آزاد کشمیر میں عمران خان کی تقریروں کا عمومی تاثر مثبت ہے‘ مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو کی سطح پر وہ نہیں اُترے اور کہیں بھی نریندر مودی کو بھولے نہ اس کے آر ایس ایس نظریے کو فراموش کیا‘ گیلپ سروے نے ان کی ذاتی مقبولیت اور تحریک انصاف کی بطور جماعت عوامی پذیرائی کی تصدیق کی ۔ سروے کے مطابق شخصی مقبولیت میں مریم نواز شریف پانچویں‘میاں نواز شریف چوتھے‘ میاں شہباز شریف تیسرے اور بلاول بھٹو دوسرے نمبر پر ہیں‘ گویا پیپلز پارٹی کم بیک کر رہی ہے اور راجہ فاروق حیدر کے پانچ سالہ دوراقتدار نے چودھری عبدالمجید حکومت کی غلطیوں ‘ کمزوریوں اور کوتاہیوں کو ڈھانپ لیا ہے‘ مسلم لیگ(ن) نے آزاد کشمیر میں انتخابی مہم چلانے کی ذمہ داری مریم نواز شریف کو سونپی اور مسلم لیگ کے صدر و پارلیمانی لیڈر میاں شہباز شریف کے ریاست میں داخلے پر غیرا علانیہ پابندی لگا دی۔ اس فیصلے کے محرکات کا شریف خاندان کو علم ہو گا اور فوائد بھی وہی جانتے ہوں گے مگر گیلپ سروے فیصلے کی افادیت کی گواہی نہیں دیتا۔ نومولود سیاستدانوں اور تحریک پاکستان و تحریک آزادی کشمیر سے ناواقف تجزیہ کاروں کوشائد علم ہے نہ وہ جاننے کے خواہش مند ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کی طرح آزاد کشمیر کے عوام کی پاکستان سے محبت کا موازنہ مجنوں کی سگ لیلیٰ کے ساتھ وارفتگی سے کیا جا سکتا ہے ‘جذباتی اور صلہ و ستائش سے بے نیاز‘ اسلام آباد میں برسر اقتدار شخص اور جماعت کے علاوہ پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے بارے میں کشمیری عوام کا نقطہ نظر ہمیشہ ہمدردانہ‘دوستانہ اور خیر خواہانہ ہوتا ہے۔ کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کے بیس کیمپ کی حیثیت سے آزاد جموں و کشمیر کو اپنی موجودہ خود مختار حیثیت برقرار رکھنے ‘مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور روز مرہ مسائل حل کرنے کے لئے وفاقی حکومت کی سرپرستی اور سکیورٹی اداروں کی پشت پناہی کی ضرورت رہتی ہے۔ پنجاب‘ سندھ‘ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے برعکس خطہ کشمیر کے عوام بھارت کو اپنی سلامتی کے لئے مستقل خطرہ تصور کرتے ہیں اور پاک فوج کو اپنی آزادی و خود مختاری‘ عزت و آبرو کا حقیقی محافظ ‘ مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان تو برملا کہا کرتے تھے کہ پاک فوج کی عدم موجودگی میں ہم ایک بریگیڈ بھارتی فوج کی مار ہیں‘ مریم بی بی نے عمران خان کے ساتھ جس طرح ان کے ’’سلیکٹرز‘‘ کو بھی رگیدا وہ کشمیری عوام کے مزاج‘ مفاد اور ترجیحات سے متصادم بیانیہ تھا جس کا احساس 25جولائی کی شام ہو گا کہ کشمیر میں امان اللہ خان ایسا ایماندار‘ مخلص اور نڈر سیاستدان محض الحاق پاکستان کے نعرے کی مخالفت میں پٹ گیا اور کے ایچ خورشید مرحوم جیسا اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ محترمہ فاطمہ جناح کا لاڈلا اور بے لوث لیڈر خود مختار کشمیر کا ڈھول بجاتے عوام کی نظروں سے گر گیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مقبوضہ کشمیر میں شیخ عبداللہ اور اس کے خاندان کی مقبولیت برقرار تھی اور پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الااللہ کے نعرے نوجوان نسل کے ورد زباں نہ تھے‘ اب تو پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور جموں و کشمیر کے دونوں حصوں میں الحاق پاکستان کے سوا کوئی بات سنی جاتی ہے نہ کہی جا سکتی ہے۔ سید علی گیلانی‘ برہان وانی شہید‘ یاسین ملک اور دیگر حریت لیڈروں نے کشمیری عوام کے ذہنوں میں بھارت سے آزادی‘ پاکستان سے غیر مشروط الحاق کے سوا کوئی تصور باقی ہی نہیں رہنے دیا اور سب جانتے ہیں کہ اس جدوجہد میں سب سے اہم اور توانا کردار کس کا ہے؟ دنیا بھر میں کشمیریوں کا وکیل کون ہے؟ اور کنٹرول لائن کے دونوں طرف آزادی کے متوالے اپنی سلامتی اور تحفظ کے لئے کس کی طرف دیکھتے ہیں؟ آزاد کشمیر میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ چورن بیچنے او رمظفر آباد‘ راولا کوٹ ‘ باغ‘ میر پور ‘ کوٹلی میں اسفند یار ولی‘ محسن داوڑ‘ محمود اچکزئی کی بولی بولنے والا سیاستدان زمینی حقائق سے واقف نہیں یا اپنے آپ کو امان اللہ خان‘ کے ایچ خورشید سے زیادہ مقبول‘ عقلمند اور چالاک سمجھتا ہے‘ عمران خان نے تراڑ کھل میں ایک بات مگر ایسی کہی جسے سن کر ہر کشمیری اور محب وطن پاکستانی نے سر پیٹ لیا‘ پاکستانی وزیر اعظم نے فرمایا کہ ’’ہم آزاد کشمیر میں دو ریفرنڈم کرائیں گے‘ ایک میں آپ فیصلہ کریں گے کہ بھارت اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ جانا ہے اور دوسرے ریفرنڈم میں پاکستان سے الحاق یا آزاد ریاست کا فیصلہ ہو گا‘‘ جولائی 1947ء میں کشمیری عوام نے مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے الحاق پاکستان کی قرار داد اس وقت منظور کی جب پاکستان نام کی ریاست ابھی وجود میں نہیں آئی تھی‘3جون کے فارمولے کی روشنی میں قیام کے امکانات روشن تھے‘ تب سے اب تک کشمیریوں نے پاکستان کو اپنی منزل قرار دے رکھا ہے‘ مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ فوج کی موجودگی میں مظلوم کشمیری ’’پاکستان سے رشتہ کیا لاالا الااللہ‘‘ کا نعرے لگاتے اور پیلٹ گن کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں‘ سرینگر اور دوسرے شہر و دیہات میں کشمیری پاکستان رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کے مطابق عیدالفطر اور عیدالاضحی کرتے‘ دنیا بھر میں پاکستان اور بھارتی کرکٹ ٹیم میں مقابلہ ہو تو پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے اور پاکستان کی جیت پر بھنگڑے ‘ لڈیاں ڈالتے ہیں‘ شہیدوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر لحد میں اتارتے اور بھارتی فوجی دستوں کی موجودگی میں سبز پرچم لہراتے ہیں مگر ہمارے وزیر اعظم ریفرنڈم میں بھارت کو مسترد کر کے پاکستان کے حق میں فیصلہ سنانے والے کشمیریوں کو مزید ایک ریفرنڈم کی پیشکش کر رہے ہیں جس میں کشمیریوں کو الحاق پاکستان کے فیصلے پر نظرثانی کرنے اور آزاد ریاست کے قیام کا حق حاصل ہو گا‘ سبحان اللہ!یعنی پاکستان کے حق میں کشمیری عوام کی رائے کو عمران خان کی حکومت بالائے طاق رکھ کر ایک مرتبہ پھر پوچھے گی کہ ’’کیا آپ ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزاد ریاست کے قیام کا ارادہ رکھتے ہیں‘‘عمران خان کو یہ راہ جس نے بھی سجھائی اس کی عقل ودانش اور پاکستان سے وفاداری کو تیس توپوں کی سلامی۔بلوچستان کے کسی سیاستدان نے عمران خان سے یہ حق مانگ لیا تو جواب کیا ہو گا؟ کاش کوئی سوچ لیتا۔ 1990ء کے عشرے میں جب جہاد کشمیر کی لے تیز ہوئی اور کشمیری عوام نے سرفروشی کی تاریخ رقم کی تو بھارتی حکومت نے امریکی اور برطانوی سفارت کاروں کے ذریعے خود مختار کشمیر کی پیش کش کی مگر پاکستانی اور کشمیری قیادت نے اسے یکسر مسترد کر دیا کہ یہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں‘ کشمیری عوام کی آرزوئوں اور پاکستان کے قومی مفاد سے یکسر متصادم تجویز تھی۔مریم نواز ‘ راجہ فاروق حیدر نے صوبے کی تشکیل کا شوشہ چھوڑا اور اپنے طور پر عمران خان کو دبائو میں لانے کی کوشش کی مگر ووٹروں کا ردعمل منفی رہا‘ مریم نواز کشمیری عوام کو ورغلا رہی ہیں کہ موجودہ وفاقی حکومت ریاست کی برائے نام آزاد حیثیت ختم کرکے اسے پاکستان کا صوبہ بنانا چاہتی ہے اور وزیر اعظم پاکستان نے مریم نواز کے نہلے پہ دہلا پھینکا کہ کشمیری چاہیں تو اپنی قربانیاں فراموش‘ آرزوئیں دفن اور پاکستان سے تعلق توڑ کر نیپال‘ بھوٹان کی طرح طفیلی ریاست قائم کر لیں عالمی سازشوں کی آماجگاہ اور بھارتی عسکری جارحیت کے خطرے سے دوچار ریاست ؎ حیراں ہوںدل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں