خبر مل گئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ سے شناسائی چار عشرے قبل 1980ء کی دہائی میں ہوئی‘سید تاثیر مصطفی‘ ڈاکٹر صاحب کے ہونہار شاگرد اور محلے دار تھے‘ ایک قومی روزنامہ میں ہم ایک ساتھ کام کرتے اور تاثیر صاحب قاری مغیث کے گن گاتے‘ ان دنوں مغیث الدین شیخ کے نام کے ساتھ ڈاکٹر یا پروفیسر کے بجائے قاری کا لاحقہ لگا تھا‘ مذہبی محافل میں قرآن مجید کی خوش الحانی سے تلاوت کے سبب ڈاکٹر صاحب کو دوست احباب قاری مغیث کے نام سے یاد کرتے‘ برادر عزیز صاحبزادہ سید خورشید گیلانی مرحوم اور ڈاکٹر صاحب نے ایک ساتھ دورہ ایران کیا تو واپسی پر برادر عزیز ڈاکٹر صاحب کے گرویدہ نظر آئے‘ ڈاکٹر صاحب کی خوش خلقی‘ علم دوستی اور کثرت مطالعہ نے انہیں متاثر کیا جبکہ ڈاکٹر صاحب بھی اٹھتے بیٹھتے خورشید گیلانی‘ خورشید گیلانی پکارتے‘ تعلق مزید مضبوط ہوا اور پھر دوستی بھائی چارے میں بدل گئی‘ ڈاکٹر مغیث الدین کے اصل جوہر اس وقت کھلے‘ جب انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن سٹڈیز کا چارج سنبھالا‘کئی عشروں سے قائم شعبہ صحافت کو انہوں نے شعبہ ابلاغ عامہ میں بدلا‘ ادارے کی صرف شکل و صورت تبدیل نہ کی بلکہ اسے بین الاقوامی معیار کا ادارہ بنانے کے لئے وہ کچھ کیا جو ان سے پہلے کسی سربراہ نے سوچا نہ تھا‘ایشیا کی قدیم پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کی ایک زمانے میں شہرت یہ تھی کہ جس طالب علم کو کسی اور شعبے میں داخلہ نہ ملتا وہ یہاں بآسانی داخل ہو جاتا‘ اس شعبہ کے ایک قابل احترام سینئر استاد اور سابق صدر شعبہ نے خود بتایا کہ جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے لاہور آئے تو انہیں کسی نے مشورہ دیا کہ کہیں داخلہ نہ ملے تو شعبہ صحافت میں فارم جمع کرا دینا داخلہ یقینی ہے وہ یہ بھی بتاتے ہیں ’’داخلے سے قبل انہیں شعبہ صحافت کا علم ہی نہیں تھا۔‘‘ یہ کریڈٹ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کو جاتا ہے کہ ان کی سربراہی میں شعبہ ابلاغیات عامہ کا معیار بلند ہوا‘ انہوں نے انٹری ٹیسٹ کا نظام رائج کیا اور ایک وقت آیا کہ شعبہ ابلاغیات میں داخلے کا میرٹ انجینئرنگ ‘ میڈیکل اور ایم بی اے کے برابر ہو گیا۔ شعبہ ابلاغیات تدریس اور تحقیق کا مایہ ناز ادارہ بنا کر اپنی اہلیت و صلاحیت کا لوہا تو منوایا مگر حاسدین کی تعداد میں بھی اضافہ کر لیا‘ڈاکٹر صاحب دھڑے باز لاہورئیے تھے مگر صدر شعبہ بنے تو انہوں نے روایتی طور پر مخالف دھڑے کے سینئر اساتذہ کی پروموشن کے لئے رکی ہوئی فائلوں کی گرد جھاڑی‘ وائس چانسلر سے لڑ جھگڑ کر انہیں ان کا حق دلوایا اور ثابت کیا کہ وہ اعلیٰ ظرف انسان ہیں‘ دھڑے بندی میں بھی کسی کی حق تلفی کے روادار نہیں۔ اسلام اور پاکستان کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب سو فیصد جانبدار شخص تھے‘ شعبے اور یونیورسٹی کے علاوہ شہر میں ہونے والی ہر تقریب میں وہ اپنا نقطہ نظر الفاظ دبائے بغیر بیان کرنے کے عادی تھے‘ سامنے جامعہ کا سربراہ ہوتا یا کوئی حکمران وہ بلا خوف لومتہ لائم دل کی بات زباںپر لاتے اور اپنے رب و ضمیر کے روبرو سرخرو ہوتے۔ ان کے حلقہ احباب میں ہر عقیدے‘نظریے اور شعبے کے لوگ شامل تھے‘ پچھلے سال رمضان المبارک میں گھر پر افطاری دی تو نظریاتی طور پر ان کے نظریاتی مخالف دوست بھی شریک ہوئے جو ان کی وسیع المشربی کا اظہار تھا۔ نماز جنازہ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد نے پڑھائی‘ کورونا کے خوف سے بے نیاز اساتذہ اور صحافیوں کی کثیر تعداد شریک تھی‘ جو بھی ملا‘ ڈاکٹر صاحب کی کسی نہ کسی نئی خوبی اور نیکی کے بارے میں رطب للسان نظر آیا‘ شاگرد تھا تو شفقت اور خیر خواہی کا شاہد‘ کولیگ تھا تو علمی و تحقیقی صلاحیت کا معترف اور دوست تھا تو دوست نوازی کا کوئی نہ کوئی واقعہ بیان کرنے کے لئے بے تاب‘ڈاکٹر صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد تین نجی جامعات میں شعبہ ابلاغیات عامہ کی سربراہی کی اور جہاں بھی رہے شعبہ ابلاغیات کو چار چاند لگا دیے۔ طالب علم داخلے کے لئے ٹوٹ پڑتے۔ ڈاکٹر صاحب شہر کے ہر صاحب علم کو جس کا صحافت سے تعلق اور طویل تجربہ تھا‘ اپنے شعبہ میں پڑھانے کی ترغیب دیتے اور اپنے طالب علموں کو نصابی کتابوں کے علاوہ ان بلند پایہ صحافیوں کے تجربات و مشاہدات سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرتے‘ برادرم سجاد میر‘ سہیل وڑائچ‘سلمان عابد‘رئوف طاہر‘ عامر ہاشم خاکوانی‘ سلمان غنی‘ تاثیر مصطفی اور تنویر شہزاد کتنے ہی اخبار نویسوں کو ڈاکٹر صاحب نے جامعات میں جز وقتی تدریس کی راہ دکھائی۔ایک بار مجھے بھی گھسیٹا‘مگر یہ بھاری پتھر میں نے اٹھایا اور چوم کر رکھ دیا۔ڈاکٹر صاحب کی وفات سچی بات ہے میرے لئے ذاتی صدمہ ہے لاہور میں جن چند دوستوں کے بل بوتے پر زندگی ہمیشہ خوبصورت‘ پرسکون اور پرلطف رہی ڈاکٹر مغیث ان میں سے ایک تھے۔ مہربان‘خیر خواہ‘ دعا گو ‘ کشادہ دل اور حوصلہ افزائی میں پیش پیش‘ ہر خوشی میں شریک اور ہر دکھ میں شامل‘ کورونا واقعی بے مروّت مرض ہے‘ مغیث الدین جیسے بھلے مانس نیک دل مدّرس و محقق کا لحاظ نہ کیا‘ لے گیا ؎ جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی